جس طرح عرب ممالک کے وسائل پر آج امریکہ ویوروپ کا قبضہ ہے اسی طرح مسلم ملکوں کے وسائل پر مغربی طاقتیں قابض رہیں گی ؟بھارت میں وہ دلتوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے، اسی طرح مزید گرے گا اور وہ عہد وسطیٰ کے دلتوں کے مقام پر پہنچ چکے ہونگے؟ جس طرح پانچ ہزار سال تک دس فیصد برہمنوں نے نوے فیصد آبادی پر راج کیا اسی طرح مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہونگے اور مسلمان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہونگے؟ پیوریسرچ سینٹر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی قیاس آرائی تو کی ہے مگر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جنھیں ہم اٹھا رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ جس طرح سے عرب ملکوں میں مسلمان ہی مسلک کے نام پر مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، اس وقت بھی کاٹتے رہیں گے؟ جس طرح عراق اور شام میں ’داعش‘خون خرابہ کر رہا ہے کرتا رہے گا؟ جس طرح مصر میں اسلام دشمنوں کے اشارے پر جمہوریت کی جڑیں کھودی جارہی ہیں، کھودی جاتی رہیں گی؟ جس طرح سعودی عرب میں اسلام کے نام پر شہریوں کاناطقہ بند کیا جارہا ہے اور خواتین کی زندگی دوبھر کی جارہی ،اس کا سلسلہ جاری رہے گا؟جس طرح پاکستان کی مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں پھٹتے رہیں گے؟ جس طرح افغانستان سے افریقہ تک اسلام کے نام پر تنگ نظری کا دور دورہ ہے ،جاری رہے گا؟
پیوریسرچ کا کہنا ہے
بھارت سال 2050 تک دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہو جائے گا اور اس معاملے میں وہ ابھی سب سے بڑی مسلم آبادی والے انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دے گا جب کہ اس وقت تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندوؤں کی ہو جائے گی۔پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے جمعرات کو جاری مذہب سے متعلق اندازوں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کا اندازہ ہے اور ہندو و عیسائی آبادی عالمی آبادی میں اضافہ کی رفتار کے مطابق رہے گی۔اس میں کہا گیاہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک بنا رہے گا لیکن وہ انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بھی بن جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 17. 7 کروڑ مسلم آبادی کے مقابلے میں ابھی انڈونیشیا میں قریب 20. 5 کروڑ مسلم آبادی ہے۔ اس کے مطابق اگلی چار دہائیوں میں عیسائی سب سے بڑا مذہبی گروپ بنا رہے گا لیکن اسلام کسی دوسرے بڑے مذہب کے مقابلے میں تیز رفتار سے بڑھے گا۔
برابر ہو جائے گی مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی!
پیو ریسرچ کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ سال 2050 تک تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں (2.8 ارب یا آبادی کا 30 فیصد) کی تعداد اور عیسائیوں کی تعداد (2.9 ارب یا آبادی کا 31 فیصد) تقریبا اسی طرح کی ہو گی۔ اس میں کہا گیا ہے، مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر میں عیسائیوں کے قریب ہو گی اوراگر یہ رجحان جاری رہتا ہے تو 2070 کے بعد اسلام سب سے زیادہ مقبول مذہب ہو گا۔ سال 2050 تک مسلم یورپ کی آبادی کے قریب 10 فیصد ہوں گے جو 2010 کے 5.9 فیصد سے زیادہ ہوگا۔
پیو ریسرچ رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کی آبادی دنیا بھر میں 34 فیصد بڑھنے کا اندازہ ہے جو ایک ارب سے کچھ زیادہ بڑھ کر 2050 تک تقریبا 1.4 ارب ہو جائے گی۔ اس میں کہا گیا کہ سال 2050 تک دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہندوؤں کی آبادی ہوگی۔ وہ دنیا کی کل آبادی کا 14.9 فیصد ہوں گے۔ اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے. ان لوگوں کی تعداد 13.2 فیصد ہو گی۔ فی الحال کسی بھی مذہب میں ایمان نہ رکھنے والے لوگ دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہیں۔ اس مدت تک یورپ میں ہندوؤں کی آبادی قریب دوگنی ہونے کی امید ہے. یہ بنیادی طور پر امیگریشن کے چلتے قریب 28 لاکھ (0. 4 فیصد) ہو جائے گی۔
برطانیہ میں عیسائی اقلیت مذہب بنے گا
شمالی امریکہ کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد اگلی دہائیوں میں تقریبا دوگنی ہونے کی امید ہے. بدھ مت واحد ایسا مذہب ہے جس کے پیروکاروں کے بڑھنے کا امکان نہیں ہے۔ ایسا اس مذہب کے پیروکاروں کی زیادہ عمر ہونے اور بودھ ممالک (چین، جاپان اور تھائی لینڈ) میں مستحکم تولیدی شرح کی وجہ سے ہو گا۔ مطالعہ سے یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک ہر نو برطانوی میں ایک مسلمان ہوگا۔ وہاں عیسائی اقلیتی مذہب بننے والا ہے۔ تخمینوں کے مطابق عیسائی کے طور پر شناخت رکھنے والی برطانیہ کی آبادی 2050 تک تقریبا ایک تہائی رہ جائے گی اور یہ محض 45.4 فیصد ہو گی۔
ایشیا میں ہے دنیا کی 62فیصدمسلم آبادی
پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آور ی عرب کی سرزمین پر ہوئی۔ اس لحاظ سے یہ دھرتی مسلمانوں کے لئے ہمیشہ قابل احترام رہی ۔ یہیں قرآن کانزول ہوااور یہیں سے اسلام کا پیغام ساری دنیامیں پھیلا۔ اس تاریخی حقیقت سے انکارممکن نہیں‘مگرموجودہ دنیا کو دیکھاجائے‘ تو مسلمانوں کی اکثریت غیرعرب ہے۔مسلمان یوں توساری دنیامیں بستے ہیں۔ دنیاکا کوئی گوشہ ایسا نہیں ‘جوبادہ توحید کے متوالوں کا مسکن نہ ہو۔ افریقہ کے تپتے ریگستانوں سے لے کر یوروپ کی برف پوش وادیوں تک‘ ہرجگہ مسلمان پھیلے ہوئے ہیں‘ مگر ان کی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے اوروہ بھی عرب کے باہررہتی ہے۔
تمام عرب ملکوں کی آبادی کو یکجا کردیاجائے‘ تو بھی وہ کل ملاکر انڈونیشیا کی آبادی کے برابر نہ پہنچیں۔ اسی طرح عوام پر اثرات ڈالنے والی شخصیات میں بیشتر کا تعلق بھی غیر عرب خطو ں سے ہی ہے۔ بیشتر مسلمان ہندوستان‘پاکستان ‘بنگلہ دیش ‘چین‘انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ افغانستان اور سابق سوویت یونین کے خطوں میں رہتے ہیں۔ اگردیکھا جائے‘ توتمام مسلمانوں میں تقریباً80فیصدکاتعلق انہیں ملکوں سے ہے۔ اس طرح یہ ایک طاقتور ترین مسلم خطہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی طاقت کا احساس نہیں کیا اور ہرمعاملے میں ان کی نظرعرب ملکوں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قائدعرب کی طرف سے اٹھے اوران کی مذہبی رہنمائی بھی عرب کے علماء ہی کریں۔ حالانکہ جس طرح سے غیر عرب علاقے مسلمانوں کی اکثریت کے مسکن ہیں اس طرح بڑے بڑے قائدین‘ اہل علم اور عظیم ادارے بھی غیر عرب ایشیائی ملکوں میں ہی ہوئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘مولانا محمدعلی جوہر‘ علامہ اقبال‘ مولانا ابوالاعلی مودودی‘ محمد علی جناح‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘سرسیداحمد خاں‘ سیدامیر علی‘ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام‘ ڈاکٹرعبدالقدیرخاں‘ قاضی نذرالاسلام وغیرہ وہ شخصیات ہیں‘ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالم گیر اور دیرپا اثرات چھوڑے۔ یہ سبھی غیر عرب ہیں اور جنوب ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے تعلیمی ادارے
پاکستان‘ بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں کئی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور مدارس اسلامیہ ہیں۔ ہندوستان جہاں عام طور پر مسلمانوں کو حکومت سے شکایتیں رہتی ہیں‘ یہاں بھی کئی بڑے بڑے ادارے ہیں‘ جومختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین پیدا کررہے ہیں اوریہاں عرب کے طلباء بھی استفادے کے لئے قدم رکھ رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اورہمدرد یونیورسٹی ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم تعلیمی ادارے ہیں‘ جہاں عصری اور جدید تکنیکی تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دینی تعلیم کے لئے یہاں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند ہے‘ جہاں افریقہ ویوروپ سے بھی طلباء آتے ہیں۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور‘ندوۃ العلماء لکھنؤ‘الثقافتہ السنیہ کا لی کٹ‘الجامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ‘ الجامع الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ‘ مظاہرعلوم سہارنپور اور جامعہ سلفیہ بنارس ایسے دینی تعلیمی ادارے ہیں‘ جن کے نام جامعہ ازہر( مصر) کے بعد لئے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی محققین پیدا کئے جاتے ہیں‘ جو اسلامی موضوعات پرکام کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاردیتے ہیں۔ اس قسم کے مدرسے جنوب ایشیا میں بڑے پیمانے پر ہیں‘ جہاں اہل عرب بھی علم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔
غیر عرب مسلمان تعلیم میںآگے
خاص بات یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے مقابلے غیر عرب مسلمانوں میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے‘ اسی لئے ان کے اندر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔ عرب ملکوں میں دولت کی بہتات ہے‘ کیونکہ وہاں کی زمین ’’سیال سونا‘‘ اگلتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس عیش وعشرت کے سامان موجود ہیں۔ اگر وہ اپنی دولت کا مثبت استعمال کرتے‘ تو وہ علم وہنر اور سائنس وتکنالوجی میںیوروپ سے بہت آگے ہوتے‘ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے‘ تو ایشیا کے غیرعرب ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی مالی حالت خواہ بہت اچھی نہ ہو‘ مگر وہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں عربوں سے بہت آگے ہیں۔ آج جس قدر اہل علم وہنر دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں پیدا ہو رہے ہیں‘عرب میں نہیں ہوتے۔ سعودی عرب میں شرح خواندگی 77فیصد ہے ‘جبکہ عراق میں 74فیصد ہے۔ یہ دونوں کثیرآبادی والے عرب ممالک ہیں۔ان کے مقابلے انڈونیشیا اورملیشیا میں شرح خواندگی100فیصد کے آس پاس ہے‘ کچھ ایسی ہی صورت حال سوویت یونین سے آزاد ہونیوالے مسلم ملکوں کا ہے۔ ظاہر ہے کمیونسٹ تسلط نے انہیں اسلام سے دور کردیا ہے‘ مگر بہت تیزی کے ساتھ ان ملکوں میں بیداری کی لہر آرہی ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان میں شرح خواندگی کم ہے۔
کثیر مسلم آبادی والا خطہ
پیوفورم کی 2010کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا خطہ ہے۔ یہاں دنیاکی 62فیصد مسلم آبادی رہتی ہے۔ یہاں کی کل آبادی کا 24.8فیصد حصہ مسلمان ہے‘ یعنی یہاں کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ پیوفورم کی یہ رپورٹ 2010 میں منظر عام پر آئی تھی اور امکان ظاہرکیاگیا تھاکہ یہاں جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ مستقبل میں ان کی آبادی کا تناسب بڑھ سکتا ہے۔ واضح ہوکہ ایشیا میں بیشتر مسلم آبادی والے ممالک آتے ہیں جن میں انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ازبکستان‘ ایران ‘ ترکی اورچین شامل ہیں۔ یوں توسب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا ہے ‘مگرجنوبی ایشیا کی 90فیصد مسلم آبادی ہندوستان‘ پاکستان اوربنگلہ دیش میں رہتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں چین اور ہندوستان شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑی آبادی کے باجود یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے‘ وہاں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ مگر شناخت کا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہندوستان اورچین جیسے ملکوں میں اگرچہ کروڑوں مسلمان ہیں‘ مگریہاں ان کے ساتھ شناخت کامسئلہ بھی ہے اوروہ اپنے وجود کو دوسروں سے الگ شناخت کے ساتھ باقی رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں ان کی معاونت کرتے ہیں وہ اسلامی تعلیمی ادارے‘ جن کاقیام ہی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہوتا ہے۔
مسلمان ساری دنیامیں کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر و ہ ایشیا میں زیادہ گھنی آبادی رکھتے ہیں‘ مگرموجودہ دورمیں ان کی نہ توکوئی عالمی لیڈر شپ بن پائی ہے اورنہ ہی علاقائی لیڈر شپ۔ وہ جہاں کہیں بھی بغیر کسی لیڈرکے زندگی گذار رہے ہیں‘ مسلم اکثریتی ملکوں میں تووہ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان ممالک میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں‘لیڈر شپ کی کمی کے سبب گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں۔ حالانکہ ان کے بہت سے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اثرانداز ہوتے بھی ہیں‘ مگر تمام مسلمان انہیں اپنا رہنما تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
مقبول ترین مسلم شخصیات
ایک عالمی ادارہ The Royal Islamic Stratagic Studieso Centreکی رپورٹ کے مطابق د نیا کی 500 اثرانداز ہونے والی مسلم شخصیات میں سے بہت سے افراد ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس لسٹ میں بیشتر مسلم سربراہان مملکت ہیں‘ مگر بعض غیر سیاسی شخصیات بھی ہیں۔ ایسی شخصیات میں پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ‘انڈونیشیا کی مسلم تنظیم نہضتہ العلماء کے چیئرمین ڈاکٹر کے ایچ سید عقیل سرادی‘ہندوستان کے اہلسنت کے پیشوا مفتی اختر رضا خاں ازہری ، مارہرہ کی خانقاہ برکاتیہ کے سجادہ نشین مولانا سید محمد امین، پاکستان کے اسلامی محقق مولانامحمد تقی عثمانی‘ جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مولانامحمودمدنی‘ بوہرہ طبقہ کے مذہبی پیشوا سیدنا برہان الدین (اب وہ دنیا میں نہیں رہے)شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام افراد ایک خاص طبقے یاکسی خاص مکتبہ فکر کے لئے ہی قابل قبول ہیں۔ دوسراطبقہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے باوجود یہاں وہ منتشر ہیں اور ان کے بیشتر مسائل کا سبب ان کا یہی انتشار ہے۔ ظاہر ہے سیدنا برہان الدین کاحلقہ اثر بوہرہ فرقے تک محدود ہے۔ اس طرح حاجی محمد عبدالوہاب کے اثرات تبلیغی جماعت کے افراد تک ہی ہیں۔ مولاناسید محمد امین میاں اور مفتی اختر رضا خاں ازہری اپنے مریدین میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں‘ تو مولانا محمود مدنی کی مقبولیت جمعیۃ علماء ہند تک محدود ہے۔ ان حضرات کو دوسرے مسلکی گروپ کے لوگ قبول نہیں کرتے‘ بلکہ انہیں حضرات کے اپنے مکتبہ فکرمیں ہی کئی گروپ ہیں‘ جوان کی مخالفت میں آواز بلندکرتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے طبقے میں مقبولیت کے باوجود یہ حضرات مقبول ترین لیڈر ہیں‘ مگر افسوس کہ مسلمانوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں‘ جو ہر طبقے کے افراد کے لئے قابل قبول ہو۔
یہ مسلماں ہیں؟
اس وقت اہم سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں کم ہوگی یا زیادہ؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ وہ دنیا پر کس قدر اثرانداز ہونے کی صلاحیت والے ہونگے؟ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لئے علم اور سائنس وتیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ان شعبوں میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں۔ بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے مسلمان غریب ہیں اور ان کے پاس تعلیمی اداروں کی کمی ہے نیز مالی وسائل بھی نہیں ہیں پھر بھی وہ اوقات بھر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عرب مسلمانوں کے پاس دولت کی افراط ہے۔ وہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں اور سائنسی تحقیقات میں سرمایہ لگا سکتے ہیں مگر جو صورتحال سامنے ہے ، وہ زیادہ خوش کرنے والی ، نہیں ہے۔انھیں دیکھ کر تو بس یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ
یہ مسلماں ہیں، یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
جواب دیں