سارہ عمر ضعیف العمر ہوچکی ہیں اور اس وقت ان کی عمر90 سال سے زیادہ ہے۔وہ اپنے بیٹے سعید اور پوتے موسیٰ اوباما کے ہمراہ کینیا سے عمرہ کی ادائی کیلئے مکہ مکرمہ آئی تھیں۔انھوں نے نبی اکرم صلی علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق نمائش ملاحظہ کرنے کے بعد اس کو اسلام کی اعتدال پسند تعلیمات کی ایک اچھی مثال قرار دیا ہے۔سعودی روزنامہ عرب نیوز نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہاکہمجھے یہ نمائش دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔اسلام کی جدید طریقہ سے تشہیر کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔اس میں سائنسی انداز میں مستند دستاویزات کو پیش کیا گیا ہے۔
مرے ہوئے باپ پر تہمت:
عربی روزنامہ نے بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے کہ امریکی صدر اوباما کی دادی جان نمائش کو دیکھتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے جبکہ دادی موصوفہ کو اپنے پوتے اوبامہ اور اس کے کنبہ کے ارتداد پر آنسو بہانے چاہئیں تھے۔کون نہیں جانتا کہ براک اوباما خود عیسائی مذہب کے پیروکار ہیںجبکہ ان کے کینیائی نژاد والد مسلمان تھے۔ان کی قبر پر نصب کتبہ سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ انتقال کے وقت وہ مسلمان ہی تھے لیکن اوباما کی چرب زبانی دیکھئے کہ ان کے کینیائی باپ اور امریکی والدہ عقیدہ کے اعتبار سے پکے مسلمان نہیں تھے۔ان کی والدہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عیسائی تھیں اور ان کی پرورش ان کی نانی نے کی تھی۔وہ اپنی بالغ عمری میں عیسائیت کی جانب مائل ہوگئے تھے۔
امریکہ کی مسلم دشمنی:
اس سے قبل نومبر2012 میں صدر باراک حسین اوبامہ کی مدت ختم ہورہی ہے اور امریکہ کے نئے صدر کا انتخاب ہونا تھا۔ اس انتخاب کیلئے بھی باراک اوبامہ نے پہلے سے ہی انتخابی مہم شروع کردی تھی۔یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی اور وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے ۔ سیاسی مبصرےن اور ریسرچ اسکالر س اندازہ لگاتے رہے ہیں کہ اگر امریکہ کے مسلمانوں کا جھکاو اوبامہ کی طرف رہا تو وہ دوبارہ امریکہ کے صدر بنائے جا سکتے ہیںکیونکہ گزشتہ کئی انتخابوں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جس طرف مسلمانوں کا جھکاو ہوتا، ادھر ہی جیت ہوتی ہے۔2000 کے دوران جب جارج بش کا مقابلہ امریکی یہودی لابی سے وابستہ الگور سے تھا۔اس وقت عام امریکی مسلمانوں کا جھکاو جارج بش کی طرف تھا۔یہ الگ بات ہے کہ بعد کے ایام میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو خاص طور پر امریکہ کے مسلمانوں کو جارج کی مسلم دشمنی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
زبردست جانی و مالی نقصان:
صدر بننے کے بعد بش نے مسلم دشمنی کا ایساثبوت پیش کیا کہ فلسطین سمیت پورے عرب میں مسلمانوں کو زبردست جانی و مالی نقصان پہنچا۔2004 کے دوران جب دوبارہ الیکشن ہوا تو مسلمانوں نے بش کیخلاف ووٹنگ کی مگر قدرت کو اس کی ہار منظور نہیں تھی چنانچہ دوبارہ فتح بش کی ہی ہوئی۔ دراصل اس الیکشن میں امریکہ کے مسلمان یک جان ہوکر جان کےری کی حمایت میں کھڑے نہیں ہوسکے۔ مسلمانوں کے بکھراوکا فائدہ بش کو ہوا اور وہ امریکہ کے دوبارہ صدر چن لئے گئے۔ مسلمان اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے متحد ہوکر2008 کے الیکشن میں اوبامہ کا ساتھ دیا اور اوبامہ کی جیت ہوئی۔بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان میں گذشتہ برس لوک سبھا انتخابات کے دوران سیکولر ووٹ منتشر ہونے کے سبب محض31 فیصد تائید کے سہارے این ڈی اے اتحاد حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
