امام‘ مؤذن اور ہم؟

ائمہ کرام کے مسائل اور ان کی تنخواہوں کے مسئلے پر گذشتہ 22برس سے جدوجہد کی جارہی ہے افسوس اس بات کا ہے کہ جب کبھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وقت آیا اس وقت مختلف جماعتوں نے اس کے سیاسی استحصال کی کوشش کی۔ 1993ء میں دہلی میں ائمہ کرام نے تاریخ ساز ریالی منظم کی تھی اور ملک بھر کے امام و مؤذنین ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوئے تھے۔ ان کے مسائل حل بھی ہوسکتے تھے مگر یہ وقت تھا جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ مسلمانوں کے لئے ناپسندیدہ شخص بن چکے تھے اور ان کی جماعت سے مسلمانوں نے قطع تعلق اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کانگریس سونے کو بھی چھوتی تو اس کی وقعت مسلمانوں کی نظر میں مٹی سے بھی کمتر ہوتی۔ ائمہ کرام اور مؤذنین کی ریالی ان کے اتحاد پی وی نرسمہا راؤ کے تیقنات کو مسلمانان ہند اور ان کے ترجمان مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سیاسی زاویہ سے دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک باقی تو رہی مگر اس میں وہ طاقت نہ رہی۔ ایک عرصہ بعد مولانا عمیر الیاسی کی قیادت میں آل انڈیا امام کونسل کی وفد نے تنخواہوں کے مسئلہ کو دوبارہ چھیڑا۔ ابھی اس پر مختلف گوشوں سے متضاد ردعمل کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ کرناٹک کے حرکیاتی وزیر جناب قمرالاسلام نے گواہ کے توسط سے یہ انکشاف کیا کہ ان کی حکومت وقف بورڈ کے توسط سے مساجد کے ائمہ کو ماہانہ 3100 روپئے اور موذنین کو 2500 روپئے بطور ہدیہ پیش کررہی ہے اور رمضان المبارک میں ایک مہینہ پیشگی یہ رقم انہیں ادا کی جاچکی ہے۔ ابھی یہ بات تازہ ہی تھی کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ مسٹر چندر شیکھر راؤ نے بھی ریاست کے امام اور مؤذنین کے لئے وقف بورڈ کے توسط سے ماہانہ ہدیہ کی پیشکشی کا اعلان کیا جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ماہ مقدس کے لئے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ اجلاس میں بی جے پی کے رکن اسمبلی مسٹر رام چندر ریڈی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تراویح پڑھانے والے اماموں کو فی کس 10ہزار روپئے ہدیہ پیش کیا جانا چاہئے۔ چونکہ یہ تجویز ایک بی جے پی قائد کی تھی اس لئے اس کا خاطر خواہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔
ہندوستان میں ساڑھے پانچ لاکھ کے لگ بھگ مساجد ہیں جو اوقاف میں درج رجسٹر ہیں۔ ان میں سے بہت کم مساجد کے امام کی معاشی حالت بہتر ہے۔ وہ امام جن کے سیاسی اثرات و رسوخ ہیں‘ جو سوسائٹی میں اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں‘ ان کی حالت قدر بہتر ہے۔ تاہم بیشتر مساجد بالخصوص دیہی علاقوں کی مساجد کے اماموں اور مؤذنین کی معاشی حالت بہتر نہیں ہے۔ ان کی تنخواہیں مساجد کی انتظامی کمیٹی کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ تلنگانہ ہو یا آندھرا یہاں کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر ائمہ کرام کا تعلق شمال ہند سے ہے جو اپنا وطن اپنا گھر بار چھوڑ کر سینکڑوں میل دور آکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے اس قدر کم ہدیہ دیا جاتا ہے کہ ان کے ارکان خاندان دو وقت بھی پیٹ بھر نھیں کھاسکتے۔ انہیں اپنے گذر بسر، بچوں کی تعلیم، لڑکیوں کی شادی اور دیگر اخراجات کیلئے یا تو کسی مدرسے سے وابستہ ہونا پڑتا ہے یا پھر گھر گھر جاکر عربی ٹیوشن پڑھانے پڑتے ہیں۔ ان کی قدر و قیمت چند ایک موقع پر ہوتی ہے خاص طور پر کسی کے گھر موت واقع ہو تو غسل جنازہ، نماز جنازہ اور دعائے مغفرت کیلئے!
ماہ رمضان واقعی ائمہ کرام اور مؤذنین کے لئے مبارک ثابت ہوتا ہے جب کچھ مسلمان ان ائمہ اور مؤذنین کا بھی خیال کرتے ہوئے 100، 50 روپئے اور زیادہ سے زیادہ 500، 1000 روپئے تک کا عطیہ دیتے ہیں۔ رمضان کے بعد بیشتر مسلمان مسجد کا راستہ بھول جاتے ہیں تو بھلا امام اور مؤذن کیسے یاد رہ پائیں گے۔ بیشتر مساجد کے انتظامی کمیٹیوں پر ایسے لوگ قابض رہتے ہیں جو کسی بھی طرح سے اس کے اہل نہیں ہوتے۔ اللہ کے گھر کے انتظامات کی نگرانی کو بجائے سعادت اور اعزاز سمجھنے کے وہ اسے اپنا حق اختیار سمجھتے ہیں اور امام اور مؤذن کو اپنا ملازم بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں جہاں امام صاحب کو انتظامی کمیٹی کے ارکان کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانے پڑھتے ہیں اور کبھی کبھار گھر کا سودا سلف بھی لانا پڑتا ہے۔ اگر کبھی امام و مؤذن انتظامی کمیٹی سے اپنے ہدیہ میں اضافے کی گذارش کرتے ہیں تو بہانہ تلاش کرکے انہیں بدل دیا جاتا ہے۔ اگر ذی اثر حضرات سفارش کرتے ہیں تو مساجد کی آمدنی کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مساجد کی آمدنی معقول نہیں ہوتی۔ بعض مساجد کے تحت کمرشیل پروپرٹی وقف ہوتی ہے مگر ان کے کرایے برائے نام ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں سے بیشتر انتظامی کمیٹی کے ارکان کے عزیز و اقارب ان کے فرزند ہوتے ہیں۔ کئی ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں کسی ملگی یا دوکان کا کرایہ 10، 15ہزار مل سکتا ہے مگر مسجد کے تحت انہی ملگی کا کرایہ ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس سے بڑی بددیانتی اور خیانت کیا ہوسکتی ہے! اگر کرایے ایمانداری کے ساتھ مارکٹ ویلیو کے ساتھ ادا کئے جائیں تو آمدنی بڑھ سکتی ہے اور اگر انتظامی کمیٹی کے ارکان چاہیں تو اللہ کے گھر کی خدمت گذاروں کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ مساجد کو چندوں کا جہاں تک تعلق ہے‘ بعض مساجد میں روزانہ اور بعض مساجد میں جمعہ کو چندے جمع کئے جاتے ہیں جو نمازیوں کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اکثر دیکھا جاتا ہیکہ جب چندے کے ڈبے گشت کرتے ہیں تب مصلیان وظائف، اذکار یا دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور چندے کا ڈبہ سامنے سے ہٹتے ہی چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔ گھر گھر سے بھی جو چندے وصول ہوتے ہیں وہ بھی بہت کم ہوتے ہیں اور اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مساجد کے چندہ اکٹھا کرنے والوں کو اپنے دروازے پر دیکھ کر بہت سارے حضرات کے چہرے پر ناگوار تاثرات ابھرتے ہیں۔ اور جب اسی دروازے پر کیبل آپریٹر اپنے ماہانہ فیس وصول کرنے کے لئے آتا ہے تو ان کے باچھیں کھل جاتی ہیں اور وہ نئے چیانلس کے اضافے پر تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسجد سے جب ہمارا رشتہ انجانا ہونے لگا ہے تو بھلا امام اور مؤذن کا خیال کیسے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر علاقہ میں کم از کم ایک دو ایسے صاحب حیثیت مسلمان پیدا کئے ہیں جن کی اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے محلے کی ایک مسجد کے مالی انتظامات کی ذمہ داری قبول کرسکتے ہیں۔ کم از کم ایک امام اور ایک مؤذن کی تنخواہ ادا کرنے کے وہ موقف میں رہتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران مساجد کو شاندار بنانے کی روایت شروع بھی ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ایرکنڈیشنڈ مساجد، لاکھوں روپئے کے جھومر اور فانوس، لاکھوں روپئے کے کارپٹ، غیر معمولی روشنی اور جس کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں اس کی حالت پر کوئی غور نہیں کرتا۔ جو سال کے بارہ مہینے ہر موسم میں آپ کو اللہ کے گھر کی طرف کامیابی کی طرف آواز دے کر بلاتا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ان کے گھر کی حالت کیا ہوگی، ان کے بچے پڑھ رہے ہیں یا نہیں‘ بچیوں کی شادی کی تیاری کیسے ہوتی ہوگی۔ اور کیا کیا مسائل ہیں‘ کبھی اس پر کسی نے سوچا بھی ہے۔ بس ہم اخباری بیانات دے دیتے ہیں کہ امام اور مؤذن کو تنخواہ دینے سے مساجد پر حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ اگر معقول معاوضہ ادا نہ کیا جائے تو یہ لوگ مسائل کا شکار رہیں تو کیا وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھا سکتے ہیں۔ اس موقع پر حضرت مولانا حمیدالدین عاقل حسامیؒ کی یاد آرہی ہے جنہوں نے ائمہ کرام کو معقول معاوضہ ادا نہ کرنے کے حوالے سے کہا تھا کہ ایک بار کسی نے ایک امام صاحب سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیسے مصلیان ہیں، کیسی انتظامی کمیٹی ہے‘ جو آپ کی خدمات کا لحاظ نہیں کرتی‘ آپ کو ضرورت کے مطابق ہدیہ نہیں دیتی۔ جواب میں امام صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ مولانا وہ اگر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں تو ہم بھی کچھ کم نہیں میں نے بھی انتقاماً تمام نمازیں بغیر وضو کے پڑھائی ہے۔ اگرچہ کہ یہ ایک لطیفہ ہے تاہم اس میں مولانا عاقل اور فرضی امام کا کرب بھی جھلکتا ہے۔ حکومت جو بھی معاوضہ دے چاہے وہ اپنے طرف سے دے یا وقف بورڈ کے توسط سے اس سے امام اور موذن کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اسے پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ حکومت جو بھی دے وہ برائے نام ہے۔ ایک عام آدمی کے جو مصارف ہوتے ہیں کم از کم اتنے ہی اخراجات کی ادائیگی مساجد کمیٹی کے ساتھ ساتھ اہلیان محلہ کی ذمہ داری ہے۔ آےئے آج ہی اس پر غور کریں اور عمل کی تیاری بھی۔(یو این این)

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے