یہ کسی حقیقت پسند ترقی یافتہ اور ۲۱ ویں صدی میں آگے بڑھنے والی قوم کا رویہ نہیں ہوسکتا بلکہ یہ تو ۱۷ ویں اور ۱۸ ویں صدی کی بھول بھلیوں میں گم اس قوم کا طرز عمل جس کو برطانوی حکومت نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کے لئے نفرت کی جن اونچی دیواروں میں قید کردیاتھا آزادی کے ۶۸برس بعد جب دیواریں ختم ہونے کے بجائے مزید بلند تر ہوتی جارہی ہیں مختلف فرقے ایک ہی ملک کے شہری ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ عبادت گاہوں اور مذہب وتہذیب کے نام پر طاقت ور کمزوروں کو جھکا رہے ہیں، سیاست داں نفرت ووحشت کی آنچ میں اپنی روٹیاں سیکنے میں مصروف ہیں، پھر بھی ہندوستان کی محبت، صلح، آشتی اور رواداری کی جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔ کوئی اقلیتوں، خاص طور سے مسلمانوں کو غداری کا سرٹیفکٹ بانٹ رہا ہے تو کوئی حب الوطنی کو اکثریت کی جاگیر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ حالانکہ حب الوطنی کسی خاص فرقہ اورگروہ کی بپوتی نہیں۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک خود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کی نجاست سے اپنے آپ کو پاک وصاف نہیں کرے گی اس وقت تک وہ اقلیتوں کو فرقہ پرستی سے بچنے کا درس نہیں دے سکتی، ہندوستانی قوم کی رواداری اور وسیع القلبی کی دہائی دینے والوں سے ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی اقلیتیں اور پچھڑے طبقات دن بہ دن پسماندگی کے دلدل میں گرتے جارہے ہیں اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حکومتوں کی طرف سے پولس، فوج، اور کلیدی عہدوں پر مسلمانوں کی بھرتی بند ہوچکی ہے کیا یہ فرقہ پرستی نہیں؟ ملک کی مقبول عام زبان اردو کو طرح طرح سے دبایا اور کچلا گیا، کیا یہ فرقہ پرستانہ ذہنیت نہیں؟ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی درسی کتابیں درسگاہوں میں پڑھائی جارہی ہیں کیا یہ رواداری ہے؟ اقلیتوں کے خلاف سیاسی اور عوامی پلیٹ فارم سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ ہورہاہے اور اس کی روک تھام کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایاجاتا، کیا یہ فرقہ واریت سے سمجھوتہ نہیں ہے؟ اب تو انتہا ہوگئی ہے کہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تعلق سے مسلم اقلیت کو غاصب اور ہٹ دھرم بتایا جارہا ہے کیا اس کے بعد بھی ہم امید کرسکتے ہیں کہ برادران وطن مسلمانوں کو اچھی نظروں سے دیکھیں گے؟ انہیں تو اٹھتے بیٹھتے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ان مسلمانوں کے پرکھے وہ تھے جنہوں نے ہندوستان پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، رام جنم بھومی کو توڑ کر وہاں مسجد بنالی، بھارت ماتا کو تقسیم کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دےئے پھر بھی ملک کی اکثریت ’’کمیونل‘‘ نہیں۔
ہمارے دانشور ، صحافی اور سیاست داں جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں کریں گے اور اس کا سخت علاج نہیں کھوجیں گے، فرقہ پرستی، تنگ نظری، اور نفرت کی یہ خطرناک بیماری ختم ہونے والی نہیں، ریت میں منہ چھپانے سے طوفان کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ آج یہ طوفان ہندوستان کی سیکولر قدروں کو بہائے لئے جارہا ہے*بعض لوگ ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ زریں مشورہ دیتے نہیں تھکتے کہ ’’وہ خود کو ہندوقومیت کا ایک حصہ سمجھیں اور اپنے ان پرکھوں کی عزت کریں جو بنیادی طو رپر ہندوتھے‘‘ غالباً مشورہ دینے والوں کو اس حقیقت کا علم نہیں یا وہ جانتے بوجھتے اسے نظر انداز کررہے ہیں کہ ملک سے وفاداری، روحانی عقیدت، تہذیبی خصوصیات، معاشرتی امتیاز، ذاتی روابط، پرکھوں کا احترام اور رشتہ داری کے تعلقات سب علاحدہ علاحدہ پہلو ہیں جن کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہیں کیاجاسکتا، ہندوستان کے مسلمان، مسلمان بھی ہیں اور ملک سے محبت کرنے والے شہری بھی، بالکل اسی طرح جیسے کہ برما کے بودھ، بودھ بھی ہیں اور برمی بھی۔ یا نیپال اور سری لنکا کے ہندو، ہندوبھی ہیں اور ان ممالک کے شہری بھی، ایسا تو نہیں ہے کہ ہندوستان سے باہر جتنے بھی بودھ یا ہندوہوں ان سب کی ابتدائی وفاداری ہندوستان کے ساتھ ہو اور صرف ثانوی وفاداری ان ملکوں کے ساتھ جہاں وہ سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اگر جاپان، برما، سری لنکا اور کمپیوچیا کے بودھ سارناتھ، سانچی اور گیا وغیرہ کے ساتھ یا ہندوستان کے سکھ پاکستان میں ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب کے ساتھ روحانی عقیدت کا تعلق رکھتے ہوئے بھی ملک کے وفادار شہری ہوسکتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمانوں سے خود کو ہندو سمجھنے یا ہندو قومیت کا ایک جزو بننے کا مطالبہ کیوں ہورہاہے؟ وہ ہندوستانی ہیں اور اپنی اس حیثیت پر یقیناًفخر کرتے ہیں مگر ان کے نزدیک مسلمان ہونا بھی کم فخر کی بات نہیں۔ اسی طرح ان پر مذہبی طور سے یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ دیگر تمام مذاہب اور ان کے پیشواؤں کا احترام کریں اور اپنی زبان سے کوئی ایسی بات ہرگز نہ کہیں جس سے ان کی بے عزتی ہوتی ہو۔ مسلمانوں کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازنے والوں کو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اجتماعی زندگی کے سیاسی اور شخصی دو دائرے ہوا کرتے ہیں۔ ریاست ایک خالص سیاسی ادارہ ہے شخصی نہیں اور مذہب ، تہذیب ، زبان شخصی دائرہ میں آتے ہیں جس پر اکثریت کو حکم چلانے یا اپنے ثقافتی غلبہ کی چھاپ لگانے کا حق نہیں دیاجاسکتا، نہ یہ طرز فکر اس جمہوریت اور سیکولر اساس سے میل کھاتا ہے جس کو ہم نے اپنے یہاں ایک نظام حکومت کے طور پر اپنا رکھا ہے اور دنیا کے سامنے اسے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
جس لمحہ یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ اکثریت اقلیتوں کی مختار کل نہیں صرف محافظ ہے اسی لمحہ اکثریت جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرالیتی ہے اور ریاست وحکومت کی ایجنسیوں کو کم تعداد والے گروہوں پر شخصی خصوصیات مسلط کرنے کے لئے استعمال کرنے لگتی ہے۔ ایسے ہی رویہ سے اکثریت اور اقلیت کے درمیان بدگمانی، نفرت اور تصادم کا آغاز ہوتا ہے، ہندوستان میں رجعت پرستی کے شکار لوگوں کا آج یہی مقصد ہے اور اسی لئے وہ مسلمانوں کو اپنی الگ شناخت ختم کرنے کا مشورہ دے رہے تاکہ وہ اکثریت کے دھارے میں ضم ہوجائیں جسے وہ قومی دھارے کا نام دیتے ہیں مگر قومی دھارے کا مطلب ہندوطرز فکر کبھی نہیں ہوسکتا اس غلطی سے وہ اپنے ذہن کو صاف کرلیں تو بہتر ہے۔*
wwww.arifaziz.in
E-mail:[email protected]
مذہب اسلام کو ایک جارح مذہب کی حیثیت سے پیش کرنا بعض حلقوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، خاص طورپر ایک ایسے وقت میں جب فرقہ پرستی کے جنون کی آندھی پورے ملک میں چل رہی ہے اور دلوں میں نفرت وکدورت کے طوفان اٹھائے جارہے ہیں اسلام کو ایک جارح مذہب اور مسلمانوں کو حملہ آور قرار دینے سے تنگ نظر عناصر کا یہی مقصد ہے کہ اسلام کو تلوار سے پھیلنے والا مذہب اور مسلمانوں کو حملہ آور ثابت کرکے ان کے خلاف اکثریتی فرقہ کی رائے کو متاثر کیا جاسکے۔
حالانکہ حققیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اسلام، ہندوستان میں فاتح مذہب کی حیثیت سے ہرگز داخل نہیں ہوا بلکہ ایک تبلیغی مذہب کی حیثیت سے وارد ہوا ہے مہم جو مسلمان لشکریوں کی درۂ خیبر پار کرکے ہندوستان میں داخلہ سے بہت پہلے حتیٰ کہ سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد سے بھی قبل اسلام کی روشنی سرزمین ہند پر پڑھنے لگی تھی یہ شرف جنوبی ہند کو حاصل ہے کہ اسلام کے آفتاب کی پہلی کرن وہاں سے اس وقت پھوٹی تھی جب عرب تاجر مالا بار کے ساحلی علاقوں میں بسلسلہ تجارت آنے جانے لگے تھے، ان کی کشتیاں مدراس، کیرالا، گجرات اور سندھ کے ساحلوں میں لگنے لگیں تھیں، بعد میں کچھ عرب تاجروں نے جنوبی ہند میں اپنی چھوٹی موٹی بستیاں بسا لیں، ہندو راجاؤں کی طرف سے انہیں نہ صرف رہنے سہنے کے لئے زمین دی گئی بلکہ ان کے مذہب اسلام کے مطابق انہیں عبادت کرنے کی بھی آزادی فراہم کی گئی، یہ اسلام کا ابتدائی دور اور پہلی صدی کا زمانہ تھا، اس کے بعد شمال کی راہ سے مسلمانوں کی آمد ورفت شروع ہوئی اور بغداد میں خلافت عباسیہ سے ہندوستان کے تعلقات فروغ پانے لگے دوسری طرف صوفیائے کرام کی آمد سے دعوت وتبلیغ کا جو کام یہاں شروع ہوا اس نے اسلام کے ہندوستان میں پھیلنے میں کافی معاونت کی۔
اسلام اگر ہندوستان میں فاتح کی تلوار بن کر داخل ہوا ہوتا تو یہاں کی آبادی کا غالب حصہ آج مسلمان ہوتا اور یہ صدیوں سے مسلم اکثریت کا ملک کہلاتا مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ صوفیائے کرام کے علاوہ شایدہی کسی مہم جو کو ہندوستان میں اسلام پھیلانے سے دلچسپی رہی ہو وہ تو اسلام کی خوبیاں بالخصوص اس کی وحدانیت، جمہوریت، انسانی اخوت اور مساوات کا نتیجہ ہے کہ مقامی آبادی نے ان کو دیکھا وسمجھا تو ان کا دل اس کی طرف کھینچتا ہی چلا گیا اور وہ سماج جو ذات پات کی بنیاد پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم تھا اور جہاں ایک جیسے انسانوں کو پاک اور ناپاک میں تقسیم کردیاگیاتھا ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا جارہا تھا، اسلام کے مصلحوں کے ساتھ ایک نئی تہذیب اپنی پوری تابانی کے ساتھ ہندوستان میں آئی تو یہی لوگ اس کی طرف راغب ہوتے گئے، انہیں اسلام کے پیغام توحید میں اپنی نجات نظر آنے لگی اور وہ اسلام کے آغوش میں پناہ لینے لگے۔
جن مسلم فاتحین کا اسلام اورمسلمانوں کے مخالف آج حوالہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ان کی ہندوستان میں آمد تو کافی بعد کا واقعہ ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم فاتحین کے ہندوستان میں داخلہ سے اقتدار کی جو لڑائیاں چھڑیں انہوں نے اسلام کی تبلیغ اور قبولیت عام کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہونچایا کیونکہ ان مسلم فاتحین اور سلاطین کو مذہب کے مقابلہ میں اپنی حکومت وقیادت سے زیادہ دلچسپی تھی اسی لئے ان کا بیشتر وقت جنگی تدابیر میں صرف ہوا۔
اغیار کا یہ کہنا بھی نہایت غلط ہے کہ اسلام ایک بیرونی مذہب ہے کیونکہ اسلام کا پیغام صرف سرزمین عرب کے واسطے نہیں بلکہ سارے عالم کے لئے اس میں ہدایت پائی جاتی ہے، جب اسلام کا یہ پیغام ہندوستان پہونچ گیااور یہاں کے لوگوں نے اسے دل جمعی کے ساتھ قبول کرلیاتو وہ ہندوستانی مذہب بن گیا اور خدا تو نہ ہندوستانی ہے نہ عربی اور نہ ایرانی بلکہ وہ رب العالمین ہے، اسی لئے اسلام کا پیغام بھی آفاقی ہے اور قیامت تک روئے زمین کے انسانوں کے لئے اب یہی دینِ آخر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مکمل کردیا اور انسانوں کے لئے اپنی بے پایاں نعمت قرار دیا ہے۔(یو این این)
جواب دیں