عارف عزیز(بھوپال) ہندوستان جیسے زیر ترقی اور مختلف تضادات کے حامل ملک میں پچاس سال تک پارلیمنٹ کا کام کرتے رہنا اور اس کے تحت جمہوریت وجمہوری روایات کا برقرار رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں اور علاقوں میں دوری پہلے سے بڑھی ہے، امیرو غریب کے فرق میں […]
ہندوستان جیسے زیر ترقی اور مختلف تضادات کے حامل ملک میں پچاس سال تک پارلیمنٹ کا کام کرتے رہنا اور اس کے تحت جمہوریت وجمہوری روایات کا برقرار رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں اور علاقوں میں دوری پہلے سے بڑھی ہے، امیرو غریب کے فرق میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سیاسی شعبدہ بازی کے طفیل یہاں ایسی پارٹیوں کو طاقت وبرتری ملتی رہی ہے جنہیں ملک اور اس کی جمہوریت سے زیادہ اپنی پالیسی وپروگرام کو بروئے کار لانے کی فکر ہے، اس عرصہ میں تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ تو تعلیم کو کوئی واضح سمت مل سکی، نہ دوسرے اہم میدانوں میں قابلِ اطمینان کام انجام پاسکے، اس کے بجائے بدعنوانی کا بول بالا ہوا ہے۔ جمہوریت کے اس تحفظ میں سب سے اہم کردار مہاتماگاندھی کے بتائے ہوئے اس طریقے نے ادا کیا جس کے تحت عوامی احتجاج کے پرامن طریقہ سے ملک نے آزادی حاصل کی، اس طرح جمہوریت کو جس اہم بنیاد کی ضرورت تھی وہ اسے اول مرحلہ میں ہی فراہم ہوگئی، اس کے برخلاف ہندوستان نے تشدد کی راہ سے آزادی حاصل کی ہوتی تو یہاں جمہوریت کسی بھی وقت آمریت میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ ٍ دوسری وجہ یہ ہے کہ مہاتماگاندھی کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے ایک ایسی تنظیم کی حیثیت حاصل کرلی جس کے شہروں سے لیکر دیہی علاقوں تک لاکھوں کارکن سرگرم عمل تھے، اس طرح جس وقت آزادی ملی، اس وقت کانگریس وہ جماعت بن گئی جو ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن رکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی، اس کے علاوہ اپنی تنظیمی ساخت کے لحاظ سے نیچے سے اوپر کی طرف جاتی تھی اور سیاسی کارکنوں کی تربیت کا بہت بڑا وسیلہ تھی، پرانی نسل کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ایسے متعدد مباحثے یا د ہوں گے جن میں کانگریس کے نوجوان اور پرجوش ارکان نے نہ صرف جواہر لال نہرو، سردار پٹیل بلکہ مہاتماگاندھی کے خیالات وپروگرام کو ہدف تنقید بنانے کی جرأت کی خود گاندھی جی نے اس پر جس برداشت کا مظاہرہ کیا، وہی جمہوریت کا سب سے بڑا سبق تھا، جس میں اختلافِ رائے کی مکمل آزادی اور اس کے احترام کا جذبہ بھی شامل ہوتا تھا۔ اس سلسلہ کی تیسری بات جدوجہد آزاد کے آغاز سے لیکر آزادی کے حصول تک عوامی زندگی میں جمہوری اور اخلاقی قدروں کا باقی رہنا ہے، جس میں اصولوں کو اپنی مطلب براری کے لئے نہیں بلکہ اس کی اصل روح کے ساتھ اپنایاگیا تھا، مذکورہ تینوں سمتوں کے لحاظ سے آزادی کی سات دہائیوں کے دوران جو پستی آئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس گراوٹ نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان قائم کردیاہے۔ ملک کے وزیراعظم خواہ کتنی ہی طاقت سے یہ نعرہ لگائیں کہ ہندوستان کی جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اداروں کا جس طرح زوال ہورہا ہے، ان کی کارکردگی کا معیار گررہا ہے، عوامی مفاد بالخصوص کمزوروں اور اقلیتوں کو جارج ہندو فرقہ پرستی جس طرح نشانہ بنارہی ہے اس کے پیش نظر صورت حال قطعی اطمینان بخش نظر نہیں آتی۔ آج پارلیمنٹ کو کام کرتے ہوئے ۹۶ سال ہورہے ہیں، اس موقع پر ضرورت ہے کہ سنہرے الفاظ وجذبات کا دریا بہانے کے بجائے، جمہور کے نمائندے اپنی جمہوریت کے سفر کا احتساب کریں اور یہ دیکھیں کہ اس عرصہ میں انہوں نے کیا کھویا کیا پایا ہے؟ اس عرصہ میں ملک نے مختلف میدانوں میں جو ترقی کی ہے اس کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا خاص طور پر صنعتی ترقی کا اپنوں کو ہی نہیں پرایوں کو بھی اعتراف ہے، کل کارخانوں کا پھیلاؤ، سبز انقلاب اور ضرورت کی دیگر اشیاء کی دستیابی کے باوجود بھکمری بھی بڑھ رہی ہے،غریبی اور بیکاری برقرار ہے، نئی اقتصادی پالیسی نے رہی سہی کسر پوری کردی، گذشتہ گیارہ برسوں میں بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ ملک کی دولت باہر جانا شروع ہوگئی ہے، ترقی کی رفتار، صنعتی پیداوار بڑھ رہی ہے لیکن کسان بے چین وپریشان ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اس پر توجہ دے کر اصلاحِ حال کی فکر کرے، خصوصیت سے ملک میں جمہوریت اور اخلاقی قدروں کی آبپاری پر توجہ دے، تاکہ آج تک جو نقصان ہوا اس کا مداوا ہوسکے یہ کام صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ ان سب کا ہے جو جمہوریت اور اس کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں اس کی بقاء کو ناگزیر تصور کرتے ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 10/ فروری2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں