ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ذی قعدہ اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے۔ اس ماہ کو عربی زبان میں ذو القعدہ یا ذی القعدہ کہتے ہیں۔ یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ذو یا ذی کے معنی ”والا“ اور قعدہ کے معنی ”بیٹھنے“ کے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ اس ماہ میں جنگ […]
اسلامی کیلنڈر کے گیارہویں مہینہ ”ذی قعدہ“ کی اہمیت
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ذی قعدہ اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے۔ اس ماہ کو عربی زبان میں ذو القعدہ یا ذی القعدہ کہتے ہیں۔ یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ذو یا ذی کے معنی ”والا“ اور قعدہ کے معنی ”بیٹھنے“ کے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ اس ماہ میں جنگ وجدال کو حرام سمجھتے تھے اور اسلحہ رکھ دیتے تھے۔ کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا تھا حتی کہ باپ بیٹے کے قاتل کو بھی اس ماہ میں کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ چونکہ عرب لوگ اس مہینہ میں قتل وقتال سے الگ تھلک ہوکر بیٹھ جاتے تھے اس لئے اس مہینہ کو ذو القعدہ یا ذی القعدہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں ذی قعدہ استعمال کیا جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی حج کیا جاتا تھا، جس میں مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسرے مقامات سے بھی لوگ آتے تھے۔ حاجیوں کے استقبال اور ان کی سہولیات کے لئے بھی عرب لوگ اِس ماہ میں جنگ وقتال سے دور رہتے تھے۔ ذی قعدہ‘ حرمت والے مہینوں میں سے ایک: ذی قعدہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا سادہ (تقاضا) ہے، لہذا ان مہینوں کے بارے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ (سورۃ التوبہ ۶۳) دنیا میں مختلف کیلنڈر نافذ تھے اور آج بھی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ہر کیلنڈر میں ۲۱ ہی مہینے ہوتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نافذ کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے اور اختتام ذی الحجہ پر ہوتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ ئخلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی تو صحابہئ کرام نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو نبی اکرم ﷺکی ولادت یا نبوت یا ہجرت ِمدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دئے۔ آخر میں صحابہئ کرام کے مشورہ سے ہجرت ِمدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ یعنی ہجرتِ مدینہ منورہ سے پہلے تمام سالوں کو زیرو (Zero) کردیا گیا اور ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کرلیا گیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب تو اس کو عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتدا۔ اس طرح ہجرتِ مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہوگیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن فہمی حدیث نبوی کے بغیر ممکن نہیں ہے، یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ان کے اعمال کی روشنی میں ہی قرآن کریم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل حدیث نبوی کے ذخیرہ کی شکل میں آج بھی امت مسلمہ کے پاس موجود ہے۔ مگر اسلام مخالف طاقتوں کی تحریک سے متاثر ہوکر بعض مسلم بھائی بھی حدیث نبوی کے ذخیرہ پر شک وشبہات کا اظہار کردیتے ہیں۔ اس آیت میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ حرمت والے مہینے کونسے ہیں۔ اس کی تفسیر حدیث میں ہی وارد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔تین تو لگاتار، یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور چوتھا رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان پڑتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اِس آیت کی طرح قرآن کریم کی دیگر آیات سے اللہ تعالیٰ کی مراد سمجھنے کے لئے حدیث نبوی کا پڑھنا اشد ضروری ہے۔ ان چار مہینوں میں قتل وقتال اور جنگ کے خاص طور پر حرام ہونے کی وجہ سے اِن مہینوں کو اشہر حُرُم کہا جاتا ہے۔ ذی قعدہ‘ حج کے مہینوں میں سے ایک: اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ آیت ۷۹۱ میں ارشاد فرماتا ہے: حج کے مہینے طے شدہ اور معلوم ہیں۔ علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اشہر حج (حج کے مہینے) تین ہیں: جن میں سے پہلا شوال، دوسرا ذی قعدہ اور تیسرا ذی الحجہ کے ۰۱ دن ہیں۔ اگرچہ یکم شوال سے حج کا احرام باندھا جاسکتا ہے، مگر زیادہ تر عازمینِ حج ذی قعدہ میں ہی حج کے لئے سفر کرتے ہیں اور حج کا احرام باندھتے ہیں۔ یہ حج کے مہینوں میں درمیانی مہینہ ہے۔ حج بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ یقینا حج کے اہم ارکان ذی الحجہ کے چند ایام میں ادا ہوتے ہیں لیکن عازمین حج کی بڑی تعداد اس ماہ میں مسجد حرام پہنچ کر عبادتوں میں مصروف ہوجاتی ہے، اس لحاظ سے ماہِ ذی قعدہ کی اہمیت اور فضیلت مسلّم ہے۔ ذی قعدہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرے کی ادائیگی: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے ذی قعدہ کے مہینے میں ہی ادا ہوئے، سوائے اُس آخری عمرہ کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔ اس آخری عمرہ کا احرام بھی آپ ﷺ نے ذی قعدہ کے مہینہ میں ہی باندھا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے کل چار عمرے ادا کئے ہیں۔ صحیح مسلم کی شرح لکھنے والے مشہور محدث علامہ نوویؒ نے تحریرکیا ہے: علماء فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرے اس لئے ادا کئے تاکہ لوگ اس ماہ کی فضیلت سے واقف ہوجائیں اور زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی مخالفت بھی ہوجائے کیونکہ وہ ماہِ ذی قعدہ میں عمرہ کی ادائیگی گناہ سمجھتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد ۶ سال تک مکہ مکرمہ واپس ہی نہ آسکے۔ ہجرت کے چھٹے سال میں آپ ﷺ اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کا سفر کیا مگر حدیبیہ کے مقام پر روک دیا گیا۔ صلح ہوئی، جس کی وجہ سے وہیں پر حلق یا قصر کراکے جانور ذبح کئے اور سب لوگ بغیر عمرہ کئے ہوئے واپس ہوئے۔ دوسرے سال اس عمرہ کی قضا فرمائی۔ تیسرا عمرہ فتح مکہ کے موقع پر ۸ ہجری میں جعرانہ سے احرام باندھ کر کیا تھا۔ آخری عمرہ حج کے ساتھ ادا کیا تھا۔ ذی قعدہ میں عمرہ ادا کرنی کی اہمیت وفضیلت پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ سعودی عرب میں رہنے والے حضرات کے لئے ۵۱ یا ۰۲ ذی قعدہ کے بعد عمرہ کی ادائیگی بند کردی جاتی ہے تاکہ دنیا کے چپہ چپہ سے آنے والے عازمین حج سہولت سے زیادہ سے زیادہ وقت مسجد حرام میں گزار سکیں، عمرے اور طواف کثرت سے کرسکیں۔ عوام میں یہ جو مشہور ہے کہ شوال یا ذی قعدہ میں عمرہ کی ادائیگی سے حج فرض ہوجاتا ہے، صحیح نہیں ہے۔ اگر حج کرنے کی استطاعت ہے اور حج کے لئے قانونی اجازت مل سکتی ہے تو حج فرض ہوگا ورنہ نہیں۔ نیز حج زندگی میں صرف ایک بار ہی فرض ہوتا ہے۔ ماہِ ذی قعدہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اعتکاف: سورۃ الاعراف آیت ۲۴۱ میں ہے: ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا (کہ ان راتوں میں کوہِ طور پر آکر اعتکاف کریں) پھر دس راتیں مزید بڑھاکر ان کی تکمیل کی، اور اس طرح ان کے ربّ کی ٹھہرائی ہوئی معیاد چالیس راتیں ہوگئی۔ قرآن کریم کی تفاسیر میں مذکور ہے کہ اس آیت میں ۰۳ سے مراد ذی قعدہ کا پورا مہینہ اور ۰۱سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ ماہِ ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کا حضرت موسیٰ علیہ کا کوہِ طور (جو مصر میں ہے) پر اعتکاف اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف ان ایام کی فضیلت واہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہِ ذی قعدہ کے متعلق غلط باتیں: بعض لوگ ذی قعدہ کے مہینے میں کسی اہم کام کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں سراسر غلط ہے کیونکہ ایسی فضیلتوں والے مہینے میں بھلا کوئی کام کیسے منحوس ہوسکتا ہے۔ نیز کسی بھی مہینہ یا دن میں منحوسیت نہیں ہوتی ہے بلکہ ہمارے اعمال کی وجہ سے وقت مقبول یا منحوس بن جاتا ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن آدم یعنی انسان مجھے تکلیف پہنچاتا ہے جب وہ زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ کو پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں۔میں جس طرح چاہتا ہوں، رات دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔ ہمارے علاقوں میں کو ذی قعدہ کے مہینہ کو خالی کا چاند بھی کہا جاتا ہے، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شوال کے مہینہ میں عید الفطر، جبکہ ذی الحجہ کے مہینے میں عید الاضحی منائی جاتی ہے اور ذی قعدہ کا مہینہ اِن دونوں مہینوں کے بیچ میں واقع ہے جو عید سے خالی ہے۔ ذی قعدہ کے مہینہ کو خالی کا مہینہ یا خالی کا چاند کہنے سے بھی بچنا چاہئے۔ نماز وروزہ کے تعلق سے یہ مہینہ دوسرے مہینوں کی طرح ہے۔ کوئی خاص عبادت اس مہینہ کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ خود بھی ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اِس کی ترغیب دیتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ پیر اور جمعرات کو اعمال دربار ِالہی میں پیش کئے جاتے ہیں،اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہو ں تو میں روزے سے رہوں۔ (ترمذی) رسول اللہ ﷺ ایام بیض یعنی چاند کی ۳۱، ۴۱ اور ۵۱ تاریخ کے روزوں کی بڑی تاکید فرماتے تھے۔ نیز حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ تین روزے اجروثواب کے لحاظ سے پورے سال کے روزہ رکھنے کے برابر ہیں۔ (مسلم) لہذا دیگر مہینوں کی طرح ذی قعدہ کے مہینے میں بھی یہ نفلی روزے رکھنے چاہئیں۔ اسی طرح دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں بھی نوافل کا اہتمام کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑے، اس کا پا ؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے۔ جو وہ مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ (صحیح البخاری۔ باب التواضع) ہاتھ پاؤں بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام اللہ کی رضا اور محبت کے ماتحت ہوتا ہے، اس کا کوئی بھی عمل اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماج ہ، نسائی، ابو داود، مسند احمد) مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ پوری زندگی فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث قدسی سے معلوم ہوا کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیساکہ کتب حدیث میں وارد نبی اکرم ﷺ کا واضح فرمان ذکر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پوری زندگی قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے والا بنائے اور برکت والے ایام اور مہینوں کی قدر کرنے والا بنائے۔ آمین
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں