مظلوم فلسطینیوں پرانسانیت سوز مظالم کیلئے عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کی تحریک سے ہندوستان کی علیحدہ گی نے دنیاکے انصاف پسندوں کو حیران کردیا۔گزشتہ سال غزہ میں ہزاروں افرادکے قتل کے خلاف عالمی عدالت میں پیش کردہ قراردادکی حمایت کرنے والوں میں ۸یورپین ممالک کے علاوہ ۱۴ممالک شامل ہیں جبکہ ہندوستان نے ووٹنگ سے غیرحاضررہنے کا فیصلہ کیاجودراصل اسرائیل کی درپردہ حمایت تھی ،ووٹنگ سے قبل اسرائیلی وزیراعظم اورنریندرمودی کے درمیان ہوئی گفتگو نے سب کچھ بے غبارکردیا حالاں کہ ہندوستان کافلسطین کے ساتھ تاریخی روابط رہے ہیں اورماضی میں ہرموڑپرہندوستان نے فلسطین کاساتھ دیاہے۔بابائے قوم گاندھی جی اورملک کے پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہرلال نہروسے لے کر اندراگاندھی اورراجیو گاندھی تک فلسطین کے تئیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی ہمدردی پر مبنی رہی ہے۔اگرچہ ہندوستان اورفلسطین کے تعلقات اپنے اندرنشیب وفراز کی کئی پرت رکھتے ہیں ا س کے باوجودقطعی طورپریہ کہاجاسکتاہے کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کا دوست ملک رہاہے۔اسرائیل کے قیام کیمحض چندبرسوں بعدیعنی ۱۷?ستمبر۱۹۵۰ کو ہندوستان نے اسرائیل کوباضابطہ طورپر تسلیم کرکے اپنے عرب دوست کو محو حیرت کر دیاتھاکیوں کہ ہندوستان کا یہ فیصلہ اپنے عرب دوست ممالک کی توقع کے بالکل برعکس تھا۔کیوں کہ یہی وہ ہندوستان تھا جس نے۱۹۹۴4 میں اقوام متحدہ میں قیام اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دیاتھااوراس کے بعدجب بھی یہودیوں کی جانب سے فلسطینیوں پرظلم وستم کیا جاتا ہندوستان کی جانب سے مضبوط آواز بلندکی جاتی تھی اور اپوزیشن جماعتیں کانگریس پہ الزام لگاتی تھیں کہ وہ مسلم ووٹ بینک کیلئے اسرائیل کی مخالفت کرتی ہے۔
رشتوں کے اس نشیب وفرازسے بآسانی یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کی خارجہ پالیسی اسرائیل اورفلسطین کے معاملہ پرتذبذب کی شکارتھی لیکن اس کے عملی رویے فلسطین کی تائیدکررہے ہیں یہی وجہ ہیکہ ہندوستان کوہمیشہ سے فلسطین کا حامی تسلیم کیاجاتارہا اورگاندھی جی نے بھی یہودی سلطنت کی کھل کرمخالفت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی وکالت کی ہے ۲۶نومبر۱۹۸۳ میں گاندھی جی کے ہفتہ واررسالہ ’ہریجن‘ میں شائع ان کے مضمون کا ایک اقتباس حقیقت کے چہرے کو مزیدروشن کرسکتاہے۔مضمون کا عنوان تھا The Jews in Palestine یعنی یہودفلسطین میں ‘ اس مضمون میں گاندھی جی نے لکھاتھا کہ ’’مجھ سے اکثرعرب۔یہودی مسئلے پر رائے پوچھی جاتی ہے۔ یہود بے شک اس وقت اپنا کوئی ملک نہیں رکھتے‘ مگر انہیں زور زبردستی سے فلسطین پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے، یہ بات انصاف کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی اسی لیے فلسطین میں عربوں کو بے دخل کر کے وہاں یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال مجھے نہیں بھاتا۔‘‘
فلسطین سے متعلق گاندھی جی کے نظریہ کے بعدیہ سمجھنا بہت سہل ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی خارجی پالیسی فلسطینیوں کے حق اوریہودیوں کے خلاف رہی ہے۔اسے گاندھی جی کی یہودی مخالف نظریہ کی کرشمہ سازی کہی جاسکتی ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے فلسطینیوں کی حمایت کو سرکاری پالیسی بنا لیا۔ سیکولرمزاج پنڈت نہرو مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے ساتھ چل نہیں سکے۔
۱۹۵۰ میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعدرشتوں میں جوتلخی آگئی تھی ؛ ہندوستان کی خارجہ پالیسی نے بڑی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو دورکرننے کی کوشش کی اورفلسطین وہندوستان کے درمیان فاصلوں کے برف کو پگھلانے میں اس حدتک کامیاب ہوا کہ وہ پہلا غیرعرب ملک بن گیا جس نے ۱۹۷۴ میں یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو تسلیم کرنیکاتاریخی فیصلہ کیا۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی اور یاسر عرفات کی پْرجوش ملاقات والی تصویریں پوری دنیا میں بہت مقبول ہوئی تھی۔تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او)کے سربراہ یاسرعرفات سابق وزیراعظم ہنداندراگاندھی کواپنی بہن کہتے تھے،راجیوگاندھی سے بھی یاسرعرفات کے بہت ہی خوشگوارتعلقات تھے۔ یاسرعرفات نے ہندوستان کا کثرت سفرکیاہے اورہندوستان کووہ اپنا وطن ثانی مانتے تھے۔
اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگا،بات ۱۹۸۳ کی ہے جب ہندوستان میں غیروابستہ ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کررہا تھا اس میں شرکت کرنے کیلئے تمام غیروابستہ ممالک کے سربراہان موجودتھے اس میں یاسرعرفات بھی شریک تھے سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ اس کانفرنس کے جنرل سکریٹری تھے اوراس کانفرنس میں صبح کے سیشن میں فیدل کاسترو صدر تھے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی صدر تھیں۔ صبح کے سیشن کے بعد ایک خاموش شوراٹھا کہ یاسر عرفات بہت ناراض ہیں اور فوری طور پر اپنے جہاز سے واپس جانا چاہتے ہیں،جب یہ خبر اندرا گاندھی تک پہنچی تووہ اپنیساتھ فیدل کاسترو کو بھی لیتی ائیں پھرفون کر کے یاسر عرفات کو بلا لیاگیا۔ فیدل کاسترونے ناراض عرفات سے کہا کہ آپ اندرا گاندھی کو اپنا دوست مانتے ہیں یا نہیں۔ اس پریاسرعرفات نیجواب دیا کہ دوست نہیں بلکہ وہ میری بڑی بہن ہیں۔ اس پر کاسترو نے تپاک سے کہا تو پھر چھوٹے بھائی کی طرح برتاوٰکرو اور کانفرنس میں حصہ لو۔عرفات مان گئے اور شام کے سیشن میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئے۔
یاسر عرفات اپنے ہوائی سفر کو بہت خفیہ رکھتے تھے اور میزبان ملک کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ وہاں آنے والے ہیں۔ ان کا اکثر ہندوستان آنا ہوتا تھاجب بھی یاسرعرفات یہاں آتے تھے پہلے سے اپنی آمدکی خبرنہیں دیتے تھے ایک دو گھنٹے پہلے ہی خبر آتی تھی کہ وہ آ رہے ہیں اس کے باوجود اندرا گاندھی انھیں ہمیشہ ریسیو کرنے ایئرپورٹ پر جاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اندرا گاندھی کو ’مائی سسٹر‘ کہہ کر پکارتے تھے۔اندراگاندھی کے علاوہ راجیوگاندھی اورکمیونسٹ لیڈرسیتارام یچوری سے بھی ان کے خوشگوارمراسم رہیہیں کئی بارملاقاتیں ہوئی ہیں۔لیکن۱۹۹۱ء میں سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ فلسطین اورہندوستان کے رشتوں پرگہن لگنا شروع ہوگیا اورکانگریس کی نرسمہاراؤکی حکومت نے باضابطہ طورپرہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کے قیام کومنظوری دیدی۔نرسمہاراؤکے اس فیصلہ سیایک بارپھرعرب دوست ممالک اورخود ہندوستان کے انصاف پسندطبقے خصوصاً ملک کی خارجہ پالیسی پر نظررکھنے والوں کوزبردست دھچکالگا۔اس کے بعد اسرائیل سے رشتے تیزی کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے اوراسی قدرفلسطینی مظلوموں کے حق میں ہندوستان کی حمایت کمزورپڑتی گئی۔ ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کے قیام کے محض چھ برسوں بعد ۱۹۹۷ میں اسرائیلی صدرایزر ویزمان نے ہندوستان کادورہ کیااورا س دوران وزیراعظم دیو گوڑا نے اسرائیل سے میزائل خریدنے کا معاہدہ کر لیاا سکے بعدجیسے ہی بی جے پی مرکزمیں برسراقتدارآئی ایسالگاکہ ہندوستان اوراسرائیل تعلقات کوجیسے پرلگ گئے ہوں۔
اسرائیل نے ہندوستان میں سرمایہ کی ریل پیل کی بنیادپر اسے اپنا دوست بنا نے کی شاطرانہ چالیں چلتارہا جوہنوزجاری ہے۔اسرائیل کی عیاری کام آئی اوردھیرے دھیرے فلسطین کے ساتھ ہندوستان کی جھوٹی ہمدردی بھی ختم ہوتی گئی۔یہی نہیں غزہ میں پچاس دنوں تک جاری رہنے والی اسرائیلی خون ریزی کے خلا ف پوری دنیا میں آوازیں اٹھ رہی تھیں اوراسرائیلی بربریت کی کھلے عام مذمت ہورہی تھی اس وقت بھی مودی حکومت کی زبان گونگ رہی اور اپوزیشن نیجب پارلیمنٹ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرنی چاہی تو مودی حکومت نیاسے نامنظورکردیا۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج کیجواب میں وزیر خارجہ سشما سوراج کاکہنا تھاکہ اسرائیل سے ہندوستان کے دوستانہ مراسم ہیں اور حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے دوستانہ تعلقات پر کوئی ا?نچ ا?سکے۔ ۲۵ستمبر۲۰۱۰ کو جب راجیہ سبھا کے رکن اورسابق مرکزی وزیرمنی شنکرائیرنے راجیہ سبھا میں ایک سوال پوچھا حکومت بتائے کہ کیا وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں قتل کیے جانے والے نہتے شہریوں کی بڑی تعدادکو151گولڈ سٹون فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے مطابق حماس کی جانب سے مارے جانے والوں کے برابر خیال کرتی ہے؟ اس پروزارت خارجہ نے اسے ایک ریاستی راز قرار دیتے ہوئے سوال کی اجازت نہیں دی۔ ۵ستمبر۰۱۰۲ء4 کو منی شنکرایئرنے انڈین ایکسپریس کو دئے انٹرویومیں اس سوال پر تنقیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ’ کب سے انڈیا اور فلسطین کے تعلقات ریاستی راز بن گئے ہیں؟ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہم فلسطینی مقصد کے بڑے چیمپین رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ۲۰۰۳میں شیرون کے تاریخی دورے سے قبل فنانشل ٹائمز نے اپنے ملک کیہندوستان کے ساتھ روابط کو ’’دنیا کے خفیہ ترین روابط‘‘ کہہ کر بیان کیا تھا۔گویاہندوستان اورفلسطین کے تعلقات کواسرائیل نگل گیا اب توہندوستان کے ساتھ صنعت وتجارت کے ساتھ دونوں کیمابین انٹیلی جنس کا تعاون اس تعاون سے کہیں زیادہ ہے جو ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ہے۔ہندوستان کے سیکڑوں خصوصی فوجی دستے اسرائیل میں تربیت حاصل کر چکے ہیں۔اسرائیل نے ہندوستان کویہ باورکرانے کی بھی کوشش کی کہ دونوں ممالک کے مسائل یکساں ہیں اس لئے دونوں کویکساں پالیسی اپنانی ہوگی۔ا?رایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی کئی باراسرائیلی فوج کے طریقہ کارکی تعریف کرتیہوئے ہندوستان کو اسرائیل سے سبق سیکھنے کی صلاح دے چکیہیں۔شاید یہ موہن بھاگوت کی نصیحت کاہی جادوتھاکہ کانگریس نے ممبئی تاج ہوٹل حملہ کے بعد فوج کے خصوصی دستہ کو اسرائیل میں تربیت کیلئے بھیجا تھا حالاں کہ یہ زمینی سچائی ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے دہشت گردی کے تمام تارخود اسرائیل سے ملتے ہیں۔ممبئی حملہ میں بھی اسرائیل کا کرداررہا ہے جسے ملک کے میڈیانے خاموشی کے ساتھ ہی سہی اجاگرضرورکیاتھا۔
۲۰۰۳میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے دورہ ہند کے دوران ان کے ڈپٹی، یوسف لپید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ایک ’’زبانی و تجریدی‘‘ محور تخلیق ہو رہا تھا۔لپید نے صحافیوں کو آگاہ کیاتھاکہ ’’تینوں فریقوں کے مابین کسی رسمی معاہدے کی عدم موجودگی کے باوجود تینوں کے مشترکہ مفاد میں ہے کہ وہ دنیا کو سب کے لیے اور زیادہ محفوظ جگہ بنائیں۔ اس محور کی تشکیل کو امریکی حمایت حاصل ہے۔لہٰذاتجریدی سطح پر ہم ایسا محور تشکیل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘ اسرائیل کے ڈپٹی وزیر اعظم کی جانب سے ایسے محور کی تخلیق کے اعلان سے چار ماہ قبل ہی انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا ایسے اتحاد کی تجویز دے چکے تھے۔۸ مئی۲۰۱۳ کو امریکہ کی یہودی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے مشرا نے کہاتھاکہ ’’امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا جیسی جمہوریتوں پر مبنی ایک ’قلب‘ کی تشکیل سے ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا اتحاد سیاسی منشاء4 کا حامل ہو گا اور یہ دہشت گردی کی اکسا دینے والی کارروائیوں کا جواب دینے کے لیے بے باک فیصلے کر سکے گا۔انہوں نے اپنی بات میں وزن پیداکرنے کیلئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’دہشت گردوں اور آزادی پسندوں کے مابین فرق ڈھونڈنا ایک بھونڈی منطق کا پروپیگنڈہ ہے یعنی ایک اور مغالطہ جس کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بنیادی وجوہات کو ختم کر کے ہی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔انڈیا، امریکہ اور اسرائیل دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ ان کا ’’مشترک دشمن‘‘ ہے اور انہیں ’’مشترکہ ایکشن‘‘ کی ضرورت ہے۔جولائی ۲۰۰۲ ء4 میں لال کرشن اڈوانی بھی اس قسم کے خیالا ت کا اظہارکرچکے تھے۔ انہوں نیفاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’اب تک ہونے والی دہشت گردی، جس کا ہم نے سامنا کیا ہے، (گیارہ ستمبر۱۰۰۲ء4 کو نیویارک میں اور۳۱? دسمبر۱۰۰۲ء4 کو ہونے والاپارلیمنٹ پر حملہ) اس کا منبع ایک ہے، اور اس ایک منبع کا کہنا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔‘‘
اسے حالات کی ستم ظریفی سے ہی تعبیرکیا جاسکتاہیکہ کل تک ہندوستان جسے مظلوم سمجھتا رہا اوراس کے حق کی قسمیں کھاتارہا اسی کیلئے وزارت خارجہ کا ترجمان۲۰۰۲ء4 میں شمعون پیریز کے دورہ? ہند کے موقع پر ’سرحدپاردہشت گردی‘ کا لفظ استعمال کررہاتھا اورکہہ رہاتھا کہ دہشت گردی کے اسرائیلی تجربہ سے سیکھنا ہندوستانیوں کیلئے بڑا فائدہ مندہے۔ رنگ بدلتے رشتوں کے درمیان ایسا وقت بھی آیاجب ۲۰۰۹ میں اسرائیل نے انڈین ہوم لینڈ سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی میں تعاون کی پیشکش کی تو مہاراشٹر کی کانگریس حکومت نے ماہرین کے ایک وفد کو اسرائیل بھیجا تاکہ وہ عملی تجربہ حاصل کر سکے۔
سابق وزیر مملکت برائے کامرس اور انڈسٹری نے فروری ۲۰۱۰ میں تل ابیب میں ایک تجارتی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’اسرائیلی ہوم لینڈ سکیورٹی کا سسٹم انڈیا سے کہیں آگے ہے اور انڈیا کو آپ کے تجربے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم دوست ملک اور تجارتی اتحادی ہیں ، ہمارے تعاون کی بنیاد مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے عفریت سے نپٹنے کے لیے مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
ہندوستان اوراسرائیل کی بڑھتی قربت کے پیش نظرممکن تھاکہ لوگ فلسطین سے متعلق ہندوستان کے تعلقات پرحتمی رائے قائم کرلیتیاورہندوستان کوفلسطین کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیتے عین اسی دورمیان وزیراعظم منموہن سنگھ فلسطین اورہندوستان کے تعلقات کو تاریخی قراردیتیہوئے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے فلسطین کے دعوے کی بھر پور حمایت کا اعلان کردیا ،منموہن سنگھ صدر محمود عباس کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز مقاصد کی حمایت کی ہیمیں آپ کو اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔ہندوستان نے ہمیشہ ایک خودمختار، آزاد اور مستحکم فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو اور جو واضح طور پر تعین شدہ سرحدوں کے اندر اسرائیل کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکے۔وزیراعظم کے اس مکتوب کو اقوام متحدہ میں ہندوستان کیمستقل نمائندے ہردیپ سنگھ نے صحافیوں کو یہ خط پڑھ کر سنایاتھا۔
بہرحال ایک بارپھر مرکزمیں بی جے پی کا قبضہ ہے اوراسرائیلی رشتوں میں مٹھاس لانے کی ہرممکن کوشش جاری ہے۔ مودی حکومت کی تشکیل کے بعد صدرجمہوریہ پرنپ مکھرجی کو سویڈن، بیلاروس، اسرائیل اور نائجیریا اورافریقی ممالک کے دورہ کی فہرست بھیجی گئی تھی لیکن صدرجمہوریہ نے اسرائیل جانے سے انکار کر دیا اورفہرست میں فلسطین جانے کی شرط رکھی تھی۔ کانگریس میں اندرا گاندھی سے لے کر راہل گاندھی تک کی تین نسلوں کے ساتھ بطور سیاستدان کام کر چکے صدر پرنب مکھرجی کیا س اقدام کو ماہرین نے نہرو۔گاندھی کے نظریاتی فلسفہ سیجوڑکردیکھاتھا لیکن حالات اس نازک موڑپر جہاں یورپین پارلیمنٹ سمیت دیگریورپی ممالک یہودی ظلم وستم کے خلاف اسرائیل کوعالمی عدالت میں کھڑنے کی مہم چلا رہی ہو؛ہندوستان کااقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ سے غیرحاضررہنا انصاف پسندوں کومایوس کرگیا۔ووٹنگ سے قبل اسرائیلی وزیراعظم اور نریندرمودی کے دورمیان ہوئی گفتگوکے انکشاف کے بعدیہ پوری طرح واضح ہوگیا کہ فلسطین کے تئیں ہندوستان کی خارجہ پالیسی یکسرتبدیل ہوگئی ہے۔کل تلک بابائے قوم گاندھی اورپنڈٹ نہروجسے غاصب اورظالم تصورکرتے تھے اوربرملا اس کا اظہاربھی کرتے تھے آج انہیں کے ملک کا وزیراعظم نظریاتی طورپران کا باغی ہوگیا ہے۔ہندوستان کو ہرگزیہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل ایک دشمن قوم ہے اوروہ عالمی دہشت گردی کا جنم داتا ہے لہٰذا دوستی میں اس قدرہوش نہ کھوبیٹھے وہ دوستی کی آڑمیں ملک کی سلامتی کوہی رہن کے طورپراپنے پاس رکھ لیاگرایسا ہوا توپھر ہندوستان کودوسری مرتبہ گوروں کا غلام بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اس لئے دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ظلم وناانصافی کی شدت کے مخالفت کی جائے،مظلوم اورسچ کی حمایت کی جائے اوریہی سیکولرہندوستان کاوطیرہ رہاہے۔(یو این این)
جواب دیں