غریبوں کا کوئی مذہب نہیں

کئی ایسے بھی ہیں جو اپنی پہچان نہیں چھپاتے انہیں دیکھ کر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں ۔ لیکن یہ اللہ کے نام پر مانگ رہے ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا چلتے پھرتے پیشیہ ور مانگنے والوں کو جن سے آپ واقف نہیں ہیں کہ یہ مستحق ہیں یا نہیں صدقہ ، فطرہ اور زکوۃ کی رقم دینا صحیح ہے یا نہیں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہمارے ملک میں بھیک مانگنا قانون جرم ہے لیکن کیا آپ نے کوئی جگہ ایسی دیکھی ہے جہاں بھکاری نہ ہوں ، مسجد ، مندر ، مٹھ ، درگاہ ، گرجا گھر ، بڑے بازار ، چوراہے ، ریڈ لایٹس ، بس اسٹاپ اور ریلوے اسٹیشن ۔ حد تو یہ ہے کہ چلتی ٹرین میں بھی رہ عہ کر کسی نہ کسی بھکاری کی سدا گونجتی رہتی ہے ۔ٹرینوں میں مانگی جانے والی بھیک میں پولس کی منشاء شامل ہوتی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ریل میں بنا ٹکٹ سفر کے لئے جرمانہ بھرنے والوں میں بڑی تعداد بھکاریوں کی پائی گئی ہے ۔ بھکاریوں کی حرکتوں سے کئی مرتبہ آپ کو جھنجھلاہٹ ہوئی ہوگی ۔ آپ اپنے مکان کی بالکنی میں موبائل پر بات کررہے ہیں تبھی کوئی بھکاری چیختا ہوا گلی میں داخل ہوتا ہے ۔ آپ اسے منع بھی کرنا چاہیں تو وہ آپ کی بات نہیں سنتا ۔ آپ ہی کو پریشان ہو کر موبائل بند کرناُ پڑتا ہے ۔یہ تجربہ اکثر غیر منظور شدہ کالونیوں میں ہوتا ہے ۔ دکان یا کسی ٹھیلہ سے کچھ خریدنے یا رکشا ، آٹو کا کرایہ دینے کے لئے جوں ہی جیب سے پیشے نکالے یا سڑک پر کھڑی کار میں بیٹھنے کے لئے دروازہ کھولا آپ کو مانگنے والے کا سوا ل سنائی دیگا ۔دے دے اللہ کے نام پر ،بھگوان کے نام پر، کھانا کھانا ہے ، آٹا لینا ہے ، بچے کو دودھ پلانا ہے وغیرہ آپ انہیں کھانا کھلانا چاہیں یا کھانے کی کوئی چیز دینا چاہیں تو یہ جلدی سے نہیں لیتے انہیں پیسے چاہےئے ۔سب کو کام نہ ملنا اور غریبوں کی تعداد میں بڑھوتری سے یہ پریشانی کل اور بھیانک شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے نمونے چھین جھپٹ کی صورت میں سامنے آرہے ہیں ۔

بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اچھی کمائی کے لئے مانگنے والوں کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے بھیک مانگنے منگوانے کے پیچھے سفید پوش بھی شامل ہیں جو بچوں کو اغوا کراکر انہیں اپاہیج بنا کر ان سے بھیک منگوانے کا کام لیتے ہیں یہ بچے غریب و دلت بستیوں چھوٹے قصبات وگاؤں دیہات سے اغوا کئے جاتے ہیں آپ نے ایسی عورتوں کو دیکھا ہوگا جو کسی بچے کو گود میں لئے دودھ کی بوتل دکھا کر پیسے مانگتی ہیں لیکن بچہ کوآپ نے کبھی جاگے یا روتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا وہ ہمیشہ سونے کی حالت میں ہی رہتا ہے مجھے یہ جان کرحیرت ہوئی کہ یہ مانگنے والی عورتیں بچہ کو کرائے پر لاتی ہیں انہیں کھلا پلا کر نشہ آور اشیاء سنگھا دی جاتی ہے جو شام تک انہیں مدہوش رکھتی ہے یہ لوگ غریب کم بھیک منگوانے والے گروہ کے ملازم زیادہ ہوتے ہیں ۔ انہیں صبح ٹرک یا ٹیمپو سے بھیک مانگنے کی جگہوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور شام کو واپس ان کے ٹھکانے پر پہنچا دیا جاتا ہے کوئی بھی سرکار بھیک مانگنے والوں کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھا سکی ہے اور نہ ہی اس برائی کو دور کرنے کے لئے کوئی پہل کی گئی ہے ۔
مسلمانوں کی زکاۃ ، فطرہ اور صدقات پر ایک اور طبقہ ہے جو بڑی چالاکی و صفائی سے ہاتھ صاف کرتا ہے یہ ہے مدارس کے مولویوں ( سفراء ) کا گروہ جو مقامی غریبوں ، مسکینوں ، محتاجوں اور ضرورت مندوں کا حق مار لے جاتا ہے ۔رمضان میں ہر فرض نماز کے بعد سفراء کی اپیل سنائی دیتی ہے کئی سفرا ء کے لئے تو مسجد کے ممبر سے بھی اپیل کی جاتی ہے ویسے سال بھر یہ چندہ جمع کرنے میں لگے رہتے قرآن میں زکوۃ کی جن مدوں کا زکر کیا گیا ہے ان میں مسجد ، مدرسہ شامل نہیں ہے تاریخ اسلام سے بھی کوئی ایسی سند نہیں ملتی کہ دینی تعلیم کی مد میں زکوۃ کا پیسہ خرچ کیا گیا ہو ۔اس کے با وجود یہ دین کے جانکار قوم کو گمراہ کرکے زکوۃ کی رقومات مدارس کے لئے لے جاتے ہیں اور مقامی ضرورت مند جن کا وہ حق ہے محروم رہ جاتے ہیں ۔ زکوۃ کو مال کی گندگی کہا گیا ہے اس کو نکالنے سے مال پاک و صاف ہو جاتا ہے جن کا حق ہے ان کے لئے یہ حلال ہے باقی کے لئے گندگی ۔ اور گندگی ہمیشہ فساد کا باعث بنتی ہے ۔مسلمانوں کی صفوں میں جو فساد ہے اس کی ایک وجہ زکوۃ کا غلط استعمال بھی ہے ۔اس کے اثرات صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔تمام بڑے مدارس دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں یا ان کی دو منتظمیہ کمیٹیاں بن چکی ہیں دونوں اپنے آپ کو اصل ثابت کرنے کے لئے عدالت تک پہنچ جاتے ہیں ۔ زکوۃ و فطرہ کی رقم مقدمات یا سیاسی اغراض کے لئے خرچ ہوتی ہے ۔انتظامیہ کے لوگ اپنی شکم پوشی پر فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں اور کہتے یہ ہے کہ ہمارا پورا وقت مدرسہ و دین کے لئے وقف ہے تو ہمارے خرچ کی ذمہ داری بھی مدرسہ یا قوم کی ہے جو سفراء چندہ کرنے آتے ہیں 30سے 50فیصد اس چندہ میں ان کا حصہ ہوتا ہے کچھ زیادہ بڑی چھلانگ لگانے والے غیر ملکوں سے بھی ہاتھ مار لاتے ہیں ۔ مدارش کے سروے کے دورا ن معلوم ہوا کہ کتنے مدرسے صرف رسید بک تک ہی محدود ہیں جو چندہ جمع کرنے و سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لئے اپنے رسوخ سے بڑے مدارس یا شخصیات سے تصدیقی خط حاصل کر لیتے ہیں ۔
ملک کی بڑی آبادی غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اٹل بہاری واجپئی نے بحیثیت وزیر اعظم یونائیٹیڈ نیشن میں 2015تک ملک سے غریبی دور کرنے کے حلف نامہ پر دستخط کئے تھے یونائیٹیڈ نیشن نے پوری دنیا سے غریبی اور بیماری دور کرنے کے لئے ملینیم ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا تھا یہ عہد نامہ اسی کی ایک کڑی تھی ۔اسی کے تحت وزیر اعظم روزگار یوجنا اور بی پی ایل کی اسکیم شروع کی گئی تھی ۔ غریبوں کو اس کا فائدہ کتنا ملا یہ جائزہ لینے سے معلوم ہوگا لیکن بڑا حصہ سرپنچ ، ٹھیکہ دار اور سرکاری افسران اڑا لے گئے ورنہ ہمارے ملک کے لوگوں کی یومیہ آمدنی بنگلہ دیش ، پاکستان اور شری لنکا کے لوگوں سے کم نہ ہوتی ۔بھکمری و غربت کے شکار لوگوں کی تعداد بھی ہمارے یہاں پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے ۔

یہ مانا جاتا ہے کہ غریب لوگ اپنے مذہب اور رسم و رواج میں گہرا یقین رکھتے ہیں۔ پریشانی ، بھوک اور تکلیف میں یہی وہ چیز ہے جو انہیں دلاسہ دیتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذہب کے نام پر انہیں ورغلانا آسان ہوتا ہے ۔غریبی دور ہونے کے لالچ میں ہی یہ گھر واپسی جیسی تحریکوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔مجبوری انسان کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے اور وہ اپنے مزاج کے خلاف کام کرنے کو بھی مجبور ہو جاتا ہے اسلام نے سماج میں مالی توزن قائم کرنے و دولت کی تقسیم کے لئے زکوۃ کو فرض قرار دیا قرآن میں اس کا زکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے جس طرح نماز جماعت کے بغیر بے معنی ہے اسی طرح زکوۃ کا سماج کو فائدہ اجتماعی نظام کے بغیر ملنا مشکل ہے ۔ہمارے ملک میں زکوۃ ، فطرہ اور صدقہ انفرادی طور پر ادا کرنے کی روایت ہے اسی لئے یہ انتہائی بڑی رقومات خرد برد ہو جاتی ہیں اور مستحقین تک نہیں پہنچ پاتی اس کی وجہ سے سماج میں موجود غریبوں کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
اگر زکوۃ کو صحیح طریقہ سے خرچ کیا جائے تو چند سالوں میں کئی غریب زکوۃ لینے سے انکار کرنے کی حالت میں آجائیں گے اس کے لئے ہر محلہ میں بیت المال قائم کرنا ہوگا ۔ اس محلہ کے تمام صاحب خیر حضرات اپنی رقومات اس میں جمع کرائیں ساتھ ہی اگر ان کی معلومات میں کوئی مستحق ہو تو اس کا نام بھی بیت المال کے ذمہ داروں کو دے دیں بیت المال کے ذمہ دار اپنے طور پر تحقیق کریں اور دوسرے مستحقین کو تلاش کریں ہو سکتا ہے کہ کوئی ضرورت مند اپنی خود داری کی وجہ سے سامنے آنے سے بچے اس کو بھی تلاش کرنا ہوگا ۔پھر ان کی ضرورت کے مطابق وظیفہ جاری کیا جائے یہ کام آسان نہیں ہے لیکن نا ممکن بھی نہیں ہے اپنے محلہ کی حالت کو سدھانے کے لئے یہ کرنا ہی ہوگا اس میں سب سے بڑی رکاوٹ دین کے ٹھیکدار بنیں گے اس کا بھی دھیان رکھنا ہوگا لیکن قوم کی حالت اسی سے طرح سدھر سکتی ہے ۔
کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلم محلوں ، درگاہوں یا مسجدوں کے باہر غیر مسلم مانگنے والوں کو بھیک نہیں دینی چاہئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی مندر ، گرجا یا گرودوارے کے باہر کوئی مسلمان بھیک نہیں مانگتا اور نہ اسے وہاں کوئی بھیک دیتا ہے ۔قرآن میں یتیم ، مسکین ، محتاج ، نادار یا بے سہارا لوگوں کا جہاں بھی ذکر آیا ہے وہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ وہ مسلمان ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت اور صوفیاء کے عمل سے کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے کسی کی مدد کرتے وقت یہ پوچھا ہو کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں ۔زکاۃ کی مدو میں ایک مد مو الفتل القلوب بھی ہے جس کا مطلب ہے قلب نرم کرنے کے لئے پیسہ کا خرچ کرنا ۔جائزے سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ غربت اور غریب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ان کے حالات کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔

«
»

کیا گرداس پور کا واقعہ آخری فیصلہ کیلئے کم ہے؟

نتین یاہو: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے