موبائل فونس کے عام ہونے کے بعد ہم فون نمبرس کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھنے کے عادی نہیں رہے۔ اس کے علاوہ ہمارا موبائل ہمارا سب کچھ ہے۔ کیمرہ، البم، لائبریری، ہمارا ماضی‘ حال اور مستقبل بھی ہے۔ اس موبائل فون میں شہلا فاطمہ کے ایم بی بی ایس کے تمام ساڑھے چار برسوں کا ریکارڈ محفوظ تھا۔ لائیو سرجری کی ریکارڈنگ بھی اسی میں محفوظ تھے۔ اس طرح ایک موبائل فون کے کھوجانے کا نہیں بلکہ ماضی کے پانچ برس یادداشت سے حذف ہوجانے کا افسوس ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ فیملی کے یادگار تصاویر بھی اس میں محفوظ ہیں۔ اب اسے عادت کہئے یا فیشن کہ ہم ہر گھڑی دو گھڑی ہر واقعہ کو اپنے موبائل کے کیمرے میں قید کرلیتے ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہونے لگا کہ خدا نخواستہ کسی غلط ہاتھ کو یہ موبائل لگ جائے تو ان تصاویر کا غلط استعمال بھی کرسکتا ہے۔ موبائل میں محفوظ کنٹیکٹ نمبرس پر ربط پیدا کرکے تنگ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے کئی وسوسے، اندیشے اور عجیب عجیب سے خیالات کی یلغار ہوتی رہی۔ شب برأت تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد گھر واپس ہوا ہی تھی کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب کوئی اجنبی صاحب تھے انہوں نے خوشخبری سنائی کہ میری بیٹی کا فون ان کے پاس ہے جسے ان کی کمسن لڑکی ڈاکٹر وی آر کے ہاسپٹل سے اپنے ساتھ لے آئی۔ انہوں نے کنٹیکٹ سے میرا نمبر نکالا اور مجھے فون کیا تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ دوسرے دن یعنی 3؍جون کو ان کی اہلیہ یہ فون ڈاکٹر شہلا فاطمہ کے ہوا کردیں گی۔ اور وعدے کے مطابق ان صاحب کی اہلیہ نے شہلا فاطمہ کو فون واپس کردیا۔ میں نے فون پر اپنی بیٹی سے تفصیلات جاننی چاہی تو اس نے بتایا کہ جس خاتون نے فون واپس کیا وہ ہاسپٹل آنے والے تمام مریضوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ فیشن ایبل اور انگلش اسپیکنگ تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی لڑکی بھی تھی جس کی عمر 14برس کے لگ بھگ ہوگی۔ میری بیٹی نے بتایا کہ فون واپس کرنے کا انداز جارحانہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بادل ناخواستہ اس خاتون نے فون واپس کیا ہے اور اس نے بڑے فخر کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ فون ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلے اس کا سم کارڈ نکال لیا تھا۔
میں نے اس خاتون کے شوہر کو موبائل پر شکریہ کا میسیج بھیجا اور ان سے رسمی طور پر یہ بھی پوچھا کہ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور فرمائیں۔ ان کا جوابی میسیج بڑا چونکا دینے والا ہے‘ جسے پڑھ کر پورا معاملہ سمجھ میں آگیا اور تصور کے پردہ پر گذشتہ کل ان کے گھر میں ہونے والے واقعات کی پرچھائی نظر آنے لگی۔ ان کا جوابی پیغام تھا ’’بس دعا کریں کہ اللہ میری اولاد کو نیک ہدایت دے‘‘۔
یہ صاحب یقیناًایماندار انسان ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا ہوگا کہ ان کی بیٹی کے پاس کہیں سے موبائل فون آگیا ہے تو ایک ذمہ دار باپ کی حیثیت سے انہوں نے اس سے متعلق پوچھا گیا۔ اِن دنوں لڑکیوں کو بوائے فرینڈس کی جانب سے موبائل فونس مل جاتے ہیں جنہیں وہ اپنی سہیلی کا فون بتاکر گھر والوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ صاحب موصوف نے بھی پہلے یہی سمجھا ہوگا اور جب سختی کی ہوگی تو ان کی اہلیہ یعنی موبائل فون لانے والی لڑکی کی ماں نے اصل ماجرا سنایا ہوگا کہ کس طرح سے فری میڈیکل کیمپ سے یہ موبائل فون لایا گیا یا وہاں انہیں مل گیا۔ صاحب نے یہ بھی پوچھا ہوگا کہ جب یہ فون ملا تھا تو اس کا سم کارڈ کیوں نکالا گیا۔ اور اس بات پر یقینی طور پر میاں بیوی میں جھگڑا بھی ہوا ہوگا۔ عام طور پر بیویاں مفت آئے ہوئے مال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یہ بیویاں ہی ہوتی ہیں جن کی ناجائز فرمائشوں، رشتہ داروں اور سوسائٹی کی دوسری خواتین سے مسابقت کی خاطر اپنے شوہروں کو حرام اور ناجائز طریقہ سے دولت کمانے کے لئے مجبور کردیا۔ اپنی خواہشات کے لئے وہ حرام کو حلال ثابت کرنے کی تاویلات پیش کرتی ہیں۔ بیشتر شوہر گھر کے سکون کی خاطر حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں بیوی بچوں کی خواہشات کی خاطر غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور کبھی کبھی یہ راستہ جیل پر ختم ہوتا ہے۔ بہرحال اس واقعہ میں شوہر صاحب ایک مضبوط کردار کے انسان ہیں۔ انہوں نے بیک وقت اپنی بیوی اور بیٹی کو سبق دیا۔ اگر خاموشی اختیار کرلیتے تو 14سالہ لڑکی اس قسم کے حرکات اور سرگرمیوں کی عادی ہوجاتی اور پھر یہ سلسلہ رکتا نہیں۔ شاپنگ کے بہانے قیمتی اشیاء کے سرقے میں تعلیم یافتہ لڑکیاں ملوث ہیں۔ گناہ اور جرم کی راہ ابتداء میں بڑی آسان لگتی ہے۔ اس لئے اس پر چلنے والے دوڑنے لگتے ہیں پھر ہم خیال عناصر کے گروپس بن جاتے ہیں جو بڑے پیمانے پر جویلری شاپس، شاپنگ مالس، اور کبھی کبھار فنکشن ہالس میں اپنے ہاتھ کے صفائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تو اتفاق ہے یا اس لڑکی کی خوش قسمتی کے وقت پر اس کے باپ کو پتہ چل گیا۔ ورنہ ماں کا رویہ اسے مجرمانہ روش پر چلنے کے لئے مجبور کرتا۔ یہ مائیں ہی ہیں جو اپنی اولاد کی تباہی و بربادی کی ذمہ دار بنتی ہیں۔ کہتے ہیں ماں کی گود پہلی درسگاہ اور درستگاہ ہوتی ہے۔ اگر ابتداء ہی سے مائیں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر کڑی نظر رکھے ان کی ہر غلط حرکت پر روک ٹوک کرے، سختی کرے تو ان میں سدھار ہوگا جب ٹہنی نازک ہو تبھی اسے موڑ لینا چاہئے ورنہ ایک عمر کو پہنچنے کے بعد بچے قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ جب ہم اپنوں اور پرایوں کی نظروں سے گرنے لگتے ہیں تو جب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ذرا سی غفلت معمولی سی ڈھیل نے ایک طرف ہمارے اپنے وجود کو بے معنی کردیا ہے وہیں اپنے بچوں کے مستقبل کو غارت کردیا ہے۔ بچپن میں ہم نے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک لڑکا پہلی بار کسی کی اٹھنی چراکر گھر لے آیا ماں کو پتہ چلا تو پہلے اس نے ڈانٹا جب بچے نے اٹھنی واپس کردینی چاہی تو ماں نے اس سے کہا اب کرلیا سو کرلیا آئندہ نہ کرنا۔ اور اس نے وہ اٹھنی اپنے پاس رکھ لی۔ کچھ دن بعد اس لڑکے نے اپنے محلے کے کسی گھر سے ایک قیمتی شئے چرائی اور اسے اپنی ماں کو پیش کیا ماں نے محبت آمیز لہجہ میں اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تو سدھرے گا نہیں۔ اور اس قیمتی شئے کو اپنے صندوق میں رکھ لیا۔ وقت گذرتا گیا لڑکا جوان ہوا تو اپنے علاقہ کا سب سے مشہور ڈاکو بن گیا۔ ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران اس نے کئی قتل بھی کردےئے۔ آخر کار جب وہ پکڑا گیا تو عدالت نے اسے قتل اور ڈکیتی کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ پھانسی پر چڑھانے سے پہلے روایت کے مطابق اس سے آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے ایک قینچی مانگی اور اپنی ماں سے ملاقات کی خواہش کی۔ ماں سامنے آئیں بیٹے کو پھانسی کی سزا پر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ بیٹے نے کہا ماں ذرا اپنی زبان نکالو۔ جیسے ہی ماں نے زبان نکالی بیٹے نے اسے قینچی سے کاٹ دیا۔ اور کہا اگر تم میری پہلی غلط پر روکتیں ٹوکتیں ڈانٹتیں تو آج میں پھانسی پر نہیں چڑھتا۔
آج ہمارے اپنے گھر میں ہمارے اطراف کے ماحول میں ایسی کتنی مائیں ہیں جن کی زبانیں کاٹ دےئے جانے کے قابل ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی زبان چلائیں یا ہلائیں تو صرف شوہر سے لڑنے کے لئے یا فرمائش کے لئے ۔انہوں نے اپنے بچوں کی غلطیوں پر ان کی روک ٹوک نہیں کی۔ اور نہ ہی اپنے بچوں کے گناہوں یا جرائم سے اپنے شوہر کو آگاہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں تعلیم یافتہ لڑکے اپنے شوق کی تکمیل کے لئے جرائم اور گناہ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ خواتین کے گلوں سے زنجیریں چھین رہے ہیں موبائل فونس، لیاب ٹاپس چرا رہے ہیں۔ اے ٹی ایم لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی غلط ہاتھوں میں پڑ کر پوری طرح سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ کبھی جیل کی ہوا کھالے تو وہاں سے جرائم کی سند لے کر نکلتے ہیں اور پھر اپنے گھر اپنے سماج کے ماتھے پر کلنک بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات آنے سے پہلے ہم سنبھل جائیں، اپنے بچوں کے عادات و اطوار پر نظر رکھیں۔جو اشیاء آپ نہیں دلاتے اگر وہ ان کے پاس نظر آئے تو آپ اس کا پتہ چلائیں اگر وہ کہے کہ یہ کسی دوست یا سہیلی کا ہے تو اس کے ماں باپ سے اس کی تصدیق کریں کیوں کہ کوئی بھی دوست کوئی بھی سہیلی عمر کے اس حصے میں اتنی قیمتی اشیاء نہیں دیتیں۔ اگر ہم روک ٹوک نہ کریں گے تو تصور کریں اپنے بچوں کو قیدی کے لباس میں جیل کی کوٹھری میں دیکھ رہے ہیں۔(یو این این)
جواب دیں