از: سفیان قاضی مدني
(فلم انڈسٹری، کرسچن مشنریاں، سیکولر پارٹیاں)
الحاد اپنے مفہوم میں مذاہب، ادیان، ربوبیت، نبوت ورسالت، جزاء وسزا کے انکار کا نام ہے، اس انکار کے لئے لا مذہب ہونا ضروری نہیں، انسان کسی بھی مذہب کی پیروی کرتے ہوئے بھی ملحد ہو سکتا ہے اور ملک وقوم کے حالات وکوائف کے تناظر میں اس کی شکلیں بھی مختلف ہوسکتی ہے، موجودہ صدی فلم انڈسٹری اور آرٹفشل انٹیلی جنس(5G) کے تعارف کی صدی ہے، جس کی خوابدیدگی کے لئے الحاد کا پہیلنا اور دہریت کا عام ہونا انتہائی ناگزیر ہے، الحاد کا بڑھتا ہوا عروج معاشرہ کا ناسور بنتا جارہا ہے، الحادی نظریات کے اثرات ہر ملک وقوم میں تیزی سے سرایت کرتے جارہے ہیں، کارٹون، فلم، نصاب تعلیم، عالمی نظام سیاست، سیکولرزم، کمیونزم، ڈیمو کریسی سبھی اس کی زد میں ہیں، آخر اس کے بنیادی محرکات کیا ہوسکتے ہیں، مختصرا جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
فلم انڈسٹری:
فلم انڈسٹری اس دور کا سب سے وسیع نظریاتی سمندر ہے، سارے معاشی وسیاسی، دینی مدوجزر اسی پردہ کے ذریعہ ہمارے دماغی پردوں کی برین واشنگ کرتے ہیں، یوں تو اس فیلڈ سے سارے ہی مذاہب خطرے میں ہیں، تاہم وہ دین سب سے زیادہ خطرہ کا شکار ہے جو انسانیت کا سب سے بڑا حامی ہے، یوں تو اسلام کو ہر دور میں مختلف فتنوں اور چلنجز کا سامنا رہا ہے، مگر اس دین کے قواعد واصول اس قدر مستحکم اور عقل و فطرت کے موافق ہیں کہ اگر اس کی صحیح اور سچی تعلیمات لوگوں تک پہونچائی جائے تو انہیں اس کی حقانیت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے، فلم انڈسٹری میں الحادی افکار اور ان کے حربوں کی ایک طویل فہرست ہے، رب کے انکار کے نت نئے تخیلات اس پلیٹ فارم سے سکھائے جاتے ہیں۔ فلموں کا اصل محور عاشق ومعشوق کی محبتوں تک محدود نھیں ہے بلکہ کفر والحاد، کرپشن و فساد، چوری وڈکیتی، زنا و فحاشی کے نت نئے طریقے جو انسان کے تصور وخیال سے پرے ہوں سب اسی انڈسٹری کی کارستانیاں ہیں، نبوت ورسالت، معاد و آخرت کے تصور کو یہاں کوئی جگہ نھیں ہے، اس نومولود الحادی تھذیب نے پوری شدت کے ساتھ ہر مذہب ودھرم کو اپنی آڑ میں لے لیا ہے، مگر بد قسمتی سے ہم بحثیت مجموعی اس فتنہ سے نبرد آزماں ہونے کے بجائے اس کے دلدادہ ہیں، اس گٹھیا انڈسٹری کی حقیقت کو منظر عام پر لانے کے بجائے ہم فیس بک و یوٹیوب پر لاکھوں ناظرین وشائقین کی فہرست میں اپنا ووٹ بھی ڈالتے ہیں، جبکہ دینی پوسٹ اور ویڈیو کو 10 لائک بھی دستیاب نھیں ہوتے۔
کرسچن مذہب:
بات یہاں یہودیت سے بھی شروع کی جاسکتی تھی، تاہم یہ نقطہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاھئے کہ موجودہ نصرانیت کی بنیاد دین مسیح کو پھیلانا ہرگز نھیں، بلکہ یہودیت کے مقاصد کی تکمیل، آمریت، دجال کی آمد کے لئے راہ ہموار کرنا، الحادی ذہن بنانا اس کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے، شاید اس نقطہ سے بعض اہل علم کو اختلاف ہو، تاہم حقیقت یہی ہیکہ موجودہ نصرانیت کی بنیاد یہود نوازی پر ہے۔ الحادی سوچ کے فروغ میں یہودیت نما نصرانی مشنریاں اور ان کی بغاوت میں اترنے والے یورپی مفکرین کا بہت بڑا رول ہے، سولہویں صدی کے بعد جب مذہب اور حقائق کائنات پر غور فکر کی لڑائی شروع ہوئی تو کرسچن مذہبی ملاوں نے ہر سائنسی تحقیق کو اس قدر حقارت اور مذہب کی مخالفت کے تناظر میں دیکھا کہ لوگ مذہب کے نام سے بیزار آنے لگے، پاپ، ارشمنڈٹ اور ارباب کلیسا کی بد اخلاقی، مذہبی اجارہ داری، عیش پسندی نے مذہب کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا، تحقیقی ذہن رکھنے والے مفکرین کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی آپسی رسہ کشی سے بیزار آچکے تھے،
جس وقت سائنسداں شمس وقمر کی اونچائیوں تک پہونچنے کا خواب دیکھ رہے تھے ارباب کلیسا ان کی تکفیر و تذلیل کے درپے مہم چلاتے،عیسائیت کے فرقہ وارانہ رسہ کشی سے مسیحیت کو تو کچھ فائدہ نہیں ہوا، البتہ الحادی نظریات میں روانی ضرور آئی، بلکہ نصرانی پوپ کے پاپوں نے مذہب بیزاری کے بیج کو اس قدر فروغ دیا کہ سیکولرزم اور کمیونزم کے تنا آور درخت کو پھلنے اور پھولنے میں کھلی فضا دستیاب ہوگئی، گیلیلو کا نظریہ دوران ارضی، نیوٹن کا قانون جاذبیت، اور مارٹن لوتھر کی دینی واصلاحی تحریک کے مد مقابل کیتھولک مذہبی داداگیری اس کی چند مثالیں ہیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی کا یہ زمانہ الحادی سوچ کے فروغ میں انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، کلیسا اپنے مخالفین کو کڑی سے کڑی سزا دینے لگا تھا، جان وینی، گیلیلو، کوپر نیکس، برونو جیسے سائنسی مفکرین کو عبرتناک سزائیں دی گئیں، ایسی صورت حال میں علمی وتفکیری سوچ رکھنے والے مذہب کے بجائے لا مذہبیت کی طرف راغب ہونے لگے، اور یہ خودساختہ نظریہ جنم لینے لگا کہ مذہب اور سائنس آپس میں متصادم ہیں، لہذا اب کائنات میں غور وفکر، سورج چاند ستاروں کی حقیقت، انسانیت کا وجود، تلاش معبود حقیقی، جیسے فطری موضوعات اس تصادم میں ظلم کا شکار ہوگئے، حالانکہ یہ وہ آسان ترین مقدمات و مضامین ہیں جو قرآن کا صلب موضوع ہیں، اور رب باری تعالی نے ربوبیت کے انھیں مظاہر کے ذریعہ معبود حقیقی تک پہنچنے کی راہ ہموار کی ہے۔
افسوس کہ بنو امیہ وبنو عباس، اور ایوبیہ کے دور حکومت میں غرناطہ وبغداد میں علم وحکمت کی شمع روشن کرنے والے حکمراں اس عہد کو دستیاب نہ ہوسکے، مغرب سے مرعوبیت، پیر وطریقت کی بھر مار نے سائنسی ایجادات دینے والی مسلم قوم کو قعر مذلت تک پہنچا دیا، جبکہ اموی وعباسی حکومتوں میں علماء ومفکرین کو بغداد سے اندلس تک وہی حیثیت حاصل تھی جو آج اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر یورپ وامریکہ میں بسنے والے متنورین کو حاصل ہے، بہر حال عیسائیت کی خودساختہ مذہبی بنیادیں الحاد کا اہم ترین مرکز ہیں، موجودہ عیسائیت کی بنیاد دہریت اور الحاد پر ہے۔نہ کہ انجیل اور مسیح پر۔
سیکولرزم:
در اصل سیکولرزم مغرب کی مذہب دشمنی کا شاخسانہ ہے، مغربی معاشرہ نے صدیوں کی کشمکش کے بعد اسے اختیار کیا ہے، جس کا آغاز و انجام مادی وحسی ضرورتوں کا حصول ہے، خواں بظاہر انسان مذہب پر ہو یا نہ ہو، یہ محض ایک اصطلاح نہیں بلکہ مغربی فلسفیوں اور ماہرین عمرانیات کی سوچ و فکر سے بنا ایک الحادی نظام ہے جو مذہب کو انفرادی اختیار (choice) اور اقتصاد، سیاست، عمرانیات، حکومت کو اجتماعی ضرورت کے طور پر پیش کرتا ہے، پھر اجتماعی نظام کے حصول کے لئے خواں انسان دین سے بغاوت مول لے یا بظاہر مذہب کے نام پر سیاست کرے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت اس ظالمانہ نظام میں ہر غیر ممکن کا امکان موجود ہے، اور یہ عمل دین کے نظریاتی اساس سے متنفر کئے بغیر ممکن نہیں، یہ نظام مذہب کو ہر قسم کی دھشت گردی، زوال، اور سماجی مسائل کے پنپنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اور اپنے چیچک زدہ چھرے کو ہر مرض کا علاج ثابت کرتا ہے، نتیجتا لوگ مذہب سے متنفر ہونے لگتے ہیں اور انہیں اپنے سارے مسائل کا حل سیکولر یعنی ملحد بننے میں نظر آتا ہے،نظریاتی محاذ پر نہ صرف اسلام، بلکہ ہر مذہب کی بنیادوں کو اس فکر و سوچ سے خطرہ ہے۔ سیکولر طبقہ کتنی ہی مذہب کی ہمنوائی کرے، مشاہدات ووقائع نے ثابت کردیا ہیکہ سیکولرزم کا فروغ مذہب کی سب سے بڑی شکست ہے۔
ان تین بنیادی اسباب کے علاوہ الحادی محرکات کی ایک طویل فہرست ہے جس کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔
بہر حال، الحادی سوچ اب گھر گھر داخل ہوچکی ہے، آخرت، جنت،جھنم، جزاء وسزا، دیدار رب ذو الجلال یہ سب موضوع اب ثانوی درجہ کے تصور کئے جانے لگے ہیں، مذہبی رہنماوں کے منفی کردار، مذہب کی غیر معقول تعبیر وتشریح نے اس پر مزید نمک چھڑکا ہے، اہل اسلام کی سب سے اول ترین ذمہ داری یہ ہیکہ ہر کوئی اپنی فیلڈ میں مذہب کی درست تفہیم وتشریح پیش کرنے کی کوشش کرے، اچھے اور باکردار بچوں کو دینی مدارس میں تعلیم دلائیں جو علم وفکر کی وادیوں میں اتر کر موجودہ دہریت کا جواب دینے کے قابل بنیں۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
جواب دیں