ہندوستانی میڈیا کی مسلمان اہمیت سمجھیں اور اس کے رابطہ میں آئیں

یہی وجہ ہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ریڈیو ہو یا کمپیوٹر نیٹ ورک،ان کے وسیلہ سے خبررسانی، اطلاعات کی فراہمی، واقعات کی سرگزشت یا سیاست دانوں کی بے اعتدالی کا مناسب تجزیہ نہیں ہوتا، اس کے بجائے واقعہ کی غیر حقیقی تفصیل، مبالغہ آمیز کہانی، بے بنیاد خبریں اور غیر منطقی تبصرے پیش کئے جاتے ہیں، خواہ سماج میں اس سے کتنی ہی کشیدگی اور اتھل پتھل کیوں نہ پیدا ہوجائے۔ 
مثال کے طور پر پہلے میڈیا نے اپنے لئے بعض حدود (لکشمن ریکھا) متعین کررکھی تھیں، ایک اصول یہ تھا کہ فرقہ وارانہ فساد کی خبریں فراہم کرنے میں یہ نہ بتایا جائے کہ اس میں کس فرقہ کے لوگ مارے گئے یا قتل وغارتگری کے مرتکب کون ہوئے، یہ احتیاط اس لئے برتی جاتی تھی کہ ہندوستانی معاشرہ اس بارے میں کافی حساس ہے اور ایسی خبریں دوسرے مقامات کا ماحول بگاڑ سکتی ہیں، لیکن گجرات کے معاملہ میں دنیا نے مشاہدہ کیا کہ گودھرا کی آتشزدگی کی خبریں نشر کرنے میں اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو ایک ناکردہ گناہ کی پاداش میں ، مسلمانوں کو غارتگری کا نشانہ بننا پڑا۔ اسی طرح اخباری بیانوں اور پریس کانفرنسوں میں میڈیا کے ذمہ دار ان حدود کا خیال نہیں رکھتے، جو ضروری ہیں، آزاد ی اظہار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کچھ بھی کہنے کیلئے آزاد ہیں، میڈیا کے جن قیود کا یہاں حوالہ دیا گیا، ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں اس کی پیروی مفید ہو کیونکہ کئی امور میں کشیدگی پوری خبر نہ دینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس کی مثال بھی گجرات ہے، یہاں مسلمانوں پر جو شدید مصائب توڑے گئے، اس کا الیکٹرانک میڈیا نے کھل کر اور نام لے کر ذکر کیا ،پھر بھی اس کی وجہ سے ملک کے کسی حصہ میں کشیدگی پیدا نہیں ہوئی، لہذا میڈیا کے حدود وقیود سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میڈیا میں سرگرم عمل عناصر میں احساس ذمہ داری پیدا ہو، وہ ۱۹۸۴ء کی طرح اندرا گاندھی کو قتل کرنے کے ملزم سکھوں کے نام اور شناخت بتاکر سکھوں کے قتل وغارتگری کو ہوا نہ دیں اور کبھی ضرورت پیش آئے تو ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی طرح گاندھی جی کے قاتل گوپال گوڈسے کا نام ومذہب ظاہر کرکے وہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے خدشہ کا سدباب کردیں، یعنی اصل ضرورت صورت حال کو سمجھنے اور اس میں احساس ذمہ داری کے مظاہرے کی ہے۔ 
افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج میڈیا میں کام کرنے والوں سے یہ خصوصیات رخصت ہورہی ہیں اور اس کے بجائے الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا وہ اپنے مواد اور پیش کش کے ذریعہ جوکچھ فراہم کررہا ہے، سماج کی تعمیر سے زیادہ تخریب کا باعث بن رہا ہے، آج کے تناظر میں میڈیا کو لگام دینا یا سرکاری کنٹرول میں لینا بھی آسان نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں گلوبل ولیج کے تصور کو عام کرکے گلوبلائزیشن کے عمل کو مسلط کرنے کی سرگرمی کافی بڑھ گئی ہے، اس لئے میڈیا پر حکومت کا یا خود اپنا کنٹرول قائم کرنے کے بجائے غوروفکر کے دھارے کو بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ کام حکومت سے زیادہ موثر طور پر عوام انجام دے سکتے ہیں نیز مسلمان بھی اس میں اہم رول نبھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے بنیادی شرط ہے کہ میڈیا کی طاقت کو وہ سمجھیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ دنیا میں عزت وقار کے ساتھ زندگی گزار نے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اصول ونظریات سے دوسرے لوگ بھی واقف ہوں، یہ کام منصوبہ بند طریقہ پر شروع کیا جائے، جس کے لئے ذمہ داروں پر تنقید کے تیر برسانے کی ضرورت نہیں بلکہ جس نظام یا طریقہ کار کو وہ قوم ملت کے لئے مضر سمجھتے ہیں اس کے مقابل دینے کے لئے ان کے پاس کیا ہے یہ بھی پیش نظر رکھیں۔
آج مسلمان شاکی ہیں کہ وطن عزیز سے لے کر عالمی سطح تک ان کی شبیہ بگاڑنے کا کام ہورہا ہے، کبھی شیطان نما انسان رشدی ’ شیطانی آیات‘ لکھ دیتا ہے ، کبھی امریکی فوجی کیمپ میں صحیفہ آسمانی ’قرآن حکیم‘ کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کبھی پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکوں کے ذریعہ مسلمانوں کا دل چھلنی کر دیا جاتا ہے، مذہب اسلام کو جارح اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی مسابقت تو پوری دنیا میں جاری ہے، بعض ممالک میں اسلامی شناخت کے ساتھ مسلمانوں کا چلنا پھرنا دشوار ہوگیا ہے، ایسے انسانیت سوز واقعات کا مقابلہ کرنا دن بدن مشکل ہورہا ہے، مسلمانوں کا اثر ورسوخ اتنا نہیں کہ وہ اس یلغار کو روک سکیں یا دنیا کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرسکیں، جنہیں یہ کام کرنا چاہئے وہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں، اسی لئے قومی میڈیا پورے مسلم فرقہ کو نظر انداز کررہا ہے، اسے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تین طلاقیں نظر آتا ہے، گڑیا یا عمرانہ کی حق تلفی تو محسوس ہوجاتی ہے، لیکن رادھا وسیتا کی سوختہ لاشیں دکھائی نہیں دیتیں، اس صورت حال میں مسلم مفادات کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے کہ جب میڈیا سے قربت پیدا کی جائے، ہمارے صالح ذہن نوجوان میڈیا میں خود داخل ہوں، ان کی تعلیم و تربیت کرکے میڈیا کے لائق بنانے کا ملت کے بہی خواہ اپنے وسائل سے انتظام کریں ، صحافت خواہ سمعی ہو یا بصری (پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا) ہمارے نوجوان بطور کیریئر اس کو اپنائیں، جہاں مسلمانوں سے ناانصافی ہو، غلط بیانی ومبالغہ آرائی سے کام لیا جائے، اس کی بروقت تردید و تشریح کا ہمارے دانشوروں کے دل میں جذبہ پایا جائے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھڑک جانے کے بجائے، کسی بھی لو دینے والی صور ت حال میں دلیل وشائستگی کا دامن نہ چھوڑیں، ایسے ماحول میں جب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہو، محض لفاظی سے اس کا مقابلہ کرنا یا صرف جلسہ وجلوس کے ذریعہ احتجاج کی راہ اپنانا، کارگر حکمت عملی نہیں ہوسکتی۔ 
مسلم قوم میں آج جو صلاحیتیں ابھر رہی ہیں، ان کا رخ عام طو رپر انجینئرنگ، میڈیکل یا زیادہ سے زیادہ مینجمنٹ تک محدود ہے، حالانکہ ان شعبوں کی تعلیم و تربیت دن بدن گراں ہورہی ہے لہذا ضرورت ہے کہ دوسرے شعبوں، بالخصوص میڈیا کی طرف بھی ہمارا رجوع ہو، آج برادرانِ وطن کی اعلیٰ ذات کا بڑا طبقہ تعداد مں کم ہونے کے باوجود میڈیا پر چھایا ہوا ہے اور اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کررہا ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی جو پورے ملک میں صحافتی تعلیم کا اعلیٰ ادارہ تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی ماس میڈیا اور ماس کمیونکیشن کے کورسیز میں مسلم نوجوان کم نظر آتے ہیں ، ہمارے پاس جدید ذرائع ابلاغ کا نیٹ ورک تیار کرنے کی صلاحیت نہیں تو اس میں اثر ونفوذ تو پاسکتے ہیں، لیکن اس کے لئے بھی اجتماعی وغور وفکر، منصوبہ بندی اور اقدام ضروری ہے ایک پرانا شعر لیکن قرآنی آیت کی تشریح پر مبنی اور حسب حال ہے 

خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے