گمراہ کن تعلیمی نظام اور کاروباری تعلیمی ادارے

دیہی علاقوں میں بھی لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اسکولس شروع کئے گئے۔ پہلے اسکول،طلبا اور پھر اساتذہ کا انتظام کیا جاتا تھا۔کئی سکنڈری اسکولس کو Trainedاساتذہ آسانی سے دستیاب نہیں تھے۔Trainedٹیچرس فراہم کرنے کی کوشش شروع ہوئی، اس کے بعد 1990تک مہاراشٹرمیں نئے سکنڈری اسکولس کی تعداد کافی بڑھ گئی۔1991کے بعد مہاراشٹر میں تعلیم اداروں کا روپ تبدیل ہوا۔سال2000 تک سکنڈری اسکولس کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا۔1985کے قریب اس وقت کے وزیر اعلیٰ وسنت دادا پاٹل نے Non Grant کی بنیاد پر اسکولس کو Permission دینے کا رواج شروع کیا، شروع میں میڈیکل اور انجنیئرنگ کے اداروں کوNon Grant کی بنیاد پر کالجیس شروع کرنے کی اجازت دی گئی ،مگر اس کے بعد Non Grantکار واج زور پکڑتا گیااور کا لجوں کے ساتھ ساتھ سکنڈری اسکولس،ڈی ایڈ، بی ایڈ کالجوں کوبھی Non Grandکی بنیاد پر پرمشن دینے کا عجیب اور غریب سلسلہ چل پڑا۔موجودہ سکنڈری اسکولس میں پوری تنخواہ لینے والے،ادھوری تنخواہ لینے والے،Non Grant اسکولس میں میں تنخواہ نہ لینے والے ایسے مختلف قسم کے ٹیچرس نظر آتے ہیں۔

گذشتہ ۰۱ سالوں میں بیشمار کاروباری ادارے وجود میں آے ہیں۔کیچھ سیاسی لیڈروں نے اسکولس اور کالجیس شروع کرنے سے الیکشن میں انھیں آسانی سے Man powerدستیاب ہوتا ہے، اور ووٹ خریدنے کے لئے ان سے روپئے بھی مل جاتے ہیں، اسلئے سیاسی لیڈراب تعلیمی فیلڈ میں داخل ہوگئے ہیں۔شعبہء تعلیم میں روپئے کے ساتھ ساتھ عزت بھی ملتی ہے اسلئے یہ تعلیمی شعبہ کاروباری بنتا گیا۔اب تعلیمی ادارہ چلانا کھلم کھلا کاروبار بن گیا ہے۔صرف Grantedاسکولس ہی نہیں بلکہ Non granted اسکولس میں ملازمت کے ئے بڑے پیمانے پر روپئے کا لین دین کیا جاتا ہے۔ملازمت کے لئے خالی آسامیاں کم اورڈی ایڈ ، بی ایڈ والوں کی تعداد زیادہ، جس سے بے روزگاری کی شرح ہر سال بڑھتی ہی جارہی ہے۔

مہاراشٹر میں کم و بیش 5000 ہزار تعلیمی ادارے موجود ہیں اور ان اداروں کے ماتحت چلنے والے قریب ۴۱ ہزار سے زیادہ سکنڈری اسکولس میں ۳ لاکھ سے زیادہ ٹیچرس اور دیگرملازمین کام کررہے ہیں۔رشوت دے کر برسر روزگار اور رشوت نہ دے کر برسرروزگار یہ دو قسم کے ٹیچرس اور ملازمین نظر آتے ہیں۔موجودہ GrantedاورNon Granted اسکولس اور انگریزی اسکولس میں برسر روزگار ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے رشوت دے کے ہی نوکری حاصل کی ہے، پھر نفسیاتی طور پر ایسے ٹیچروں کا طلبا ء کی جانب رجحان ،تعلیم دینے کا انداز اور سوچنے کے انداز میں کا فی تبدیلی نظر آتی ہے اور اگر ان کا موازنہ پرانے ٹیچروں( پرا نے سے مطلب وہ ٹیچرس جنھیں بنا رشوت دئے نوکری ملی ہو) سے کیا جائے تو ان دونوں میں کافی فرق نظر آئے گا۔

1960سے1990 تک جن لوگوں نے ٹیچر کے پیشے کو اپنایا انھوں نے تعلیم کو عام کرنا اور سماج میں تعلیم کے ذریعے انقلاب پیدا کرنے کو اپنا مقصد بنایا۔DonationاورRelationاوران سے ہونے والا Selectionسے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں۔اسکول کالج میں نوکری ملنے پر اچھا پے اسکیل ملتا ہے اسلئے کمرشیل شعبوں کی بہ نسبت تعلیمی شعبوں میں کافی بھیڑ نظر آتی ہے، روپئے دے کر ڈی ایڈ، بی ایڈ ڈگری حاصل کرنا، روپئے دے کر نوکری حا صل کرنا، اور نوکری کو قا ئم رکھنے کے لئے جس وقت بھی اور جو بھی وجہ ہو ،ادارے کے منتظمین کو روپئے دینا،ایسی عجیب و غریب کیفیت نئے ٹیچرس کی ہوئی ہے۔

تعلیم کے تعلق سے حکومت اپنا دامن بچا رہی ہے،گمراہ کن منصوبوں کی وجہ سے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کررہی ہے، بی ایڈ، ڈی ایڈ کے کالجوں کو نئے سرے سے Recognition دینے کی پالیسی غیر منصونہ بند اور گمراہ کن بن گئی ہے۔جن تعلیمی ادارو ں کو ڈی ایڈ اور بی ایڈ کی Permission دی جارہی وہ اس کے اہل نہیں ہیں، یہ بات کافی غور طلب ہے،اس کا حل نکالنا بے حد ضروری ہے۔

سپریم کورٹ نے Professional Education کے تعلق سے فیصلہ دے دیا ہے، فی الحال بی ایڈ کے امتحان کو Professionalقرار دیا گیا ہے جو تین سال قبل Professional نہیں تھی، روپئے بٹورنے کے لئے بی ایڈ سی ای ٹی شروع ہوئی، بی ایڈ کے لئے سی ای ٹی کا امتحان لینا ایک لطیفے سے کم نہیں۔اگر کوئی طالب علم ایم بی بی ایس پاس کرتا ہے تو وہ اسپتال شروع کرسکتا ہے مگربی ایڈ امتحان پاس کرنے والا اسکول کی بنیاد یا اسکول شروع نہیں کرسکتا،وہ ٹیچر کی نوکری تلاش کرتا ہے، بی ایڈProfession نہیں ہے بلکہ یہ تربیت ہے۔مگر اس طرح کی بات سرکاری آفیسر انتظامیہ کو بتا کر گمراہ کن منصوبوں کو نافذ کیا جاتا ہے۔بی ایڈ سی ای ٹی کا امتحان شروع ہونے سے اس امتحان میں بیٹھنے والے لاکھوں بچوں کے والدین کے کڑوڑوں روپئے برباد ہونے والے نہیں ہے بلکہ اسے لوٹ Lootلیا جائے گا۔بی ایڈ کے لئے امیروں کے بچے نہیں آتے بلکہ غریبوں کے بچے آتے ہیں، بی ایڈ کے بعد نوکری گیارنٹی اور تنخواہ کی گیارنٹی نہیں۔کئی سالوں تک تنخواہ نہیں ملتی۔ امیروں کے بچے یہاں کیوں آئے؟اس گمراہ کن تعلیمی نظام نے غریب بچوں کو پریشان کررکھا ہے، غریبوں کو تعلیم اور روزگار سے دور رکھنے کی سازش شروع ہوچکی ہے، اہل اقتدار کو چاہئے کہ وہ اس طرف سنجیدگی سے توجہ دیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے ممبئی اور مضافات میں اسکولوں کے قیام میں تیزی آگئی ہے اور ممبئی بھی اب پونہ کی طرح تعلیم کا گہوارہ بنتے جارہا ہے۔نئی ممبئی پر ملک پر کے والدین کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ اس شہر میں میڈیکل اور انجینئرنگ تعلیمی اداروں کا جال پھیلتے جارہا ہے۔کئی پرائیویٹ نامور اداروں نے اپنے یونیورسٹیوں کی شاخیں شروع کی ہیں۔جس کی وجہ سے مختلف ریاستوں کے طلباء یہاں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آرہے ہیں۔مگر بیرونی ریاستوں کے طلباء کا ایڈمیشن کے نام پردھوکا دہی کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔اس طرح کے کئی معاملات منظر عام پر آچکے ہیں۔اس تعلق سے کچھ گروپ اس تعلیمی بازار میں سرگرم نظرآرہے ہیں جو کالج کے ملازمین سے رابطہ میں ہیں، جس کی مدد سے یہ اپنا ریکٹ چلا رہے ہیں۔گزشتہ نئی ممبئی کے ایک 

مشہور میڈیکل کالج میں اس طرح کے ایک ایڈمیشن ریکٹ کا پردہ فاش ہوا ہے جو والدین سے لاکھوں روپئے بٹور نے کے باوجود ایڈمیشن بھی نہیں کرواتے تھے۔اس کالج کے اسٹاف نے ایڈمیشن کے نام پر کم و بیش ۴۰ لاکھ روپئے تک کی رقم جمع کرلی تھی۔

اسی طرح دو اور والدین سے ایڈمیشن کے نام پر ایک کروڑ روپئے لوٹ لیے۔اس ریکٹ نے پونہ می بھارتیکالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ دینے کی بات کرکے دھوکا دہی کی گئی۔اسی طرح نیرول میں تیرنا کالج میں ایڈمیشن کے نام پر کئی لوگوں کو کروڑوں روپئے کا چونا لگایا گیا۔میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلے کیلئے طلباء کے والدین کو موبائل پر ایس ایم ایس یا پہچان کے معرفت اس طرح کا جال بچھا یا جاتا ہے اور ان کا اعتماد حاصل کرکے ایڈمیشن کیلئے ڈونشین کے نام پر ایک بڑی رقم حاصل کی جاتی ہے۔یہ تمام لین دین پس پردہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس تعلق سے کوئی تحریری ثبوت حاصل نہیں ہوتا۔پھر ایڈمیشن لینے والے اپنی رقم Black Moneyکی دیتے ہیں جس سے شکایت کرنے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔

بچوں نے تعلیم حاصل کرکے ذمہ دار شہری بننا چاہیے ، اس لیے کئی لوگوں نے اپنے زندگی بھر کی جمع پونجی ایڈمیشن کے نام پر ہونے والی دھوکا دہی میں گنوانی پڑی۔دیگر جرائم کے مقابلے میں اگر اس جرم کا تناسب بھلے کم ہو مگر اس تعلق سے ہونے والی دھوکا دہی کرکے لوٹنے کی رقم کروڑوں میں ہوتی ہے۔اس طرح کی جو ٹولیاں سرگر م ہیں ان کے تعلقات تعلیمی اداروں کے انتطامیہ تک ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے پولس کو کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔

ان بدلتے حالات میں اسکول ، کالج ایک مقدس جگہ نہ ہوکر اب وہ جدوجہداور استحصال کا مرکز بن گئے ہیں۔تعلیم اب دیگر کاروبار کی طرح ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔تعلیم اب ذکر کی بجائے فکر کا سبب بنی ہے۔اگراہل اقتدار ،مفکر، مدبر اور سماجی خدمتگار اس جانب عدم توجہی کا مظاہرہ کریں تو یقیناًحالات بد سے بتر ہوجائینگے اور تاریخ کبھی انھیں معاف نہیں کرے گی۔بلکہ این جی اوز نے بھی اس کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔(

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے