حفاظت جس سفینہ کی انہیں منظور ہوتی ہے

انسان اکثر اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ وہ اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق خدا کو مانتا بھی ہے‘ اس سے مانگتا بھی ہے‘ اس کی بڑائی کا اعتراف بھی کرتا ہے مگر کبھی طیش میں کبھی عیش میں اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اور کچھ دیر کے لئے خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ خداوند قدوس اسے ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کا موقع دیتا ہے مختلف اشاروں اور کنایوں سے اسے اس کی حیثیت سے واقف کرواتا ہے۔ اگر وہ سمجھ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ جب اپنا شکنجہ کستا ہے تو پھر اسے اپنے آپ کو سدھارنے و توبہ کرنے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔
جب سے دنیا بنی ہے تب سے انسان شیطانی بہکاوے میں آکر زمین کا خدا بننے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کبھی نمرود، کبھی شداد، کبھی فرعون، کبھی حسن بن صباح کے روپ میں کبھی عصر حاضر کے ظالموں کے روپ میں وہ آتا رہا ہے اور ہر بار اسے خدائے وحدہ لاشریک نے اس کی وقعت و حیثیت کا احساس دلایا۔
کاہنوں کی اس پیشن گوئی کے بعد فرعون مصر میں ہر نومولو لڑکے کو قتل کرتا رہا جو بڑا ہوکر اس کی خدائی کے دعوے کو چیالنج کرکے اس کا خاتمہ کرنے والا ہوگا مگر اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے جسے فرعون صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا تھا وہی بچہ خود اس کے محل میں اس کی آنکھوں کے سامنے پرورش پاتا رہا اور بڑھا ہوکر منصب نبوت سے نوازا گیا اور پھر فرعون اپنے تمام خدائی کے دعوؤں کے ساتھ نیل کے آبی قبرستان میں دفن ہوگیا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے سوتیلے بھائیوں نے گہرے کنوئیں میں پھینک دیا مگر جان لینے والا اور دینے والا تو خدائے بزرگ و برتر ہے اس نے اسی یوسف (علیہ السلام) کو حاکم مصر بنایا۔اور ہاں!حکومت عطا کرنے سے پہلے سب سے حسین ترین خوبصورت ہستی کو مصر کے بازار میں نیلام بھی کروایا۔
ایسے ہزاروں واقعات ہیں‘ آپ اعتراض کرسکتے ہیں کہ پرتیوشا کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ اسلام کو کیوں پیش کیا گیا؟ پرتیوشا ہو یا کوئی اور فرعون ہو یا دور حاضر کا کوئی بھی جلاد سفاک انسان ہر دور میں ایک ہی قانون رہا‘ خدائی قانون۔ ہر دور میں ایک ہی طاقت ہر شئے پر قادر اور غالب رہی اور وہ اللہ رب العزت کی طاقت ہے۔
زلزلے آتے ہیں‘ کئی کئی دن بعد شیر خوار بچے ملبے سے صحیح سلامت زندہ نکل جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اللہ کی عظمت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کچھ لوگ کبھی چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں سونامی اور سیلاب میں بھی خود پانی کی لہریں موجیں یا ان کا بہاؤ ساحل تک پہنچا دیتا ہے۔ کبھی معمولی ٹھوکر جان لیوا ثابت ہوتی ہے تو کبھی سینکڑوں فٹ کی بلندی سے گرکر بھی انسان زندہ رہ جاتا ہے۔ یہ سب خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ ’’ان اللہ علی کل شئی قدیر‘‘۔
زندگی موت ہو یا عزت و ذلت‘ ہر چیز بس اسی کے اختیار میں ہے جو سارے جہاں کا پالنہار ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا تو یہی ایمان ہے‘ اس کے باوجود اکثر و بیشتر ہم اپنی اوقات بھول کر خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر ہمیں اپنے فضل و کرم سے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو ساتھ ہی آزماتا بھی ہے۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ اگر اللہ کی نعمت انسان کو اس کے ظرف کے مطابق نہ ملے تو لعنت بن جاتی ہے۔ اور اس نعمت کا انسان صحیح استعمال نہ کرے تو وہ چھین لی جاتی ہے۔ کبھی یہ نعمت دولت، اقتدار، شہرت کی شکل میں ہوتی ہے۔ نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم شکر ادا کروگے میں اور بھی عطا کروں گا‘‘ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے وارننگ بھی دی ہے ’’ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ اور اگر تم انکار کروگے تو بیشک میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں جس نے غیر منقسم ہندوستان کو اپنی شاہکار فن تعمیر سے حسن و جمال عطا کیا۔ اس نے تخت طاؤس بنوایا تھا جس کی قیمت پانچ سو برس پہلے سات کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اس نے لال قلعہ میں تخت طاؤس کو جس مقام پر رکھا وہ مقام جامع مسجد دہلی کی پہلی سیڑھی سے بھی نیچے تھا۔ لال قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان اس وقت صرف ایک میدان تھا۔ تخت طاؤس پر بیٹھ کر شاہ جہاں نے جو کلمات کہے تھے وہ کچھ اس طرح ہیں‘ اے پروردگار! میں اس تخت پر بیٹھ کر تیری عظمت و کبریائی کا اعتراف کرتا ہوں۔ یہ شاہ جہاں کا خوف خدا تھا جس نے اس کی عظمت کو باقی رکھا۔ پانچ سو برس بعد بھی ان کی تعمیر کردہ عمارتیں شاہکار ہیں۔ اسے دیکھنے کے لئے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور تاریخ میں ان کا نام عزت و وقار کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اور اکبر اعظم کو بھی اللہ نے اقتدار دیا تھا جس کے نشہ میں وہ بہک گیا تھا اس نے دین کو بدلنے کی کوشش کی اور دین الٰہی کی بنیاد ڈالی اور سلام کے کلمات تک بدل دےئے۔ السلام علیکم کی جگہ اللہ اکبر اور وعلیکم السلام کی جگہ جل جلالہ کے الفاظ شامل کئے۔ کیوں کہ اس میں اس کا پورا نام شامل تھا ’’جلال الدین اکبر‘‘۔ اکبر کو بھلے ہی اکبر اعظم کہا جاتا مگر تاریخ میں شاہ جہاں جیسی عزت اور عظمت نہیں ملی بلکہ اس کے مقبرے پر وحشت برستی ہے۔
ایسا ہی حال ان حکمرانوں، سیاستدانوں اور اُن عناصر کا بھی ہے جنہیں خداوند کریم نے اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا تو وہ یا تو خدا کے منکر ہوگئے یا پھر خدا کے بندوں کے لئے اپنی خدائی کا دعویٰ کرنے لگے۔ اپنے رہن سہن اور انداز تخاطب سے وہ دوسرے انسانوں کو اپنے کمتر رعایا نہیں بلکہ اپنے بندے سمجھتے ہیں۔
ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم نہ تو کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ ہی نقصان۔ یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر کیوں تخریبی سرگرمیوں میں اپنی صلاحیت، توانائی اور وقت ضائع کرتے ہیں۔کسی نے کہا ہے کہ خدا کو دو بار بہت ہنسی آتی ہے جب وہ کسی کو کامیابی سے نوازنا چاہتا ہے اور دنیا اس کامیابی سے روکنا چاہتی ہے۔ دوسری بار جب وہ کسی کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اور دنیا اسے سرپر بٹھانا چاہتی ہے۔ ہم نہ تو کسی کی زندگی کا کوئی پل چھین سکتے ہیں اور نہ رزق کا ایک دانہ، نہ اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اگر انسان ناکام ہوتا ہے تو یا اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی ناکامیاں بھی کامیابی کا زینہ بن جاتی ہیں بشرطیکہ انسان اپنی ناکامیوں، کمزوریوں کا محاسبہ کریں۔ جب ہم کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے تو خواہ مخواہ کوشش کرکے آخر کیوں گنہگار بنتے ہیں۔ کسی کی لاکھ مخالفتوں اور سازشوں و کوششوں کے باوجود انسان ترقی کرتا ہے اور مخالفین کے بارے میں ہمیشہ کے لئے غلط تاثر ذہن پر مرتب ہوجاتا ہے۔ اس کی بجائے اگر ہم کسی کی کامیابی اور ترقی میں اپنا رول ادا کریں تو کامیابی او رترقی بہرحال خدا ہی عطا کرتا ہے ساتھ ہی مثبت اور تعمیری رول ادا کرنے والے انسان سے متعلق اچھے تاثرات مرتب ہوجاتے ہیں۔اپنی صلاحیتوں کو خدارا منفی سرگرمیوں میں صرف نہ کیجئے۔ کیوں کہ جب ہم منفی سرگرمیوں میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ ناکامی ہم میں ذہنی انتشار پیدا کرتی ہے اس کا اثر گھر، دفتر، سماج، ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہمیشہ مثبت اور تعمیری افکار و خیالات کے ساتھ کام کیجئے ہمیشہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچئے ممکن ہوسکا تو عملی طور پر ساتھ دیجئے۔ دوسروں کا ساتھ دے کر اس کی کامیابی اور ترقی میں اپنا رول ادا کرکے جو قلبی طمانیت، ذہنی سکون اور خوشی آپ کو ملے گی وہ انمول رہے گی۔ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کے کام آئے گی۔ یہاں تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ آپ کے لئے پیش ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام راستے سے گزر رہے تھے کہ ایک پتھر کے رونے کی آواز آئی۔ آپ رک گئے پتھر سے پوچھا تو کیوں رورہا ہے؟ پتھر نے جواب دیا اس خوف سے کہ کہیں قیامت میں مجھے جہنم کا ایندھن نہ بنادیا جائے۔وہ تو پتھر تھا ہم اشرف المخلوقات‘ خیر امت‘ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جنہوں نے زخموں سے چور اور لہو لہان کردینے اہل طائف کے لئے بھی دعائے خیر فرمائی۔ ہم کیوں کسی کی ترقی، کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کیوں بہتان طرازی، الزام تراشی سے کسی کی کردارکشی کرتے ہیں۔ کیوں اپنی دنیا و آخرت برباد کرتے ہیں یاد رکھئے: کوئی کسی کا لاکھ برا چاہے کچھ ہونے والا نہیں۔ بقول شاعر:
حفاظت جس سفینہ کی انہیں منظور ہوتی ہے
کنارے تک اسے لاکر خودطوفاں چھوڑ جاتے ہیں

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے