اور انہیں خصوصیات کی بناءپر آپ کو امام اعظم کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے۔ اہل علم اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ اسلامی دنیا کی اکثریت فقہی احکام میں امام اعظم کی پیرو ہے۔ امام صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا ان میں سے ایک اہم خصوصیت ان کی تابعیت ہے، یہ وہ خصوصیت ہے جس میں ائمہ مذاہب اربعہ میں امام اعظم ابو حنیفہ ہی یکتا و منفرد ہیں۔
لقرآن:
(1)… اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے(سورہ محمد)
حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایاکہ اس کی قوم اور فرمایاکہ خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔
(2) اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کیلئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے…(الجمعہ)
حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الجمعہ:3کی نسبت سوال کیا گیا تو حضرت سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا (فرمایا) دین ثریا پر جا پہنچے گا تو اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا۔
ابتدائی زندگی:
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لہذاا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔امام اعظم کے آباﺅ اجداد فارسی النسل تھے۔ امام اعظم کے دادا زوطی کابل میں رہائش پذیر تھے۔ کابل اس وقت ملک فارس کا حصہ تھا خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے اور آپ سے بے پناہ محبت وعقیدت کی بنا پر کابل چھوڑ کر کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کوفہ میں حضرت زوطی رحمة اللہ علیہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ثابت رکھا اور برکت کی دعا لینے کی غرض سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔امیر المو منین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ثابت کیلئے دعا برکت فرمائی جس کا اثر یہ ہوا کہ ثابت رحمة اللہ علیہ جوان ہوئے شادی کی تو ان کے ہاں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو اپنے وقت کے مسلمانوں کے بڑے بڑے مذہبی پیشواﺅں کے بھی امام وپیشوا ہوئے اور قرآن وحدیث کے وہ راز نکال کر امت کے سامنے رکھ دیئے جن کو دیکھ کر بڑے بڑے مجتہد امام بھی عش عش کر اٹھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وہ پیشن گوئی بھی پوری ہو گئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہاگر دین ثریا کے پاس ہو گا تو بیشک فارس کا ایک شخص اسے وہاں سے بھی حاصل کر لیگا۔امام ابوحنیفہ نے جونہی اس جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی تو اپنے آپکو اسلامی علوم وفنون کے بہت بڑے مرکز کوفہ شہر میں پایا، جہاں باب مدینة العلم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما ودیگر بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام کے علوم کے حامل شاگردوں کے علوم ومعارف کے سمندر ٹھاٹھیں مار رہے تھے جبکہ آپ نے 20سال کی عمر میں اعلی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
بشارتیں:
صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہاگر دین ثریا کے پاس ہو گا تو بیشک فارس کا ایک شخص اسے وہاں سے بھی حاصل کرلے گا۔محدث کبیر امام احمد ابن حجر مکی شافعی رحمة اللہ علیہ نے الخیرات الحسان میں خاتمة المحدثین علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نےتبییض الصحیفہ میں سند المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے کلمات طیباتمیں اور دیگر بہت سے اکابرین اسلام نے اپنی کتب میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ اس حدیث مبارک میں جس آسمان علم ہستی کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی گئی ہے وہ ہستی امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔اہل حدیثوں کے مسلم بزرگ نواب صدیق حسن بھوپالی نے بھیاتحاف النبلائ میں امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دیا ہے اور اپنی کتابالحطہ فی ذکر الصحاح الستہ میں آپ کوالامام الاعظمکے لقب سے ملقب کرکے آپ کی عظمت وبزرگی کا اعتراف کیاہے۔امام الائمہ، سراج الامہ، امام اعظم، سیدنا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی سیرت یوں ہے کہ آپ 80ھ میں کوفہ شہر میں پیدا ہوئے۔ امام اعظم رحمة اللہ علیہ کے پوتے فقیہ اسمٰعیل رحمة اللہ علیہ کے بیان کے مطابق آپ کا نام نعمان آپ کے والد کا نام ثابت دادا کا فارسی نام زوطی اور اسلامی نام نعمان اور پردادا کا نام مرزبان ہے۔
اسفار:
امام اعظم رحمة اللہ علیہ نے علم حدیث کے حصول کیلئے تین مقامات کا بطورخاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اساتذہ:
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کیلئے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل ہے۔
درس و تدریس:
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کئے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کئے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے۔
فقہ حنفی:
امام اعظم رحمة اللہ علیہ اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں کہ میں سب سے پہلے کسی مسئلہ کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاو 191ں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاو 191ں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاءپر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاة بنا دیا تھا۔ اس لئے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
آئمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی ترتیب ،نام،مکتبہ فکر،پیدائش،وفات،تبصرہ
1 امام ابو حنیفہ اہل سنت 80ھ (699ئ) کوفہ 150ھ (767ء) بغدادفقہ حنفی
2 امام جعفر صادق اہل تشیع83ھ (702ء) مدینہ منورہ 148ھ (765ئ) مدینہ منورہ فقہ جعفریہ
3 امام مالک اہل سنت 93ھ (712 ئ) مدینہ منورہ 179ھ (795ئ) مدینہ منورہ فقہ مالکی ، موطا امام مالک
4 امام شافعی اہل سنت 150ھ (767ئ) غزہ 204ھ (819ئ) فسطاط ،فقہ شافعی
5 امام احمد بن حنبل اہل سنت 164ھ (781ئ) مرو 241ھ (855ئ) بغداد،فقہ حنبلی ، مسند احمد بن حنبل
6 امام بخاری ،اہل سنت ،194ھ (810ئ) بخارہ256ھ (870ئ) سمرقند،صحیح بخاری
7 امام مسلم، اہل سنت 206ھ (821ئ ) نیشاپور 261ھ (875ئ) نیشاپور، صحیح مسلم
مقام فقہ حنفی:
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوری رح ہیں یا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ؟ تو انہوں نے کہا کہ ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ (حدیث میں) افق رحمة اللہ علیہ (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیان (ثوری) رحمة اللہ علیہ تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں۔محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداو 191د فرماتے ہیںکہ146ان ابا حنیفة کان اماما یعنی کہ بے شک ابوحنیفہ رحمہ اللہ (حدیث میں) امام تھے۔جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہیں کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کردیا۔ اور کہا کہ اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں۔امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔
آپ کے شیوخ:
مشہور مو 191رخ ابن خلکان کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ نے علماءتابعین کے علاوہ چار اصحاب رسول حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی، حضرت سہل بن سعد ساعدی، اورحضرت ابوطفیل بن واصلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو پایا لیکن امام علاﺅالدین الحصکفی کی روایت کے مطابق آپ نے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پایا اور 7 یا 8سے درس حدیث بھی لیا۔شارح مشکوٰة علامہ علی قاری رحمة اللہ علیہ نے مرقاة شرح مشکوٰة میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آئمہ اربعہ میں سے صرف امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ تابعی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ملاقات اور شاگردی کا شرف عطا فرمایا۔ اس سے فقہ حنفی کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ دیگر آئمہ نے صرف دلائل شرعیہ سے استفادہ کیا لیکن امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے دلائل شرعیہ کے علاوہ شاگردان رسول صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عملی زندگی سے بھی استفادہ کیا۔امام ابوحنیفہ نے کوفہ بصرہ کے علاوہ حرمین شریفین مصر وشام اور یمن کے بڑے بڑے علماءسے بھی استفادہ کیا۔ شیخ شہاب الدین احمد بن حجرمکی شافعی الخیرات الحسان میں لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے چار ہزار سے زائد شیوخ سے درس حاصل کیا۔ اس سلسلہ میں آپ نے 2 سال تک سند الاتقیاءحضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفادہ کیا اور سب سے زیادہ حضرت امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اٹھارہ سال درس لیتا رہا۔
تلامذہ:
آپ نے ایک لاکھ سے زائد شاگرد چھوڑے جن میں سے چار ہزار مجتہد تھے۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے خود امام ابو حنیفہ سے استفادہ کیا جبکہ امام شافعی، امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداﺅد، امام ابن ماجہ اور امام نسائی یہ سب اصحاب علم وفضل امام ابوحنیفہ کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ کتاب الآثارامام ابوحنیفہ کی حدیث کی تمام مروجہ کتب سے پہلے کی تحریر کردہ کتاب ہے، جسے امام اعظم سے آپکے تیرہ شاگردوں نے روایت کیا اور امام اعظم نے چالیس ہزار احادیث میں سے کتاب الاثار کا انتخاب کیا۔اس کے علاوہ جلیل الشان محدثین نے آپ کی روایات پر مشتمل سترہ مسانید مرتب کی ہیں۔ جن میں سے 15 مسانید محدث وفقیہ امام محمد بن محمود الخوارزمی نےالجامع المسانید لامام الاعظم کے نام سے شائع کی اور یہ کتاب2 ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ نے سب سے پہلے اجتہاد کے اصول وقوانین وضع کئے اور کتاب وسنت سے لاکھوں مسائل استنباط کر کے انہیں مدون ومرتب کیا اور علم شریعت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا۔
امام ابن حجر مکی شافعی الخیرات الحسان صفحہ نمبر 28 پر آپکی اس فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں کہ امام ابوحنیفہ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم فقہ کو مدون کیا اور اسے ابواب اور کتب کی موجودہ ترتیب پر مرتب کیا اور امام مالک نے اپنی کتاب مو 191طا مالک میں آپ ہی کی پیروی کی وگرنہ آپ (امام ابوحنیفہ) سے پہلے لوگ (صحابہ وتابعین) اپنے حافظہ پر اعتماد کرتے تھے۔امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص فقہ (مسائل عملیہ)کو جاننا چاہے تو وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو لازم پکڑے کیونکہ سب کے سب لوگ فقہ میں ان کے محتاج ہیں۔ امام سفیان ثوری نے محمد بن بشر سے پوچھاکہ آپ اس وقت کہاں سے آئے ہیں؟ تو انہوں نے کہاکہ امام ابوحنیفہ کے پاس سے۔ تو امام ثوری نے فرمایاکہ آپ ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں جو روئے زمین پر سب سے بڑا فقیہ ہے۔145 حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ146میری آنکھ نے امام ابوحنیفہ کی مثل نہیں دیکھا۔
معاصر علماء:
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة اللہ علیہ کے استاد امام مکی بن ابراہیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیںکہامام ابوحنیفہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے استاد امام وکیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیںکہمیں نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں پایا۔امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے شیوخ میں سے شیخ الاسلام یزید بن ہارون رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے معاصر علماءمیں سے جسے بھی پایا اسے یہی کہتے سنا کہ اس نے امام ابوحنیفہ سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔ امام المحدثین یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیںکہ اللہ کی قسم امام ابوحنیفہ اس امت میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو کچھ وارد ہوا اس کے سب سے بڑے عالم ہیں۔حافظ محمد دین یوسف دمشقی اپنی تصنیف عقود الجمان145میںفرماتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ حدیث کے اکابر اور افضل حفاظ میں سے تھے۔امام عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگر میں امام ابوحنیفہ کا شاگرد نہ بنتا تو عام لوگوں کی طرح جاہل رہتا۔امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام تعریف اس اللہ کیلئے جس نے امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ (امام اعظم کے شاگرد) کے ذریعہ میری علم فقہ کے حصول کیلئے مدد فرمائی۔ علم وفقہ کے ساتھ امام اعظم ابوحنیفہ کا عبادت وریاضت اور زہد وتقویٰ میں مقام نہایت بلند تھا۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے 45 برس عشاءکے وضو سے نماز فجر ادا فرمائی اور پچپن حج کئے۔ قاضی بغداد حضرت حسین بن عمارہ رحمة اللہ علیہ جب امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو غسل دے رہے تھے تو فرمایاکہاللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ آپ تیس سال سے روزہ دار ہیں اور 40سال سے شب بیدار ہیں۔
احتیاط اورتقوی:
شارح مشکوٰة ملا علی القاری فرماتے ہیں کہ امام اعظم امام ابوحنیفہ روزانہ رات کو دو رکعت میں مکمل قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ اور فرماتے ہیں امام اعظم ابوحنیفہ کو 100بار خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا۔ آپ روزانہ رات کو پورے قرآن کی تلاوت فرماتے لیکن رمضان المبارک میں61 قرآن تلاوت فرماتے۔ ایک دن کو ایک رات کو اور ایک نماز تراویح میں۔ آپ اس قدر متقی پرہیزگار تھے کہ ایک دفعہ کوفہ میں کسی کی بکری گم ہو گئی۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بکری کی عمر سات برس ہوتی ہے تو امام اعظم امام ابوحنیفہ نے 7 برس تک کوفہ کے بازار سے گوشت خریدنا چھوڑ دیا۔ ایک بار آپ کے شاگرد نے30 ہزار کا کپڑا فروخت کیا اور خریدار کو ایک تھان میں عیب بتانا بھول گئے تو امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے خریدار کو تلاش کرنے کا حکم دیا جب تلاش بسیار کے باوجود خریدار نہ ملا تو آپ نے ساری رقم خیرات کر دی۔
قاضی القضاة سے اجتناب:
ایک مرتبہ جنازہ کیلئے تشریف لائے نمازجنازہ میں تاخیر تھی تو دھوپ میں انتظار کرتے رہے۔ لوگوں نے آپ کو ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھنے کیلئے کہا تو آپنے انکار فرمایا بعد میں پتہ چلا کہ اس مکان کا مالک امام اعظم کا مقروض تھا اور امام اعظم اپنے مقروض کی دیوار کے سایہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔آپ کامیاب تاجر تھے اور بے پناہ صدقہ وخیرات کرتے تھے اور خصوصی طور پر اہل علم کی خواہش پوری کرنے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جب بھی اپنے لئے لباس تیار کرواتے تو ایسا ہی لباس کسی ایک عالم دین کیلئے تیار کرواتے اور جب بھی اپنے گھر کیلئے کھانے کا سامان خریدتے تو اس کی مثل صدقہ کرتے اور جب بھی آپ کھانا کھاتے تو کھانے کی مقدار کی دومثل صدقہ فرماتے تھے۔بنو امیہ کی حکومت کے آخری دور میں امام اعظم امام ابوحنیفہ کو قاضی القضاة کا عہدہ پیش کیا گیا جسے قبول کرنے سے آپ نے انکار کر دیا۔ جس پر گورنر کوفہ آپ کو 10 روز دس دس کوڑے روزانہ مرواتا رہا لیکن آپ اپنے مو 191قف پر ڈٹے رہے۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ ابو جعفر منصور نے دوبارہ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو قاضی القضاة کا عہدہ پیش کیا جسے آپ نے قبول نہ کیا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ حکومت اپنی مرضی کے مطابق غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرے گی جس پر حاکم بغداد سخت برہم ہوا اور امام اعظم کو عمرقید کی سزا دے دی اور جیل میں محبوس کر دیا مگر امام اعظم رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے جیل میں بھی عبادت وریاضت اور علوم دینیہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
دنیا کی زینت رخصت:
آپ نے جیل میں 7 ہزار بار قرآن پاک کی تلاوت فرمائی۔ اور امام شافعی کے سوتیلے باپ اور استاد حضرت امام محمد بن حسن شیبانی کو جیل ہی میں تفسیروحدیث اور فقہ کی مکمل تعلیم دی۔ مگر ظالم حکومت یہ بھی برداشت نہ کر سکی بالآخر آپ کو سخت قسم کا زہر پلا دیا گیا جس کے نتیجہ میں علم وفضل کا یہ آفتاب رجب المرجب 150ھ کو بغداد کی جیل میں غروب ہو گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ دنیا کی زینت 150ھ میں اٹھالی جائیگی145 امام احمد بن حجرمکی شافعی رحمة اللہ علیہ الخیرات الحسان میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارک میں امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی طرف اشارہ ہے جبکہ آپ اپنے علم وفضل اور پاکیزہ سیرت کی وجہ سے دنیا کی زینت تھے۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو 50ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو 6 بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔آپ کی نمازجنازہ میں لاکھوں خواص وعوام نے شرکت کی اور آپ کو بغداد شہر کے خیزران نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کااظہار کیا۔ابن جریح مکہ میں تھے۔ سن کر فرمایا کہ بہت بڑا عالم جاتا رہا۔ شعبہ بن المجاج نے کہا کہ کوفہ میں اندھیرا ہوگیا۔عبداللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہاکہ افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا۔سلطان الپ ارسلان نے ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔حضرت علامہ علی قاری رحمة اللہ علیہ مرقاة شرح مشکوٰة میں فرماتے ہیں کہ آپکی قبر بغداد شریف میں ہے۔ جس کی زیارت کی جاتی ہے اور جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبردعاءکی قبولیت کیلئے تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر کے ذریعے برکت حاصل کرتا ہوں اور جب مجھے کوئی حاجت درپیش آتی ہے تو میں آپ کی قبر کے پاس دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کیلئے سوال کرتا ہوں تو بہت جلد میری حاجت پوری ہو جاتی ہے۔ جبکہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ نےکشف المحجوب میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمال درجہ تعریف وتوصیف کرتے کے بعد آپ کے بارے میں مبشرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ میں ملک شام میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب بنو شیبہ سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور آپ کی گود میں ایک بوڑھا شخص ہے، میں تعظیماً کھڑا ہو گیا اور قدم بوسی کی، فرماتے ہیں میں۔ حیران تھا کہ بوڑھے شخص کون ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے دل کی حیرانی معلوم فرمائی اورکہا کہ یہ تیرا اور تیرے اہل وطن کا امام ابوحنیفہ ہے۔
عظمت ابوحنیفہ:
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے2نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ایک دفعہ حضرت امام اعظم رحمة اللہ علیہ اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہوگیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبداللہ رحمة اللہ علیہ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایاکہ پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایاکہ اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔امام صاحب میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہءامتیاز تھا۔
جواب دیں