آپ نے ہمیشہ مجھے عزت و اکرام سے نوازا اور ہر قدم پر میری ہمت افزائی اور رہنمائی فرمائی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کہوں درخواست ہے کہ اس حدیث پاک پر اچھی طرح غور کیجئے جس پر تھوڑا بہت بھی عمل ہوجائے تو ایک انقلاب آسکتا ہے ۔ فرمایا آقائے دوجہاں سرورِ کائنات محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم نے کہ "پانچ چیزوں کا حساب دیئے بغیر کوئی شخص قیامت میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھاسکے گا ” ۔ہوسکتا ہے اْس کے ساتھ نمازوں، روزوں، زکوۃ، فرض اور نفل حج و عمروں کے پہاڑ ہونگے لیکن یہ سوالات پری کوالیفیکیشن ہوں گے ۔
* وقت *جوانی کی صلاحیتیں* مال آیا کہاں سے * مال 150 خرچ کہاں ہوا *علم
آج میری قوم سے میرا سب سے پہلا اور آخری سوال یہ ہے کہ آج تک آپ نے جتنا کمایا اور خرچ کیا اْس کا حساب تو رکھا لیکن کیا کبھی یہ حساب بھی کیا کہ اپنی ذات اور خاندان پر کتنا خرچ کیا اور قوم پر کتنا کیا؟ جس زبان نے آپ کو ذہانت بخشی، جس قوم کی تاریخ نے آپ کو وقار دیا، جس دین نے آپ کو صراطِ مستقیم عطا کیا، جس معاشرے نے آپ کو دوسری قوموں کے مقابلے میں بہتر تہذیب دی، اس قوم کو آپ نے زکوٰۃ کے علاوہ دیا کیا ہے ؟ اور کبھی سو پچاس یا پانچ سو یا ہزار دیا بھی ہے تو اسکے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مروّت، مجبوری یا مصلحت یا رواداری پوشیدہ رہی ہے ۔ اور جو کچھ دیا ہے وہ آپ کی کمائی اور بچت کا ایک فیصد سے زیادہ بھی نہیں ۔جیب سے قوم کیلئے مال نکالنے میں ہمیں تکلیف اس لئے رہی کہ امت ہماری نظر میں ہمارے گھر سے زیادہ عزیز نہیں تھی۔ ہماری خودغرضی اور اپنے گھر کو بھرنے کی حوس میں ہم بھی اسی طرح پکار اٹھے جس طرح کفّارِ مکہ نے پوچھا تھا کہ ‘‘و یسئلونک ماذا ینفقون؟ ’’ یعنی ‘‘یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر کتنا خرچ کریں؟ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو جواب دیتا ہے کہ ’’قل العفوا‘‘ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ جو کچھ ایک وقت کے کھانے اور پہننے کیلئے تمہارے پاس ہے اس کو رکھ کر باقی جتنا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔
مگر ہمارے ابا جان اور دادا جان اور نانا جان کی روش جو ہماری تہذیب بن گئی وہ یہ تھی کہ اپنا گھر بھرتے رہو، پڑوسی اور معاشرہ جائے بھاڑ میں۔ اگر بیوی کے پاس دس تولہ سونا ہے تو بیس کرو، ایک فلیٹ ہے تو دوسرا خریدو، بیٹی کی شادی کو ہم نے بابری مسجد کے تحفظ سے زیادہ اہم مسئلہ سمجھا، بیوٹی پارلر پر ہماری عورتیں جتنا سالانہ خرچ کرتی ہیں یا افطار، عقیقہ، سالگرہ یا بچے کے پاس ہوجانے پراور تحفوں پر ہم نے جتنا خرچ کیا ہے وہ ہمارے لئے قوم میں کسی بھی انقلاب لانے کی مہم سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ ۔ اپنی برابری کے سارے پیٹ بھرے لوگوں کی دعوت کرکے اْن کی دی ہوی پارٹیوں کا حساب برابر کرنا ہمارے لئے زیادہ اہم تھا بہ نسبت ان لاکھوں بلکہ کروڑوں مفلس مسلمانوں کے جو مجبوری کی وجہ سے آج اپنے ایمان اور اخلاق بیچنے پر مجبور ہیں ۔ ہزاروں مسلمان لڑکیاں جہیز کی مجبوری کی وجہ سے شہروں میں شورومس اور آفسوں میں نوکریاں کرکے اپنی شرم و حیا لٹا رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں گاؤں گاؤں سے مسلمان عورتیں اور بچیاں شہروں میں آکر ہندوؤں کے گھر نوکرانیاں بن کر کام کررہی ہیں ان کا کتنا استحصال ہورہا ہے کہتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے اور یہ بات اکثر لوگوں کو معلوم بھی ہے، لیکن قومی حمیّت و خودداری جب مرجائے تو نہ کسی کا خون کہولتاہے اور نہ غیرت جاگتی ہے ۔ اردو کو اسکولوں اور کالج سے ختم کرکے ہندی اور تلگو مراٹھی وغیرہ پڑھا کر نئی نسلوں کو مکمل ہندو دھرم میں ضم کیا جارہا ہے ۔ 85% فیصد مسلمان ہریجنوں سے بدتر اخلاقی اور معاشی حالت میں مبتلا ہیں۔ مسلمانوں میں شراب، سٹہ، چوری، دلالی، جھوٹ، دھوکہ، سود قتل و غارتگری ہندوؤں سے کہیں زیادہ ہے ۔ جیلوں میں یا کیبرے کلبوں میں جاکر دیکھئے کہ مسلمانوں کا تناسب 50% فیصد ہے ۔ شہر سے تھوڑا باہر نکل کر دیکھئے مسلمانوں کی کیا حالت ہے ۔ عورتیں کھیتوں اور کارخانوں میں کام کررہی ہیں اس کے مالکان اْن عورتوں کا کس طرح استعمال کررہے ہیں یہ اْن کے بے غیرت مردوں کو معلوم ہے لیکن مجبور ہیں کہ اگر عورت نوکری نہ کرے تو گھر نہیں چل سکتا۔ بیٹیوں یا بہنوں کی شادی کیلئے جہیز نہیں خریدا جاسکتا۔ مرد یا تو بے روزگار ہیں یا انتہائی نیچ پیشوں کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ علما جن کو قیادت کا منصب دیا گیا تھا آج ان کیلئے گھر گھر سے چاول اور آٹا مانگ کر مدرسوں کو چلانا پڑرہا ہے ۔ ان مدرسوں سے نکلنے کے بعد یہی مولوی، ملّا، مرشد اور عامل بنتے ہیں۔ اِن حضرات کے پاس کوئی ایسی مکمل حلال کمائی کا ذریعہ نہیں ہوتا جس کے ذریعے وہ گھر چلاسکیں، اسی لئے دین کے نام پر آج جو کچھ وہ کررہے ہیں اس سے اسلام پھیل رہا ہے یا بدنام ہورہا ہے یہ آپ جانتے ہیں۔ مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ کس طرح سود، عیّاشی، شہرت پسندی اور فیشن پرستی میں مصروف ہے یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ سیاسی لیڈر اور مذہبی پیشوا کس طرح اسلام اور مسلمانوں کی دْہائی دے کر قیادت کر رہے ہیں اور پھر کروڑوں کا گول مال کررہے ہیں اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہر سال عمرے بھی اور درگاہوں کی زیارت بھی کررہے ہیں، آپ یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ صرف اردو نہیں مٹ رہی ہے بلکہ اردوکی لاکھوں کتابوں کے ساتھ ساتھ ایک مکمل تہذیب، علومِ دین کے خزانے ، تاریخ اور قوم کی سوچنے اورسمجھنے کی صلاحتیں جو صرف اور صرف مادری زبان میں مہارت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یہ ساری دفن ہورہی ہیں۔ جب بھی ہیومن رائٹس، ویمنس رائٹس، اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بات آتی ہے تو ہم فوری یہ کہتے ہیں کہ ‘‘یہ تو اسلام میں چودہ سو سال سے موجود ہے۔ پھر ہم اب تک کہاں مرگئے تھے کہ خود ہماری عورت جہیز، طلاق، خلع، ڈومیسٹک وائلنس اور کئی ناانصافیوں کی شکار ہے ہر شخص ایک دوسرے کو لوٹ رہا ہے کہاں ہیں ہیومن رائٹس؟ مسلمانوں کو اس دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کیا گیا تھا لیکن آج پوری دنیا کی امامت یہودیوں، نصرانیوں یا ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہیں۔ امیر اور مڈل کلاس کے مسلمان مشکل سے 15%فیصد ہیں۔ باقی 85% فیصد بقول سچرکمیٹی کے ہریجنوں کی طرح آٹویا ٹیکسی ڈرائیور، رکشہ راں، مزدور، ٹھیلے پر بیچنے والے ، قْلی، چور، اچکّے ، دلّال، سود خواروں کے ایجنٹ ، شراب خانوں اور برائی کے اڈّوں کے محافظ ، زمینوں پر قبضہ کرنے والے یا قبضہ دلانے والے ہیں۔
امّت کی اس ذلّت کا سبب کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے ؟ اس پر ہر شخص ایک ایک گھنٹہ نان اسٹاپ بول سکتا ہے ۔ جیسے وہ کوئی دانشور ہو، لیکن اصل وجہ نہیں بتاتا۔ اصل وجہ یہ ہیکہ ہر شخص اپنی جیب سے مال نکالنے کیلئے مرجاتا ہے ۔ امت کی یہ حالت صرف اور صرف اسلئے ہوئی کہ ہم لوگوں نے امت کی ترقی کے کاموں پر خرچ کرنا بند کردیا۔ بھیک کے طور پر کچھ سو پچاس دیتے رہے اور باقی اپنی ذات پرخرچ کیا یا بنک میں یا جائداد کی شکل میں محفوظ کرتے رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام ایک بہترین دین ہونے کے باوجود مسلمان آج دنیا کی سب سے زیادہ بدترین قوم بن گئے ۔ دو چار فیصد جو آپ کی طرح اچھے ہیں وہ بھی اس غلط امیج کی چادر میں لپیٹے چلے گئے ۔
یہ بات مت بھولئے جو مرحوم ڈپٹی نذیر احمد نے ‘‘ابن الوقت’’ میں کہی تھی کہ "اگر آپ کروڑ پتی بھی بن جائیں لیکن آپکی قوم کا اجتماعی امیج اگر گِر چکا ہے تو آپ کی دولت یا ڈگری آپ کو بلند نہیں کرسکتی۔ آپ کی پہچان بھی اسی رذیل قوم سے ہوگی جس کی اکثریت ہے "۔ ہم نے آج آر سی سی کے گھر تو بنالیئے اور کاریں خریدلیں لیکن پیسوں کے معاملے میں ہماری نیّتیں اور سوچ آج بھی وہی ہے جو کویلو کے گھروں میں رہتے وقت اور سائیکلوں پر زندگی گزارتے وقت تھی۔ اْس وقت ایک ایک روپیہ بچا کر رکھنا اور خاندان پر خرچ کرنا ہماری مجبوری تھی لیکن آج وہ ہمارا مزاج بن گیا ہے ۔
ہم نے آج تک جتنا کمایا آدھے سے زیادہ تو خاندان پر خرچ ہوچکا، باقی آدھا بیٹے اور داماد لے جانے والے ہیں۔ ہم بے وقوف یہ سوچ کر خوش ہورہے ہیں کہ ہم نے اتنا جمع کیا ہے ۔ جبکہ اْدھر بیٹے ، بہو اور داماد یہ حساب لگا کر مطمئن ہیں کہ ابّا جان کے گزرجانے کے بعد اتنا ملنے والا ہے ۔ ہم جن کیلئے آج قوم سے خودغرضی کررہے ہیں یہی لوگ کل ہم سے خودغرض ہونے والے ہیں۔ اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ "یوم یفرالمرء من اخیہ، و صاحبتہ و بنیہ۔۔۔۔۔۔۔” یعنی "اس دن یعنی قیامت کے دن ہرشخص فرار حاصل کرے گا اپنے بھائی سے دوست سے اور اولاد سے ” کل جو لوگ آپ سے خودغرض ہونے والے ہیں آج آپ ان کیلئے دنیا جمع کررہے ہیں اور اپنی آخرت برباد کررہے ہیں۔ یہ کیسا کاروبار آپ کررہے ہیں، آپ اس غلط فہمی میں نہ رہئے کہ موت کا دن دور ہے دیکھا جائیگا۔ بھولئے مت کہ کل تک ہمارے ساتھ کئی عزیز دوست ساتھ تھے جو آج ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ کئی ہیں جو کئی نہ کوئی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسلئے اب بھی وقت ہے کل ہم سے خودغرض ہوجانے والوں سے ہم آج ہی خودغرض ہوجائیں۔ جس گھر کو چھوڑ کر جانا ہی ہے اْس کیلئے بچا بچا کر رکھنے کے بجائے اْس گھر کیلئے بچانا شروع کردیں جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہے ۔ بقول علامہ اقبال کے :
نہ بچا بچا کے تو رکھ اِسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہوتو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
لیکن ایک بیوہ کی طرح پیسوں کیلئے ہائے ہائے کرنا ہماری فطرت بن چکی ہے ۔ جوانی تک گھر بنانے بہنوں کی شادیاں کرنے کے لیے یشان تھے ۔ ادھیڑ عمر تک بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے لئے کشمیر اور غازہ و فلسطین سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ تھا۔ پھر لڑکیوں کی شادیاں جب سر پر آئیں تو پچاس پچاس لاکھ پاس ہوتے ہوئے بھی پریشان تھے کہ پتہ نہیں اور کتنے لاکھ کم پڑجائیں گے ۔ ملّی کاموں سے ایسے دور رہتے تھے جیسے بیوہ یا مطلقہ عدّت کے دنوں میں سب سے دور رہتی ہے ۔ جب پچاس پچپن سال میں آگئے ، ساری ذمہ داریاں ختم ہوچکی ہیں۔ بیٹے داماد سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوچکے ، آمدنی اب بھی جاری ہے لیکن اب بھی بیوہ کی ہائے ہائے جاری ہے ۔ ذراسا قوم کیلئے خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو پچاسوں پریشانیاں یاد آجاتی ہیں۔ صورت یتیم کی سی ہوجاتی ہے ۔
اب بھی وہ کونسی ضرورت ہے یا کس کا حق ہے جو آپ بچا بچا کر رکھنا چاہتے ہیں؟ اب تک تو آپ یہ سوچتے رہے کہ جو کچھ ہے میرے بچوں کے کام آجائے ۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا جب آپ یہ سوچیں کہ اب جو بھی ہے میری قوم کے کام آجائے ۔ کوئی تو حساب ہونا چاہئے ۔ جوانی خاندان کو دے دی، ادھیڑ پن اولاد کو دے دیا۔ اب اگر بڑھاپے کی کمائی بھی صرف بچوں اور دامادوں کے لئے چھوڑ کر مرنے کی تمنا ہو تو اس سے بڑی خودغرضی، حیوانیت اور بے ضمیری اور کیا ہوگی؟ کل بیٹے اور داماد تو خوش ہوجائینگے کہ انہیں خوب مل گیا۔ وہ تو یہ کہہ کر یاد کرینگے کہ ابّا جان اچھے تھے ہمارے لیئے اتنا چھوڑ کر گئے ۔ اور مزے اڑائیں گے ۔ لیکن آپ کو قوم تو دور کی بات ہے پڑوسی بھی یاد نہیں رکھے گا کہ آپ کوئی انسان تھے یا آپ سے انسانیت کو کوئی فائدہ بھی کبھی پہنچا تھا۔ قوم اور تاریخ تو ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اپنی کمائی میں قوم کو یاد رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے آج دس بیس لاکھ قوم پر خرچ کردیئے تو بیٹوں دامادوں کا کچھ نہیں بگڑے گا، وہ بھی مرد ہیں وہ بھی کمالیں گے ۔ لیکن قوم پر خرچ کردیا تو قوم سنور جائیگی ، دو قدم آگے بڑھ جائیگی ۔اور اگر آپ نے خودغرضی برتی تو قوم ایک نہیں دس قدم اور پیچھے چلی جائیگی۔ یاد رکھیئے آج آپ کی قوم کی جو بھی حالت ہے آئندہ پندرہ تا بیس سال میں اس قوم کی ذلّت میں کئی سو گْنا اضافہ ہونے والا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے قوم کے بارے میں کیسی کیسی ہدایات کی ہیں ملاحظہ فرمائیں، کہ کوئی پڑوسی کی دیوار سے اونچی دیوار نہ اٹھائے ، اگر اپنے بچوں کیلئے میوے لائے تو پڑوسی کے بچوں کیلئے بھی لائے اور اگر استطاعت نہیں ہو تو چِھلکے لے جا کر دور پھینکے ، سالن میں پانی زیادہ ڈالے تاکہ پڑوسی کے کام آئے ، اگر محلّے کے بچے کھیل رہے ہوں تو وہاں جاکر اپنے بچے کو یااِبنی ( اے میرے بیٹے ) کہہ کر نہ بلائے کیونکہ ہو سکتا ہے ان بچوں میں کوئی یتیم بھی ہو اور اْس کے دل کو تکلیف پہنچے ۔ لیکن آج ہماری قوم کے مرد اپنا سارا مال بیٹوں کے اور عورتیں اپنی بیٹیوں دامادوں کے گھر بھرنے کی ہوس میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر قارون کا خزانہ بھی مل جائے تو یہ صرف اپنے بیٹوں اور دامادوں کو بھرنے کی ہوس میں مرجائیں گے ۔ یہی چلن آپ کی اولاد میں آجائیگا۔ وہ جو بھی کمائیں گے صرف اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہوئے مرجائیں گے ۔ پورے خاندان اور محلّے اور شہر میں یہی خودغرضی کا چلن پیدا ہوجائیگا۔ پھر جتنے نئے دولت کمانے والے نودولتیئے ندیدے ہیں وہ بھی خودغرض بنتے چلے جائیں گے ۔ کیونکہ نیا امیر بننے والا ہمیشہ پرانے امیر کے راستے پر ہی چلتا ہے ۔
وہ لوگ سوسائٹی پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوتے ہیں جونوکری کاروبار اور گھر ہی ان کی دنیا ہے ۔ وقت گزاری کیلئے کچھ دوست اور کبھی کبھار جمعہ کی نماز میں نظر آتے ہیں اس کے علاوہ اْنہیں قوم سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ لوگ بھی زمین پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں جو اپنی شادیوں اور دعوتوں پر تو لاکھوں لٹاتے ہیں لیکن قوم کیلئے جب تک ان سے بھیک نہ مانگو کچھ نہیں نکالتے ۔ بار بار فون کرکے ان کو عزت مآب بنا کر بلانا پڑتا ہے ، دامادوں کی طرح ان کے نخرے سہنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر یہ جیبوں سے پانچ سو ہا ہزار نکالتے ہیں۔وہ لوگ بھی اس زمین پر بوجھ ہی ہیں جوہر جلسے اور ہر پارٹی جہاں ان کی فوٹوز اور نیوز بنے وہاں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں لیکن وہ کام جس کا حساب صرف فرشتے نوٹ کررہے ہوں ان کاموں سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔وہ لوگ اس زمین پر بوجھ ہیں کہ جو مشورے دیتے ہیں، عمدہ گفتگو کرتے ہیں، ایک ایک گھنٹہ برباد کرڈالتے ہیں لیکن انہی کے مشوروں پر عمل کرنے کیلئے جب جیب سے نکالنے کی بات آتی ہے تو صورت چھوٹی ہوجاتی ہے ۔ آواز اور لہجہ مْردار ہوجاتا ہے ۔ چندہ لینے والے سارے اِن کو چور نظرآتے ہیں۔ گویا اب کوئی فرشتہ ہی آسمان سے آکر ان کے مشوروں کو عملی جامہ پہنائے تو یہ جیب سے پیسہ نکالیں گے ۔
وہ لوگ بھی اس زمین پر بوجھ ہیں جو اپنی کمائی کو اپنی قابلیت کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے ۔ کمائی کا فلسفہ سمجھنے کیلئے ان کوسورۃ البلد پڑھنی لازمی ہے ۔ بالخصوص گلف میں رہنے والے اکثر یہ بکواس کرتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے وہ ان کی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے ہے ۔ گلف میں اندھا راج ہے ۔ یہاں کوئی قابلیت کی وجہ سے نہیں بنا۔ کئی قابل ترین لوگ تھے لیکن اْنہیں غلط کفیل مل گئے اور وہ پھنس گئے ۔ کئی کواتفاق سے کہیں ڈگری کام آگئی، کہیں سفارش اور کہیں حالات یا کہیں دیڑھ ہوشیاری،جس کی وجہ سے انہیں آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ اگر یہ انڈیا یا پاکستان میں رہتے تو آج کیا ہوتے یہ آپ خود اندازہ لگالیجئے ۔ جب جیب میں مال آگیا تو اچانک ان کا دماغ آسمان پر چلا گیا۔ یہ عام محفلوں میں نہیں آتے ، انہیں اولڈ سٹی کے لوگوں سے ملنا پسند نہیں، یہ کسی بھی ملّی کام میں کوئی نہ کوئی خرابی نکال کر تنقید کرنا اور فضول مشورے دینا ان کی عادت ہے ۔ رشتہ داروں یا کسی مدرسے یا ادارے کو زکوٰۃبھی اگردیتے ہیں تو ایک احسان سمجھ کر۔ لیکن یہ لوگ ملتے بہت اخلاق سے ہیں۔ امریکہ کینیڈا یا یورپ کے سفر اوراپنی ذہانت اوراپنی اور اپنے بچوں کی ترقی کے واقعات سنا کر بور کرتے ہیں۔ جب جیب سے کچھ نکالنے والا ٹاپک آجائے تو ایسی ایکٹنگ کرتے ہیں جیسے ہم روسی یا چینی زبان میں بات کررہے ہیں جو یہ بالکل نہیں سمجھتے ۔ سانس رک کر آتی ہے ۔ گفتگو کا انداز بے رْخانہ ہوجاتا ہے ۔ اچانک کوئی کام یاد آجاتا ہے اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے کِھسک جاتے ہیں۔
وہ لوگ بھی زمین پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں جو نوجوان ہیں، اچھی نوکریاں مل گئی ہیں۔ لیکن ایسا رویّہ ہے جیسے بسم اللہ یا ختنہ کے دلہے ہیں۔ ہر بات ابّا سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ اگر قوم کیلئے جیب سے کچھ نکالنے کیلئے کہا جائے تو کہیں گے ‘‘ابّا جان سے پوچھ کر بتائیں گے ۔’’ کیونکہ قوم کیلئے دل کھول کر جیب سے نکالتے ہوئے نہ انہوں نے ابّاجان کو دیکھا نہ سسر صاحب کو دیکھا۔ لیکن یہی لوگ بے شمار فضول خرچیاں کرتے ہوئے نہ ابّاجان سے پوچھتے ہیں نہ سسر سے ۔ دلہن والوں سے لاکھوں خرچ کرواتے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہیں ایسے مولوی اور ملّا مل جاتے ہیں جو جوڑے جہیز اور کئی کئی ڈِش پر مشتمل اسراف اور تبذیر سے بھرپور ریسیپشن، ولیموں، سانچق اور منجوں کو ‘‘خوشی سے دینا لینا جائز ہے ’’ کہہ کر ان فاسقوں کیلئے چور دروازے کھولتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اس زمین پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں، جو بوڑھے ہوچکے ہیں، ساری ذمہ داریاں پوری ہوچکی ہیں۔ قبر میں پاؤں لٹک رہے ہیں۔زندگی میں کچھ اور تو نہیں بن سکے البتہ چچا ماموں پھوپھا خالو بن گئے ۔ بس یہی ان کی معراجِ حیاتِ بے مقصد ہے۔ اْن کے پاس وقت ہی وقت ہے وہ اِس قیمتی وقت کو قوم کیلئے لگاسکتے ہیں۔ اپنے گھر اور مال کو قوم کیلئے وصیّت میں چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن فالتو کاموں میں وقت گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ہر چیز انہی بیٹوں دامادوں کیلئے چھوڑ کر جاتے ہیں جوپہلے ہی سے بہت کچھ لے چکے ہیں۔وہ لوگ بھی اس زمین پر بہت بڑا بوجھ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کسی ملّی کام کا تجربہ نہیں ہے ہم کیسے کرسکتے ہیں۔ اِن لوگوں نے شادی سے پہلے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ‘‘ہمیں بچے پیدا کرنے کا تو کوئی تجربہ ہی نہیں ہم شادی کیسے کرسکتے ہیں’’۔ یا نوکری کرنے سے پہلے یہ تو نہیں کہاتھا کہ ‘‘ہم نے نوکری تو کبھی کی ہی نہیں، ہم نوکری کیسے کرسکتے ہیں’’۔ قوم کے ہر کام کو وہ یہ کہہ کر ٹالتے ہیں کہ فلاں فلاں لیڈر کو یہ کرنا چاہئے اور فلاں فلاں جماعت کو وہ کرنا چاہئے ۔ خود کو کیا کرنا ہے یہ کبھی نہیں سوچیں گے ، بس پیسہ کماتے رہیں گے ۔ ایک نوکری چھوٹ جائے تو دوسری ڈھونڈھنے کا فن انہیں معلوم ہے ۔ چار چار پانچ پانچ بچے پیدا کرنے کا فن انہیں معلوم ہے ۔ ان کی پرورش کرنے کا فن انہیں معلوم ہے ،اانہیں ڈاکٹر انجینئر بنانا اور انگلینڈ امریکہ کس طرح بھیجنا ہے اوران بچوں کی عالیشان شادیاں کیسے کرنا ہے یہ ہنر بھی انہیں معلوم ہے ۔ لیکن ان بچوں کو قوم کیلئے خرچ کرنے کا فن سکھانا انہیں نہیں معلوم۔ جب قوم کیلئے کچھ کرنے کی بات آتی ہے تو یہ شیشی سے دودھ پینے والے بچے بن جاتے ہیں۔ اور باتیں بھی بچوں جیسی کرتے ہیں۔ آج ساری قوم ایسے ہی ‘‘ایکٹروں’’ سے بھری ہوئی ہے اسلئے بی جے پی اور آر یس یس ان کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے وہ بالکل صحیح کررہی ہے ۔ یہ اسی کے قابل ہیں۔ بہرحال، انہی لوگوں کی وجہ سے قوم آج ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ذلیل ہورہی ہے ۔ جب تک لوگ اپنی جیب سے مال نہیں نکالیں گے اس قوم کا ترقی کرنا ناممکن ہے ۔ جن لوگوں نے گھر بار اور بال بچوں کی ذمہ داریاں پوری کردی ہیں ان لوگوں پر اپنی آمدنی کا آدھا حصہ اللہ کے راستے میں نکالنا لازمی ہے ۔ اور جن پر کچھ ذمہ داریاں باقی ہیں ان پر اپنی اپنی آمدنی کا کم سے کم دس فیصد حصہ نکالنا لازمی ہے ۔ ورنہ اگر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر ہزار دو ہزار دے کر ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں تو ناممکن ہے کہ قوم ترقی کرے ۔ لوگ یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں یہودیوں اور ہندوؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں لیکن قوم کے لئے مال خرچنے کے معاملے میں کیوں یہودیوں، نصرانیوں اور ہندوؤں کے امیروں کی نقل نہیں کرتے ؟ یہودی اور ہندو جیب سے پیسہ نکال کر اپنی پسند کی پارٹیوں اور لوگوں کو حکومت میں لاتے ہیں۔ امریکی صدر یا ہندوستانی وزیراعظم کا انتخاب اسی کا ثبوت ہے ۔ اور ہماری قوم جیب سے کچھ خرچ کرنا نہیں چاہتی۔ صرف واٹس اپ، فیس بک اور میل گروپ کے ذریعے ہر چیز کو مفت میں فارورڈ کرکے قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہے ۔یاپھر دعائیں اور وظیفے پڑھنے کی ترکیبیں بتاتی ہے ۔ یاپھر مسلمان لیڈروں کو جماعتوں کو اور عوام کو یہ کرنا چاہئے اور وہ کرنا چاہئے یعنی چاہئے چاہئے چاہئے کا پہاڑا پڑھتی ہے ۔ یہ ناممکن ہے کہ قوم اس طرح ترقی کرے ۔ جو جیب سے لاکھوں نکالے بغیر قوم کی ترقی پر بات کرتا ہے وہ بہت بڑا منافق ہے ۔ ایسے لوگوں کے سو پچاس ریال بھی دِکھاوے کے ہوتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو اس منافقت سے باہر نکالنے کیلئے بہت محنت کرنی ہوگی۔ آپ کو کسی نہ کسی جماعت، مدرسے ، ادارے پر جتنا آج تک خرچ کیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ خرچ کرنا ہوگا یا پھر خود ہی کوئی مّلی خدمت کا کام لے کر اٹھنا ہوگا چاہے کوئی دوسرا کرے یا نہ کرے ۔
اس وقت سب سے پہلا کام جو کرنا ہے وہ سوشیل ریفارم یعنی سوسائٹی کے اخلاقی اقدار کو بدلنا اور ایک سماجی انقلاب لانا ہے ۔ کیونکہ اگر
ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست، معاشرت، معاش، تعلیم اور اخلاق کو سدھارنا ہے تو اس کی ابتدا سوشیل ریفارم سے ہوگی۔ یوں تو بے شمار مسلمان جماعتیں ہیں لیکن ریفارم کے کام کسی کے ایجنڈے میں نہیں۔ اگر ہیں بھی تو صرف کارکنوں کو مصروف رکھنے اور چندے جمع کرکے جلسے کرنے کیلئے ہیں۔ فیلڈ پر جاکر شہر شہر اور گاؤں گاؤں نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکنا کسی کے ایجنڈے میں نہیں ہے ۔
سوشیو ریفارم کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ* لڑکیوں کے والدین کے سر سے جہیز اور کھانوں کے بوجھ کو ختم کیا جائے ۔ علما مفتیوں اور قاضیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے ۔ کیونکہ کوئی سچا عالمِ دین ایسا نہیں ہوسکتا جو جہیز یا رخصتی کے کھانوں کو جائز قرار دے ۔جہیز رشوت ہے ، بھیک ہے ، غیر قوم کی نقل ہے ، قرآن کی خلاف ورزی ہے ، حرام ذرائع آمدنی پانے مجبور کرتا ہے ۔ * اسی کے نتیجے میں طلاق، خلع اور کشیدہ تعلقات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اسلام میں کونسلنگ کی بے انتہا اہمیت ہے لیکن مسلمانوں میں اس کا کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کی کمائی پولیس والے ، وکیل اور جج یاپھر پہلوان اور غنڈے کھارہے ہیں۔ سوشیو ریفارم کے ذریعے اس لعنت کو ختم کرنا ہے ۔*ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ قرآن ایک دستورِحیات ہے لیکن اس کے مقدمات پولیس اور کورٹ میں ریڈّی اور راؤ طئے کرتے ہیں۔ جو مسلمان پولیس یا وکیل یا جج ہیں وہ بھی ریڈّی یا راؤ سے مختلف نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے علما اور مفتیوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اسلامی عدالت یعنی دارالقضاء قائم کریں اور ان کی قانونی حیثیت تسلیم کروائیں۔ اسلامی عدالتوں کا قیام اسی طرح ہم پر فرض ہے جس طرح مسجدوں کا قیام کرنا ہے ۔ یہ کام اب ہمیں کرنا ہے ۔* سورۃ سلیمان میں جس طرح کہا گیا کہ جب کوئی فاتح کسی قوم کو محکوم اور مغلوب کرتا ہے تو پہلے اسکے عزت دار لوگوں کو ذلیل کرتا ہے ۔آریس یس اور بی جے پی یہی کررہی ہیں ۔ وندے ماترم، تعلیمی نصاب میں تبدیلی، دھماکے ، فسادات، انڈین مجاہدین کے نام پر ڈرامہ بازی، میڈیا سے مسلم نیوز کا مکمل خاتمہ وغیرہ ایک مکمل سازش کے تحت کئے جارہے ہیں۔ ایسے کاموں میں مسلمانوں کے سیاسی اور تعلیم یافتہ عزت دار لوگوں کو لالچ اور ترقی دے کر خود مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ۔ سیاسی لیڈروں کے خلاف سیاسی لیڈر خریدے جاتے ہیں۔ علما کے خلاف علما کو، مدارس کے خلاف مدارس کو اور جماعتوں کے خلاف جماعتوں کو خریدا جاتا ہے۔خود بِکنے والوں کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اْنہیں کس مقصد سے خریدا گیا ہے ۔ وہ تو اِسے حق کی جیت سمجھ کر اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرکے خوش ہوجاتے ہیں اْنہیں کہاں شعور کہ دشمن نے کس طرح امّت کی وحدت کے سینے میں خنجر مارا ہے ۔ یہی بِکنے والے نادان عزت دار لوگ بزدل، مخبر، اور مصلحت پسند ہوجاتے ہیں۔ قوم کیلئے اگر کوئی کچھ کرنے کیلئے آگے بڑھے تو دوسروں کو ان سے ڈراتے ہیں۔ کسی نہ کسی اسکام یا اسکینڈل میں پھنسا دیتے ہیں۔ کل اگر علیم خان فلکی کے بارے میں بھی لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کریں اور آپ سے کہیں کہ اِن سے دور رہئے کیونکہ یہ ایمبسی یا گورنمنٹ کی نظر میں مشکوک ہیں یا فلاں کیس میں ملوث ہیں تو آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔ اچھی طرح جان لیجئے کہ ایسے ہی بے وقوف اورمصلحت پسند لوگ قوم کے ہمدردوں کے بھیس میں چھپے اصل دشمن ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں سے متاثر ہوکر اْن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے جیسا کہ کئی لوگ اب تک کرچکے ہیں جو کہ ہمارے ہی درمیان اٹھتے بیٹھے ہیں اور ہر معتبر محفل میں شریک ہوتے ہیں، انتہائی اخلاق سے ملتے ہیں لیکن پیچھے جاکر منافقت کرتے ہیں، آپ ایسے لوگوں کی باتیں سن کراگر چپ رہے تویہ آپ کی اور پوری قوم کی بدقسمتی ہوگی۔ حق اور باطل کی لڑائی میں جو حق جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرجائیں اور حق کا ساتھ نہ دیں تو اِس زندگی میں تو اْنہیں عافیت اور عزت سے زندگی گزارنے کا موقع مل جائیگا لیکن چونکہ خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینا اور ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے تو کل قیامت میں ظالموں کے ساتھ ہی اٹھائے جائینگے۔ ہمیں اس بے حِسی اور جمود کو توڑنا ہے ۔ نہ صرف وندے ماترم بلکہ تعلیمی نصاب جیسی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جس سے قوم واقف نہیں، نہ علما کو شعور ہے نہ دانشوروں کو۔ جن کو شعور ہے وہ لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ ان سب کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ سارے کام ایک ہی صورت میں ممکن ہیں۔ آپ اگر خاندان کی ساری ذمداریاں پوری کرچکے ہیں تو اپنی آدھی آمدنی ورنہ کم سے کم دس فیصد حصّہ کسی نہ کسی ملّی کام میں لگایئے ۔ کئی جماعتیں اور ادارے موجود ہیں جن کے پاس کام کرنے والے بھی ہیں، منصوبے بھی ہیں اور اجمتاعیت کی برکتیں بھی ہیں۔ آپ کی قوم کیلئے کیا کرنا چاہتے ہیں وہ یا اس جیسا کوئی نہ کوئی کام ہر جماعت یا ادارے کے پاس موجود ہے آپ کسی کو بھی منتخب کیجئے ، ایک پروجیکٹ کو مکمل اسپانسر کیجئے اور تادمِ حیات اس کی تکمیل میں لگے رہئیے اور اگر آپ کی منشا کے مطابق کوئی جماعت بھی ویسا کام نہیں کررہی ہے تو آپ خود شروع کیجئے ۔ ہر قسم کی خدمت کے لئے افراد موجود ہیں لیکن ان کو معاوضہ دینا پڑتا ہے ۔ اپنے بینک بیلنس کو کم کئے بغیر دوسروں سے فی سبیل اللہ کام کرنے کی توقع کرنا زیادتی ہے ۔ آپ قابل افراد کو معاوضہ دیجئے ایک سے اعلیٰ ایک اڈوائزر، ورکر، رضاکار اور ایکسپرٹیز آپ کو مل جائینگے۔ان تمام کاموں کی تکمیل کیلئے ایک ہی شرط ہے ۔ آپ جو کچھ کریں اْس کا اجر صرف اور صرف تہجّد اور دیگر نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ اس کے بدلے اگر آپ کی کوئی تعریف کرے ، آپ کو ایوارڈ دے ، اخبار یا ٹی وی پر آپ کو پیش کرے اور آپ کو دِلی خوشی حاصل ہو تو یہ سمجھ لیجئے کہ شیطان آپ کا پیچھا کررہا ہے ۔ اور اگر کسی مخالف کی کوئی بات سے تکلیف پہنچے تو تب یہ سمجھ لیجئے کہ یہ شیطان کا دوسرا وار ہے جو پہلے سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مسلسل قرآن اور سیرت کا مطالعہ جاری رکھئے ۔ اگر اردو نہیں آتی ہے تو کسی عالم دین سے ہر روز ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث سننا اور پڑھنا شروع کیجئے ۔ ان علماؤوں کو اچھا معاوضہ دی جائے تو اس سے ایک سے قابل ایک پڑھانے والے بھی آپ کو مل جائینگے۔
یاد رکھئے ، جیب سے مال نکالنا آپ پر دیگر تمام فرائض سے بڑا فرض ہے ۔ ہوسکتا ہے کوئی اس دعوے پر کہ یہ فرض ہے مذاق اڑائے کیونکہ ہمارے مولوی اور ملّا چندے کچھ اس طرح مانگتے رہے ہیں کہ دینے والا یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ دینا نہ دینا اس کی مرضی ہے ۔ دیا تو احسان نہ دیا تو کچھ نہیں۔ چونکہ اْن مانگنے والوں کے ذاتی مفادات بھی اس میں شامل ہوتی ہیں اسلئے ان کے رویّے کی وجہ سے انفاق کی اہمیت گھٹ گئی ہے ۔ دین کو قائم کرنے کیلئے انفاق فرض ہے ۔ یعنی سے جیبوں سے مال نکالنا ضروری ہے۔ نماز کا ذکر قرآن میں ساٹھ مرتبہ ہے ، زکوٰۃاور روزہ اور حج کا حکم چار پانچ مرتبہ سے زیادہ نہیں لیکن جیب سے مال نکالنے یعنی انفاق کا حکم تقریبا دوسوپچاس سے بھی زیادہ مرتبہ ہے ۔ آپ کی ذاتی نمازیں، روزے اور حج وغیرہ کا قائم کرنا الگ شئے ہے اور دین کو قائم کرنا الگ شئے ہے ۔ یہ وہ شئے جس کے لئے تاریخِ اسلام میں کسی نے اپنا پورا گھر کسی نے آدھا گھر لاکر سامنے رکھ دیا۔ کسی نے اپنا گھر اور ملک چھوڑ دیا کسی نے بیوی بچوں اور خاندان کی قربانی دے ڈالی۔ حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ ڈھائی فیصد زکوٰۃتو منافقوں کیلئے ہے ، مومن کیلئے کوئی فیصد نہیں ہوتا، جو بھی اسکے پاس ہوتا ہے وہ امّت کیلئے لٹا دیتا ہے ۔ آج ہندوستان کے حالات ایسے ہی انفاق کے طالب ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ اس کو مدد نہیں بلکہ ایک فریضہ سمجھ کر ادا کرینگے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے جذبے کو قبول فرمائے ، ایمان و استقامت کی دولت سے نوازے آمین۔ ایک آخری درخواست اور ہے کہ اس خط کو جتنے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں پہنچایئے ، کیونکہ جب تک سماج کو کھلا آئینہ نہیں دکھائینگے سماج کو سنوارنا ممکن ہے۔ اگر ہماری سوسائٹی کے صرف دس فیصد لوگ بھی ہر سال زکوٰۃکے علاوہ ایک ایک لاکھ روپئے اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے نکالنے لگیں تو ہر جماعت، ہر مدرسہ اور ہر ادارے کی حالت سنور جائیگی اور ایک ایسا انقلاب نظر آنا شروع ہوجائیگا جس سے دشمن کے خیموں میں ہیبت طاری ہوجائیگی اور ہزاروں لاکھوں لوگ جو صحیح دین کے پیاسے ہیں اسلام کے قدموں میں جمع ہونے لگیں گے ۔
جواب دیں