نا تو قطر کے رہنے والے کو عام بول چال میں قطری کہتے ہیں نہ یو اے ای یا ابو دہابی کے یا دبئی کے رہنے والوں کو اس کے ملک کے نام سے پکارتے ہیں ان کی پہلی بڑی پہچان عرب ہے بعد میں یہ کہ وہ شخص قطر کا ہے یا ابو دہابی ، یو ایے ای ، دبئی ، شام ، بحرین وغیرہ کا اسی طرح مصر ، ایران ، جرمنی ، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے بھی اپنے ملک کے نام سے پکارے جاتے ہیں ۔
اگرچہ ہمارے ملک کی قدیم تہذیب ( ویدک) امریکہ کی قدیم تہذیب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اس وقت ہم امریکہ کی طرح ہی چھوٹی چھوٹی بستیوں یا علاقوں میں رہتے تھے ہم نے اپنا یا اپنے وطن کا کوئی نام نہیں رکھا تھا نہ ہم یہ جانتے تھے کہ اجتماعی طور پر ہم کیا ہیں ،سرکار کیا ہوتی ہے ، سرکار کا دستور کیا ہوتا ہے ، دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کی تلاش کولمبس نے کی لیکن اس سے پہلے کچھ اور سیاح وہاں پہنچ چکے تھے ان میں سے ایک امریگو ویس پچی بھی تھا ۔امرییگو لٹن میں امریکس ہو گیا اسی سے امریکہ بنا ۔کولمبس نے یورپ کے لوگوں کو امریکہ کا سمندری راستہ اور وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں بتایا امریکہ کے اصل باشندوں کی یہ بد قسمتی تھی کہ یورپ کے لوگوں نے ان کی زمین چھینے اور انہیں غلام بنا کر ان سے زبردستی مزدوری کرانے کا غیر انسانی ظالمانہ کام لیا ۔
ہمارے دیش کی قدیم تاریخ میں دو لفظوں کا استعمال متاواتر نظر آتا ہے آریہ اور اسر ۔ ایسا لگتا ہے کہ آریو نے اپنا نام اس بنیاد پر رکھا ہوگا کہ وہ یہاں کے اصل باشندوں کے ( اری) یعنی دشمن تھے ۔ اس اری سے ہی آریہ بنا ۔ بہتر زرخیز زمین اور اچھی آب و ہوا کی تلاش میں ہی آریو نے ہمالیہ کو پار کیا انہوں نے یہاں بسنے کے لئے کہیں مقامی باشندوں کا قتل کیا تو کہیں ان سے سمجھوتہ آریو نے جب ملک کے شمالی حصہ پر قبضہ کر لیا تو اس کا نام آریہ ورت رکھا ۔ان کا ملک کے جنوبی حصہ پر قبضہ نہیں تھا ایک تو بیچ میں وندھیا چل کا پہاڑ تھا دوسرے وہاں کی آب و ہوا گرم تھی تیسرے شمال میں انہیں عیش و آرام کی کوئی کمی نہ تھی وہ خوشحال تھے یہ زمانہ ملک گیری کا نہیں تھا لوگ لالچ سے نہیں ضرورت یا مجبوری میں ہی کوچ کرتے تھے ۔گیتا میں کرشن نے اسے آریہ ورت کے نام سے ہی پکارا ۔بعد میں انہوں نے اس ملک کو بھارت نام دیا ۔
دنیا کی تاریخ میں ندیوں کی تہذیب اور ان کے آس پاس بسے علاقوں کو ندیوں کے نام سے پکارے جانے کی مثالیں موجود ہیں بچے بھی جانتے ہیں کہ سندھ ندی سندھو یا ہندو نام رکھے جانے کی وجہ بنی ۔یہ ندی ہمارے مغرب میں واقع ہے ایران کے لوگوں نے سندھو کو ہندو بنادیا کیونکہ فارسی میں دھ لفظ نہیں وہ دہ ’’ د‘‘ کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ ایک جغرافیائی اصطلاح تھی نی جانے کب یہ مذہب بن گئی ۔یہاں دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہوتی تھی سبھی روایتی طور پر ویدک تہذیب یا دھرم کو ماننے والے تھے ان میں بودھ ، جین ، چاوارک ، وغیرہ روایتی طور پر آپ انہیں ہندو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے اپنے دھرم کا کوئی نام نہیں رکھا تھا ۔زندگی گزارنے کا طور طریقہ رسم و رواج اور روایات بنیادی طور پر تہذیب کی نشان دہی کرتی ہیں جسے ویدک تہذیب کہا گیا اس تہذیب نے ہی مذہب کی جگہ لے لی تھی ۔گوتم بدھ مہاویر جین نے ہندو دھرم سے نہیں ویدک مذہب سے ہی بغاوت کی تھی کیونکہ اس مذہب کے ماننے والے ذات پات چھوا چھوت کے پیروکار تھے جنت ، دوزک میں یقین رکھتے ۔ مورتیوں کی پوجا کرتے اور گوشت کھاتے تھے ان دونوں دھرموں نے برابری اور اہنسا پر زور دیا ۔ بعد میں سکھ اور آریہ سماج نے بھی سماجی برابری کو اہمیت دی ۔ جن لوگوں نے بودھ اور جین میں سے کسی مذہب کو نہیں اپنایا وہ اپنے آپ کو سناتنی یا سناتن دھرمی کہنے لگے ۔
ستر اسی سال قبل سب کو ہندو کہنے کی جو قواعد شروع ہوئی بھارت کی دو ہزار سال کی تاریخ میں نہ اس نام سے کوئی مذہب تھا اور نہ ہی کسی شخص کی پہچان اس لفظ کے ساتھ جڑی تھی اور نہ ہی یہ لفظ اس معنی میں کبھی استعمال ہوا تھا جبکہ ویدک دھرم ، بودھ ، جین ، چاوارک روایتی معنی میں ہندو ہی تھے لیکن جب باہر کے لوگ یہاں آئے تو بھارت کے لوگوں نے اپنے آپ کو ہندو کہنا شروع کردیا کیونکہ باہر سے آنے والوں نے یہاں رہنے والوں کو ہندو کہہ کر پکارا ۔ بھارت کے لوگوں نے اپنی ویدک تہذیب کو ، اپنشدوں کے چنتن کو اسمرتیوں اور پرانوں کی تعلیمات کو بھول کر اپنے آپ کو ہندو مان لیا یہ بھارت کی قدیم تہذیب کا خاتمہ تھا ۔
مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے ساتھ ہی سناتن دھرم جو ہندو دھرم بن گیا تھا اس نے سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے من گھڑت جھوٹی تاویلیں کرکے یہاں کے تمام ایسے لوگوں کو جو نہ مسلمان تھے نہ عیسائی ، نہ یہودی ، نہ پارسی ، نہ بودھ اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔ اس کام کو آگے بڑھانے میں راجہ رام موہن رائے ، پنڈت مدن موہن مالویہ ، وویکا نند ، شیاماپرساد مکھرجی وغیرہ شامل تھے دیس نے عام طور پر اس نظریہ کو خارج کردیا ۔ گاندھی جی کے سوراج اور رام راج سے اس تحریک کو تقویت ضرور ملی لیکن دیش کی تمام عوام کو اس چھاتے کے نیچے لانے کے لئے اس (ہندتوا) تحریک کو کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی ۔
انگریزوں کے بنگال کو تقسیم کئے جانے کے فیصلہ کی ملک میں زبردست مخالفت ہوئی ملک کی عوام نے سرکار کے خلاف اتنے زبردست مظاہرے کئے کہ انگریز گھبرا گئے ان مظاہروں کی خوبی یہ تھی کہ ایک ہی جلوس میں ایک بار اللہ اکبر کا نعرہ لگتا تو دوسری بار ہر ہر مہا دیو کا ۔ انگریزوں نے نہ صرف بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا بلکہ اپنی راجدھانی کو کلکتہ سے دلی منتقل کرلیا ۔ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ متحد ہندوستان پر وہ زیادہ دیر حکومت نہیں کر سکتے لہذا انہوں نے عوام کے بیچ درا پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا انگریزوں نے ایک طرف ہندو ( ہندتو ا) فکر کی پشت بناہی کی تو دوسری طرف مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگوں کو کھڑا کردیا جو اس ( ہندو فکر ) کی مخالفت کرسکے ۔ پھر ملک کا سماجی ڈھانچہ کچھ اس طرح تھا کہ جہاں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ تھی اس ریاست کا ذمہ دار کوئی مسلمان تھا اور جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں کا راجہ ہندو ۔دیش کی اس خوبصورتی ، خوبی اور تہذیبی ورثہ کو انگریزوں نے نفرت کا ذریعہ بنا دیا ۔
اقبال نے جب یہ کہا تھا کہ ’’ ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا ‘‘ تو عوام کو اسی اتحاد کے لئے آواز دی تھی جو ہماری شان اور پہچان تھی لیکن دونوں طر ف کے شدت پسندوں نے حالات اتنے خراب کر دےئے تھے کہ کوئی اپنی جگہ سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا ۔نتیجہ کے طور پر ملک تقسیم ہو گیا اس ملک کی بنیاد ہندو توا کے بجائے جمہوریت کے اصولوں پر رکھی گئی ملک کا دستور بنانے والوں نے نفرت کی ان وجوہات کو خوب سمجھا تھا اسی لئے دستور میں ملک کا نام ہندوستان کے بجائے بھارت لکھا گیا اردو والے بھارت کو ہمیشہ ہندوستان لکھتے رہے جو ایک غیر دستوری نام ہے ۔ ہندوتوا کے نظریہ کو بھلے ہی ملک نے قبول نہیں کیا لیکن تقسیم ملک کی وجہ سے اس کی جڑوں کو مضبوطی ضرور ملی ۔ جمہوری نظام حکومت میں لوگوں کی تعداد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جس کے ساتھ عوام کی زیادہ تعداد ہو گی حکومت اسی کی ہوگی یہ حقیقت کئی بار ملک کے سامنے آچکی ہے اس تناظر میں سنگھ اور اس کے ذمہ داروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ملک کی کم عمل بے پڑھی لکھی عوام کو ان کے جذبات کو بھڑکا کر گمراہ کرکے کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف سیاسی ماحول بناتے رہے ہیں ۔
موہن بھاگوت کے بیان کو اسی سلسلہ کے کڑی کے طور پر دیکھنا چاہئے یہ بیان اس وقت آیا ہے جب بہت سی اسمبلی سیٹوں پر بائی الیکشن ہونے ہیں یا ہو رہے ہیں اور کئی صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اس فکر کے پیچھے جب جتنی بڑی طاقت ہوتی ہے سنگھ اسی شدت اور ضرور کے ساتھ اپنی باتوں کو اٹھاتا ہے میڈیا ان کی باتون کو لے اڑتا ہے اور بحث ومباحثہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔اس وقت مرکز میں ان کے نظریات کی ہمنوا سرکار ہے لیکن ملک کی 29ریاستوں میں سے صرف پانچ میں ان(بھارتیہ جنتا پارٹی)کی اکثریت والی سرکار ہے اس لئے با وجود مرکزی سرکار پر قابض ہونے کے وہ ملک میں اپنے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لاسکتے ۔سنگھ یا موہن بھاگوت کی کسی بھی بات پر مشتعل ہونے کے بجائے اس پر گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس مقصد کے تحت کیا بات کہہ رہے ہیں کیونکہ جنہیں وہ ہندو کہہ کر پکارتے ہیں وہ بھی ان کے نظریات سے پوری طرح اتفاق نہیں رکھتے ورنہ ملک کی تصوریر کچھ اور ہوتی ۔
انڈیا عرف بھارت عرف ہندوستان میں رہنے والے سبھی انڈین ، بھارتیہ ، ہندی ، یا ہندوستانی ہیں جس طرح اقبال نے ‘‘ ہندی ہیں ہم وطن ہیں ‘‘ کہا تھا اسی طرح سبھاش چندر بوس نے’’ جے ہند ‘‘ کا نعرہ دیا تھا آزاد ملک میں اتنا تو حق ہونا ہی چاہئے کہ انسان یہ طے کرسکے کہ اسے کس نام سے جانا جائے ۔
جواب دیں