فیصلہ کن ووٹ:
دراصل امریکہ کے مسلمان جب متحد ہوکر کسی ایک کو ووٹ دیتے ہیں تو اس امیدوار کی جیت یقینی ہوجاتی ہے کیونکہ ان کے ووٹ کو فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر امیدوار الیکشن سے پہلے مسلم تنظیموں سے قریب ہونے کی کوشش تیز کر دیتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال درست ثابت ہواکہ 2012 کے الیکشن میں بھی مسلمان وہی رول ادا کرسکتے ہیں ۔جو انہوں نے گزشتہ الیکشن میں کیا ہے یعنی وہ اس مرتبہ بھی اوبامہ کے حق میںووٹ ڈالیں گے۔ چنانچہ ایلی نوائس Illinois یونیورسٹی کے پروفیسر برین گرینBrian Gaines کے بقول امریکہ میں مسلمانوں کی صورتحال دیگر مذاہب سے الگ ہے۔ مسلمان کسی بھی ایسے صدر کو قبول نہیں کرتے ، جو ان کے مذہبی امور میں رکاوٹ پیدا کرے۔بش کے دور اقتدار میں مسلمانوں نے امریکہ میں مشکلوں کا سامنا کیا ہے، خاص طور پر نائن الیون کے بعد ان کی زندگی پر غم کے سیاہ بادل منڈلاتے رہے ہیں۔ ایسے میں تقریبا ً55 فیصد ایسے مسلمان ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکہ میں رہنے سے بیزار ہوگئے ۔
قول فعل میں تضاد:
ان کی یہ بیزاری اوبامہ کے دور میں کم ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ جب الیکشن کا دور آیاتو تقریباً76 فیصد مسلمانوں نے کھلے عام اوبامہ کو ووٹ کیا اور آنے والے الیکشن میں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وہ اوبامہ کو ہی اپنا ووٹ دیں گے۔145حالانکہ اوبامہ نے جامع ازہر مصر میں مشرق وسطیٰ اور مسلمانوں کے تئیں جو کچھ بھی کہا تھا، اس پر عمل نہیں ہوسکا اور نہ ہی فلسطین کے سلسلہ میں ان کا کردار قابل ستائش رہا ہے،پھر بھی امریکی مسلمانوں کا رجحان اوبامہ کی طرف زیادہ ہے۔ کیونکہ اوبامہ کے اقتدار میں ایک بھلا یہ ہوا ہے کہ امریکی عوام میں اسلام کے تئیں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی تھیں اس میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اوبامہ سے پہلے امریکہ کے 47 فیصد لوگ مسلمانوں کیساتھ رہنا پسند نہیں کرتے تھے مگر اوبامہ کے دور ااقتدار میں اس رجحان میں کمی ہوئی ہے۔ ان کے دور اقتدار میں ایک پاکستانی مسلم سہیل محمد کو امریکہ میں جج کا عہدہ بھی دیا گیا ہے بلکہ اب تو عیسائی مذہبی پیشواوں نے بھی عیسائیوں کو مسلمانوں کیساتھ میل جول بڑھانے کی ترغیب دینا شروع کردی ہے۔
بادشاہ گر:
چنانچہ ایک انگریز پادری رک وارن Rick Warren نے ابھی کچھ دنوںپہلے ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں اور مسیحوں کو دنیا میں درگزر اور امید کی کرن پیدا کرنے کیلئے اتحاد باہمی سے جینے کا ہنر سیکھنا چاہئے۔ایک امریکی سیاسیات کے ماہر بروکنز کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ کی قیمت اس لئے بھی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جو مذہبی خیال کے ہیں وہ سیاسی امور میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔کون ہارا ، کون جیتا،اس سے انہیں سروکار نہیں ہوتا جبکہ اسلام سیاست اور مذہب کو ساتھ لے کر چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی مسلمان جو اپنے مذہب کا سخت پابند ہوتا ہے۔وہ بھی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ووٹر متحد ہوجاتے ہیں اور جس کو بھی ووٹ دیتے ہیں وہ امیدوارکامیاب ہوجاتا ہے۔
ووٹ بینک کا کھیل:
اسی لئے ان کے ووٹ کو فیصلہ کن کہا جاتا ہے۔مسلمانوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے کا اعتراف متعدد امریکی ماہرین کرچکے ہیں چنانچہ امریکی سیاست کے ماہرفریڈ سین زئی Farid Senzai کا تعلق انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈر اسٹینڈنگ Institute for Social Policy and Understanding سے ہے۔اس کا ہیڈ آفس واشنگٹن میں ہے، انھوںنے امریکہ میں مسلمانوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ امریکی صدر کے تعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔جبکہ امریکہ میں مسلمانوں کی الکٹرولر بیس ووٹ ویلوتقریباً 23 ہزار ہے یعنی ان کے ووٹ کی ویلو مجموعی تعداد کی 0.6 فیصد ہے۔
نتائج پراثرات:
یہ تو اےک رپورٹ میں کہا گیا ہے جبکہ دیگر رپورٹوں میں مسلم ووٹ کی ویلو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ واشنگٹن میں قائم بروکنگس انسٹی ٹیوشنس Brookings Institution کے سروے شاہد ہیں کہ امریکہ کے مسلمانوں میں 60 فیصد کی عمریں 18 سا ل سے زیادہ ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو کل ووٹرز کا ایک فیصد مسلم ووٹر ہے۔بظاہر یہ فیصد کم ہے جس کا صدارتی انتخاب میں فیصلہ کن ہونا حیرت انگیز لگتا ہے مگر سچائی تو یہ ہے کہ امریکہ میں جیت ہار کا اوسط تھوڑے ووٹوں سے ہی ہوتا ہے۔ 2000 کے الیکشن میں جارج بش کی جیت اپنے حریف پر محض 537 ووٹوں سے ہوئی تھی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اوسط نتائج پر کتنا اثر انداز ہوسکتا ہے۔
ذہن سازی کا کمال:
مسلمانوں کا ایک فیصد ووٹ صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن حیثیت اس لئے رکھتا ہے کہ ان کا ووٹ سمٹ کر کسی ایک کے حق میں جاتا ہے۔ حالانکہ کئی مرتبہ کسی کسی شہر میں مسلم اجتماعیت سے ہٹ کر دوسرے کو بھی اپنا ووٹ دے دیتے ہیں لیکن اس کا خمیازہ وہ 2004میں بش کو دے کر بھگت چکے ہیں۔ لہٰذا اب وہ اپنے ووٹ کو بکھرنے سے گریز کریں گے ،ساتھ ہی وہاں جو اسلامی تنظیمیں کام کررہی ہیں وہ ان کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔امریکہ میں مسلمانوں کے تقریباً 843 اسلامک سینٹر،165 اسلامک اسکول اور426 ایسوسی ایشن ہیں۔جب الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو تمام ادارے متحرک ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کی ذہن سازی شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ ان تنظیموں کے بارے میں کیر میں مسلم آرگنائزیشن کے منتظم روبرٹ مکاو کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ146وہ صدر کے انتخاب میں اپنا رول ادا کریں۔یہی نہیں، انہیں ووٹ کا استعمال کرنے کیلئے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالنا ایک سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
فیصلہ کن حیثیت:
اس کے علاوہ لوگوں میں بیداری لانے کیلئے فلمیں دکھائی جاتی ہیں تاکہ وہ ووٹنگ کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔145مسلمانوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے کی بات امریکہ کی کئی تنظیمیں کرچکی ہیں۔ چنانچہ واشنگٹن میںزوگ بی انٹرنیشنل Zogby Inteationalاورپیو ریسرچ سینٹرPew Research Center نے بھی مسلمانوں کے ووٹوں کے تعلق سے تقریباً اسی سے ملتا جلتا تجزیہ پیش کیا ہے۔امریکی تنظیموں نے جو سروے کیا ہے ،مسلم ووٹرز کا فیصد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔دراصل امریکہ میں مسلمانوں کی صحیح تعداد کے بارے میں حتمی اعدا دو شمار پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ کوئی 5 ملین کہتا ہے تو کوئی 8 ملین۔ہر سروے میں الگ الگ باتیں کہی جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں3قسم کے مسلمان پائے جاتے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو مہاجر ہیں۔کسی دوسرے ملک سے یہاں آکر بس گئے ہیں اور گرین کارڈ حاصل کرلیا ہے۔ایسے لوگوں کا ریکارڈ امیگریشن سے مل جاتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر مذہب اسلام کو قبول کیا ہے۔ایسے لوگوں کا صرف تخمینہ ہی لگایا جاسکتا ہے،باضابطہ ان کا اندراج نہیں ہے جبکہ ان کی تعداد بھی خاصی ہے اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو یہیں پیدا ہوئے اور یہیںرہ رہے ہیں۔
زمرہ بندی کا کمال:
ایسے لوگوں کے ہر شہر میں صحیح اعدادو شمار کا اندازہ حتمی نہیں ہے۔مسلمانوں کی صحیح تعداد کا اندازہ نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی تنظیم یا انسٹی ٹیوٹ سروے کرتی ہے تو ان کے سروے میں تینوں زمروں کے لوگوں کو ایک زمرے میں رکھ کر اعدا دو شمار بیان نہیں کیا جاتا ، لہٰذا ان کی صحیح تعداد کی مکمل معلومات نہیں ہوپاتی۔ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر ان کی تعداد بتا تاہے۔بہر کیف ان کی تعداد اتنی ضرور ہے جو صدر کے انتخاب پر اثر انداز ہوسکے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی انتخاب کا وقت آتا ہے تو امیدوار صدر مسلم تنظیموں سے ملنا جلنا زیادہ کردیتے ہیں۔امریکہ کے ہر شہر میں کچھ نہ کچھ مسلمان موجود ہیںجبکہ کچھ مشہور شہروں میں ان کی تعداد کا اوسط کچھ یوں ہے:
انتخاب میں اہم رول:
کیلیفورنیا میں مسلمان20.0 فیصد،نیویارک میں 16.0،ایلی نوائے میں 8.4،نیو جرسی میں4.0، انڈیانا میں 3.6،میشی گن میں 3.4،ورجینیا میں 3.0، ٹیکساس میں 2.8، اوہائیو میں 2.6، میری لینڈمیں 1.4فیصد مسلمان ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں 843 اسلامک سینٹر کے علاوہ 400 ایسے مدرسے ہیں جو چھٹیوں کے زمانہ میں بچوں کو اسلامی تعلیم دیتے ہیں اس کے علاوہ فل ٹائم 165 اسکول اور 426 ایسوسی ایشن ہیں۔200 ایسے مدرسے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کے علاوہ عملی طور پر اسلامی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔یہ تمام سینٹر مسلمان کو الیکشن کے زمانہ میں ان کے ووٹ کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے ووٹ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
نہیں بدلی پالیسی:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کیخلاف جنگ آج بھی مسلط نہیںہے؟کیاامریکہ اس یک طرفہ جنگ میںاخلاقی، سفارتی اور حتیٰ کہ جنگی قوانین کونہیں پامال کر رہا ہے؟ کیا یہ امریکی ددوستی کا نتیجہ نہیں ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ گیارہ ستمبر کو طیارے ہائی جیک کرنے والے افراد انیس نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمان تھے۔ اگر ایسا نہ سمجھا جائے توپھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان امریکہ کی خورد بین کے نیچے کیوں ہیں؟ہر بین الاقوامی مباحثے میں ان کا وجود سر فہرست کیوں ہوتا ہے؟ امیگریشن کے قوانین میں تبدیلی لانی ہویااندرون ملک امن عامہ کے مسائل سے نبٹنا ہو، تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کے مسائل ہوں یا تارکین وطن کے مسائل، کسٹم، غرض یوروپ اور امریکہ میں ہر پالیسی ایسے کےوں ترتیب دی جاتی ہے گوےا قانونی ماہرین کے نزدیک صرف مسلمان ہی سب سے بڑا خطرہ ہیں؟اسی طرح امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں تارکین وطن،عام شہری، طالب علم، نوکر پیشہ، غرض کسی بھی حیثیت کے مسلمان کو صرف اور صرف مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے دیکھے جانے کا مطلب اس وقت تک دہشت گرد ہی ہے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو پر امن شہری ثابت نہیں کر دیتا۔
فاشسٹ ذہنیت:
ابلاغ عامہ اور تعلیم کے شعبہ سے وابستہ مسلمانوں اور اسلام کیخلاف پنپنے والی فاشسٹ ذہنیت نچلی سطح پر عوام تک منتقل ہو چکی ہے۔ امریکہ میں ےہ پیغامات عام پڑھنے کوملتے ہیں قرآن کو غسل خانے کی نذر کرو اورےاد رکھو کہ اسلام ہی اصل دشمن ہے۔کہیں پر حالات کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مسلمان دم بخود اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے مذہب اور ان کے طرزحےات کیخلاف جنم لینے والی زہریلی نفرت میں کمی آتی ہے۔ مسلم ہولوکاسٹ کی بے شمار مثالیں ہیں۔ جدیدمغرب میں رونما ہونے والے تمام منفی رویے اپنی انتہا کو پہنچ رہے ہیں۔ جومسلمان اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہ رہے ہیں۔روشن خیالی کے اس دور میںان کا قتل عام عظیم نیکیوں میں شمار کیا جارہا ہے۔ اسلام کریموف نے ازبکستان میں حالیہ خونریزی کے بعد اپنی صفائی ان الفاظ میں پیش کی کہ ےہ لوگ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
جمہوریت کا ڈھونگ:
آج بھی سرحدوں اور سرحدوں سے متعلق پالیسی کی حیثیت صرف مسلمانوں کی کانٹ چھانٹ تک ہی باقی رہ چکی ہے۔ حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس تعصب کو صاف طور پر کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں ہٹلر کے دور کا ایک ےہودی امریکہ چھوڑ کر ےوروپ جانے سے پہلے ےہ پیغام دے گیا کہ اسے امریکہ کی فضاو 191ں میں ہٹلر کے جرمنی کی بو آنے لگی ہے۔ امریکہ کے اتحادی ملکوں میں سرکاری ملازمین کمر ٹھونک کر کہتے ہیں کہ ہم اور امریکہ ایک ہیں۔ سرحدوں کی تحلیل کا عمل قومی رےاستوں کے مکمل خاتمے تک جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ایسے میں کیا جمہوریت کا ڈھونگ اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ جائے گا؟
اسلام کا حتمی خاتمہ:
جمہوری روایات کیخلاف سر گرم طاقتوں کا اصل چہرہ دیکھنے کیلئے امریکہ میں اسلام دشمن لابی پر نظر ڈالنا ہو گی۔ اس لابی کا دعویٰ ےہ ہے کہ دہشت گردی تو صرف ایک مظہر ہے جبکہ اس مظہر کیخلاف جنگ غیر منطقی ہے۔کیا اس لابی کے مطالباتر رنگ لانے کے قریب نہیں ہیں؟ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد، امریکی جنگجو اب ےہ کہنے میں بالکل ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر تے کہ ان کا مقصد اور ان کی جنگ کا مقصد اسلام کا حتمی خاتمہ ہے۔ امریکہ کیساتھ ساتھ اس جنگ میں شریک غاصب حکومتوں نے بھی اسلام کے حتمی خاتمے کی جنگ میں شریک ہو کر پورا پورا فائدہ اٹھانے کی ٹھان رکھی ہے۔عین ممکن ہے کہ اس خون ریز جنگ کا نتیجہ اسلام کے حتمی خاتمے کی بجائے مسلمانوں کے خوابوں کی حتمی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے۔
منفی پروپیگنڈہ:
جس جنونی انداز سے ےہ مسلم کش لابی اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے، اس کے نتیجہ میں ےہ لوگ اپنے لئے ایسی قبر کھود رہے ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا انہیں قطعی اندازہ نہیں۔ ےہ جنونی اس چیز کو حقیقت کے طور پر سامنے لا رہے ہیں جس سے عام مسلمان ماےوس ہو کر کب کا لا تعلق ہو چکا ہے۔ اسلام دشمنی میں ےہ لوگ جس چیز کو انسانیت کیلئے سم قاتل قرار دینا چاہتے ہیں، اس کا نام خلافت ہے۔ اس خلافت کو ایک حقیقی خطرہ کا نام دے کر ناممکنات میں شمار کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نیوےارک ٹائمز ےا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، صاف نظر آ جائے گا کہ جنگ کے آغاز کیلئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے عراقی ہتھیاروں کے وہمی بہانے میں جان نہیں رہی ہے اور اس دلیل کے جھوٹا ہونے کا اعتراف خود وار لارڈز کو بھی کرنا پڑا ہے، اب جہادیوں کو خلافت کے قےام سے روکنے کی تےاریوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔
قرآن اور سنت سے بیر:
کریموف کا ےہ کہنا کہ5سو سے زےادہ مسلمانوں کو بھوننا اس لئے ضروری تھا کہ وہ خلافت قائم کرنا چاہتے تھے، اس بات کی عکاسی ہے کہ وہ خود کو امریکی جنرل ابی زید کا ہمنوا ثابت کرنے کیلئے اس کی زبان بول رہا ہے۔ ابی زید نے واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈیوڈ اگنئیٹف کو بتاےا تھا کہ جو مسلمان خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے گھناو نے دشمن ہیں۔ اس کے مطابق ےہ لوگ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی استعمال کر کے ساتویں صد ی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔جو لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ جنگ اسلام کیخلاف نہیں ان کو جان لینا چاہےے کہ پہلے محض چند مسلمانوں پر ےہ الزام تھا کہ وہ سےاسی اسلام برپا کرنے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو اسلامسٹ اور جہادسٹ کا نام دیا گیا تھا۔لیکن جس کا کیا کیجئے کہ اب تمام مسلمانوں کو صاف صاف کہا جا رہا ہے کہ مسئلہ کی جڑ تو قرآن اور سنت کیساتھ وابستگی ہے۔
دقیانوسیت کا بہتان:
مثال کے طور پر فرنٹ پیج میگزین کے 28 جنوری کے شمارہ میں لارنس آسٹر اور واشنگٹن ٹائمز کے 2 دسمبر 2004کے شماروں میں سام ہیرس کے مضامین کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا دشمن قرآن اوررسول کی سنت ہے۔اس طرح کی باتیں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو حق کی تلاش اور انصاف کی جستجو پر مائل کرتی ہیں۔ جولوگ امریکہ کی مسلم طرزحیات کیخلاف جنگ کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا دقیانوسیت یا خیالوں اور خوابوں کی دنیائیں آباد کرنا نہیں ہے جسے انوینشن آف ٹریڈیشنInvention of Traditionاور انسٹرومیٹنلائزیشن آف اسلام Instrumentalisation of Islamکے نام پر بدنام کیا جا رہا ہے۔
منطقی جنگ:
انھیں کون سمجھائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عملی طور پر ایک ایسے معاشرہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی تقلید ہراس انسان پر فرض بن جاتی ہے جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا امتی کہلانے پر فخر کرتا ہے۔ اس میں ذاتی اور معاشرتی تمام معاملاتِ زندگی آ جاتے ہیں۔ اسلام کوئی خواب ےا محض نظریہ نہیں جو مسلمانوں نے امریکہ دشمنی میں ایجاد کر لیا ہو۔ اگر زندگی کے احکامات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے امریکہ سے وصول کریں تو وہ اسلام ہر گز نہیں کہلایاجا سکتا۔اسلام کیخلاف یہ جنگ کافی حد تک منطقی بھی ہے۔ کیونکہ اگر ہمیں فی الواقع اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرنے کا موقع مل گیا تو اس میں ڈکٹیٹرشپ اور بادشاہت اور لادینیت اور سرماےہ داری کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
نام نہادسیکولرازم:
جس سودی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ابن الوقت مسلم حکمراں اپنے ملک کی اعلی عدالت کے احکامات سرد خانے میں ڈال دے ،اس کا پھر بھی اسلام کا دعویٰ کرنا اسلام کیساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ عام مسلمان اسلام سے ہرگز خائف نہیں حتیٰ کہ شریعت، جس کو اکیسویں صدی کے کفار نے ایک عظیم فتنہ قرار دے رکھا ہے اس سے بھی کوئی فاسق مسلمان تک خائف نہیں کیونکہ شریعت کے قوانین اسلام کے مکمل نظام ِ زندگی کا حصہ ہیں۔ دراصل یہ اسلام کے سماجی انصاف کے تابع ہیں۔اسلام دشمنوں کیلئے ےہ آسان ہے کہ تمام الزامات دینی مدارس، مساجد اور سعودی سرمائے پر ڈال دیںلیکن انہیں یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ ان کے نظریاتی حملوں کا جواب وہی لوگ دیں گے جو مغرب کی ہی جامعات کے سند یافتہ ہیں اور جنہوں نے اپنے بیدار ضمیر کے باعث نام نہادسیکولرازم اور جمہوریت کا گھناو نا چہرہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔
نظام کی ناکامی:
مسلم دنیا میں مزاحمت اور مدافعت محض عزتِ نفس کی وجہ سے نہیں۔ نہ ہی یہ محض چند ضمیرسر فروشوں تک محدود ہے۔ یہ محض انسانی عقل کی بنیاد پر قائم کئے جانے والے نظام کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔یہ ناکامی مسلمانوں کو ایک واحد اکائی کی حیثیت سے اکٹھا ہونے کا راستہ دکھا رہی ہے تاکہ وہ اجتماعی طور پر انسانیت اور امن کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں جس زندگی سے انہیں جبراً محروم رکھا گیا ہے۔مسلمان چاہے کسی بھی معاشی اور معاشرتی حیثیت سے تعلق رکھتے ہوں ان کیلئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ نہ ختم ہونے والے نوآبادیاتی نظام کی زنجیروں سے آزاد ہونے کیلئے اس نظام کو ٹھکرا دیں جس کا اصل روپ جمہوریت اور لادینیت جیسے خوشنما نعروں تلے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ محض امریکہ کے سامنے بے بسی ہی مسلمانوں کو ایک بنانے میں کام نہیں آ رہی بلکہ یہ اس مسلسل احساس کا نتیجہ ہے جس کا سامنا پچھلی صدیوں سے مسلمانوں کو درپیش ہے۔
اسلامو فوبیا:
اگرچہ ستمبر 11 کے بعد اسلام دشمنی کا بازار کچھ زیادہ گرم ہو گیا ہے لیکن غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اکیسویں صدی کے جنگجوو ں کے مطالبے اور رویے آج سے14 سو سال پہلے کے اسلام دشمنوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ حد یہ ہے کہ جب برنارڈ لیوس اور ہنٹنگٹنروٹس آف مسلم ریگس Roots of Muslim Rage لکھ رہے تھے ،یا نیویارک ٹائمز میں عنوان قائم کئے جا رہے تھے کہریڈمینیس از گون،بٹ ہیئر از اسلامRed Menace is gone
جواب دیں