پے درپے ایسے بیانات سے ان کا منشا کیا ہے اور بی جے پی ہمیشہ ان کے بیان کو ذاتی کہہ کر کیوں ٹال دیتی ہے، اپنے آپ میں یہ سب بڑے سوال ہیں؟اوباما کی نصیحت پر ہوش کے ناخن لینے کے بعد وزیراعظم مودی نے ایک طرف جہاں مذہبی تشدد کم کرنے کی وکالت کی ، وہیں اُن کے محبو ب اور چہیتے لیڈربے تکے بیان کی ریس میں بازی لے جانے میں مصروف ہیں ۔کبھی مسجد تو کبھی گرجا گھر کے ایشوز پر ہنگامہ بپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سبرامنیم سوامی نے گوہاٹی میں انہدام مسجداورعبادت گاہوں کے متعلق جو بیان دیا ہے، وہ فرقہ پرستی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل طورپر کم علمی اور حالات سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔کیوں کہ انھوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں ، ان کاثبوت نہیں ملتا یا پھر ایسے معاملات ہیں بھی تو یہ نظیر اور مثال بننے قابل ہی نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ مسجد اور چرچ عبادت گاہ نہیں ہیں ،جب چاہیں اسے منہدم کردیں۔ مسجد کے عبادت گاہ نہ ہونے کا راگ الاپنے میں شاید انھوں نے سپریم کورٹ کے اس قول کا سہارا لیا ہے ، جسے1994میں بابری مسجد معاملے میں کہا تھا کہ مسجد مذہب اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں گرجا گھروں کی خرید وفروخت ہوتی ہے، اس لیے گرجا گھر عبادت گاہ نہیں ہے۔ اسی طرح انھوں نے راستے میں آنے والی مسجدوں کے انہدام کے متعلق سعودی عرب کے معاملے کو بھی اچھالا ہے ۔ گرجا گھر کے مذہبی تقدس اور اس کی ابدیت سے قطع نظر مساجد کے پس منظر میں سوامی کے بیان کو کئی پہلو سے دیکھا جاسکتا ہے ۔
پہلی بات یہ کہ اسلام کی نگاہ میں مساجد کی کیا اہمیت ہے ، اس سے قطعاً انھیں کوئی واقفیت نہیں ، چنانچہ انھیں یہ حق نہیں پہنچتاکہ مساجد کے عبادت گاہ ہونے یا نہ ہونے کافیصلے کرنے لگ جائیں ۔ ہوسکتا کہ ان کی نگاہ میں مساجد عبادت گاہ نہ ہوں، نہ ہی سہی ،مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں مساجد کی بالکل وہی اہمیت ہو، جو ان کے نزدیک ہے ۔اس لیے انھیں اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے جمہوری ملک میں ایک طبقہ کی دلآزادی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ انھیں جمہوریت پسند اور صاحب کیسے عقل کہا جاسکتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی قانون میں جائز طریقے سے ایک جگہ مسجد قائم کردینے سے تاصبح قیامت وہاں مسجد ہوتی ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں معمولی معمولی چیزوں کو مسئلہ بناکر شہادت مسجد کا معاملہ اچھالنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ اس لیے خالص مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت کیسے مل سکتی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ سعودی میں کب راستہ کی کسی مسجد کے انہدام کا مسئلہ پیش آیا ؟اگر کبھی شدید ضرورت کے تحت کوئی ایسا واقعہ پیش آیا بھی ہو تو یہ دیکھنا پڑے گاکہ حالات کیسے تھے ؟ عوام کے فلاحی مسئلہ کے حل کی صورت کے لیے یہ ناگریز قدم اٹھایا گیا ہوگا ۔ ا س اقدام میںیہ مسئلہ قطعاً نہیں ر ہا ہوگا کہ مسجد عبادت گاہ نہیں ہے یا اسلامی نظام میں مسجد کی کوئی اہمیت نہیں۔ا سی طرح وہاں نہ ہندوستانی فرقہ پرستی کا کوئی معاملہ ہے ۔لہذا فقط وہاں کے حالات کی نظیر پیش کرنا کافی نہیں ، بلکہ مکمل صورتحال سے با خبری بھی ضروری ہے۔ بغیر تفصیلی وضاحت کے شہادتِ مسجد کو سعودی سے جوڑکر سبرامنیم نے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی دلآزاری اور درپردہ کسی منظم مہم کی شروعات کی ہے ، بلکہ اسلامی ملک کو نشانہ بناکر اسلامی قوانین کا تمسخر بھی اڑایا ہے۔ ساتھ ہی دبے لفظوں میں اسلامی قانون کے لچک کو کسی بڑے مسئلہ کے پیش خیمہ کے طو رپر استعمال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی منفی رویوں کے پوجاریوں کی نگاہ اپ فقط ہندوستانی مسلمانوں پر ہی نہیں، بلکہ عالم اسلام کی شبیہ مسخ کرنے پر بھی مرکوز ہوگئی ہے۔اس لیے ان مسلم قائدین سے گذارش کی ہی جاسکتی ہے ( جودینی حمیت میں اکثر اصولی مسئلہ کو فراموش کرجاتے ہیں )کہ ایسے بے سروپابیان والے دینے والوں سے معافی تلافی کرکے ہی خاموش نہ ہوجائیں ، بلکہ جن حقائق کو نظیر بناکر پیش کیا گیا ہے ، انھیں منظر عام پر لانے کا دباؤبنایا جائے ۔اس لیے دینی حمیت کاثبوت دیتے ہوئے سوامی سے اس کی وضاحت کروائیں کہ کب سعودی میں ایسا معاملہ پیش آیا اور کن صورتوں میں؟ کن ذرائع سے انھیں یہ خبر ملی ؟ کیوں کہ اسلامی دنیا سے متعلق بے بنیاد نظیر پیش کرکے ہندوستان میں منظم طریقہ سے اسلام کے خلاف درپردہ مہم سازی کی جا رہی ہے ۔فقط معافی تلافی پر قناعت کرنے سے بے تکے بیان کا سلسلہ دراز ہوتا جائے گا اور مقدسات کی بے حرمتی کابھی ۔ یعنی کسی مسجد کو بلاوجہ منہدم کردیا جائے گا، تفتیش کے بعد مسجد کا حق ثابت ہوتے ہی حکومت معافی تلافی کرکے ہمارے شہرت پسند لیڈران کی امامت میں اسی جگہ نماز پڑھنے کی اجازت دے دے گی ، جیسا کہ کانگریسی حکومت میں دہلی سمیت ملک کے کئی مقامات پر ایسے واقعات پیش آئے ۔اس صورت میں سوال جوں کا توں رہ جاتا ہے کہ مقدسات کی پامالی کی سزا کہاں کسی کو مل پائی ؟ جمہوری نظام کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کہاں ہوئی؟۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اگر 1994میں سپریم کورٹ نے اسلامی عبادت کے لیے مسجد کو ضروری نہیں قراردیا ہے تو کیا مسلمانوں نے بھی قیام مساجد کو اسلامی نظام سے الگ تصور کرلیا یا پھر دباؤ میں آکر مسلمانوں کے کچھ قبول کرنے سے یہ لازم تو نہیں آتا کہ اسلام کا قانون بدل گیا یا بدل جائے گا۔یا پھر سعودی حکومت مشکل ترین صورت میں کوئی ایسا فیصلہ لے ہی لے کہ مسجد شہید کردی گئی تو یہ لازم کہاں آتاہے کہ مسجد عبادت گاہ ہے ہی ؟ لہذاکیسے کوئی اپنے قول کی تائید کے لیے سیرپم کورٹ کے ایسے فیصلے اور سعودی حکومت کے قدم کو نظیر /مثال کے طور پر پیش کر سکتا ہے ۔ کورٹ کے بہت سے فیصلے اسلامی تعلیمات سے معترض ہیں ، توکیا کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلامی احکامات کو نافذ نہیں کیا جائے گا؟یہاں،قطعاً یہ مقصود نہیں کہ عدلیہ کے تمام تر فیصلوں پر سوالیہ نشان لگایا جائے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ سبرامنیم سوامی نے سعودی/پاکستان میں پیش آئے مسجد کے ایک معاملہ کو نظیر اور دلیل کے طو پر تو پیش کردیا ، تاہم سوال یہ ہے کہ جرائم کے روک تھام کے لیے وہاں بہت سے مفید طریقے اپنائے جاتے ہیں ، کیاانھیں ہندوستان میں اپنانے کی انھوں نے کبھی وکالت کی ہے؟ جنسی تشدد کے متعلق اسلامی ممالک میں نافذ ہونے والے قانون ہندوستان میں بھی مفید ہوسکتے ہیں ، شاید انھوں نے اس پس منظر میں غور وفکر کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ؟
چھٹی اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ سوامی اوران کے ہم خیال لیڈر اسلامی ممالک کی نظیر پیش کرکرکے برادران وطن کے دلوں میں شاید یہ بٹھانا چاہتے ہیں کہ جب اسلامی ممالک میں مسائلِ مساجد کے متعلق اتنی نرمی ہے تو ہندوستانی مسلمان کیوں متشدد نظر آتے ہیں ؟رام مندر کا خواب وہ کیوں شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیتے ؟ جب مسجد کے مسائل میں نرمی ہے توبابری مسجد کی زمین تین فرقوں میں تقسیم ہونے سے مسلمان کیوں ناراض ہیں؟ یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اس طرح کے بیان میں میں جہاں فرقہ پرست عناصروں کو مضبوط کرنے کی کوشش پوشیدہ ہے ، وہیں بھولے بھالے برادران وطن کے دلوں میں تشدد پسندی کا زہر گھولنے کی مہم بھی۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے کبھی عدالتی فیصلے تو کبھی اسلامی ممالک کی نظیر پیش کی جارہی ہے ۔اس لیے یہ کہنا بجاہے کہ ایسے فرقہ پرستوں کی نگاہیں کہیں اور ہوتی ہیں اور نشانہ کہیں اور، ساتھ ہی ساتھ آسام میں سیاسی بساط بچھنے لگی ہے تو لامحالہ یوپی کی طرح ہی حالات خراب کرنے کے لیے بی جے پی ایسے لیڈروں کا سہارا لے گی ہی ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ ان کے بیان کو ذاتی کہہ کر ہلکا بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ سوامی جیسے بے سرو پا بیان دینے والوں سے حقائق کی وضاحت کروائیں۔ مثالوں اور نظیروں کے پیچھے کے حقائق کو سامنے لانے پر انھیں مجبور کریں۔ اس کے بعد ہی ان سے معافی تلافی کا معاملہ بہتر ہو گا ، فقط ’معافی‘ کے بول کا محتاج ہونا کسی مسئلہ حل نہیں ہے ۔
جواب دیں