آج ہر جگہ ماتحتوں کو ’’use and thuro‘‘(استعمال کرو اور پھینک دو ) والی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے ، ہر ماتحت پنے باس ، امیر اور سرپرست سے نالاں اور شکوہ کناں ہے ، استعمال ضرور کیجئے ، استحصال سے پرہیز کیجئے ، کسی کا کمزور ، ناتواں اور غریب ہونا آج کی دنیا میں بالکل معیوب اور حقیر تر چیزہے ، مال کی تقسیم یہ تو اللہ کا نظام ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے اس سے نوازتا ہے ، اگر دولت کا حصول عقل ودانش کے بل پر ہوتا تو کوئی بیوقوف ہر گز دولت نہ ہوتا ، از بس یہ خدا کی دین ہے،یہ انسان کے لئے ذریعہ امتحان ہے ، اگر امیر وغریب کا فرق نہ ہوتا تو یہ کارخانۂ حیات اس طرح رواں دواں ہرگز نہ ہوتا، صرف پیسوں اور روپیوں کے بل پر تمام کام نہیں نمٹائے جاسکتے ، پیسے کھائے نہیں جاسکتے ،سونا چاندی کی ڈھیر ، فلک بوس عمارتیں کی ملکیت یہ انسان کی بھوک کو نہیں مٹاتی ، منڈی اور مارکیٹ میں جو بھی چیز آتی ہے ، خواہ اشیائے خورنی کی شکل میں ہو ، یا ملبوسات کی شکل میں یا مستعملات طرز پر اس پر غریب کے کا خون پسینہ اور اس کی رات ودن کی محنت لگی ہوتی ہے ، جس پر صرف امیر اپنا رعب ودعب قائم کرتا ہے اور اس کے استعمال کے بعد ’’ہم چنیں دیگر نیست‘‘ ہم جیسا کوئی نہیں کے مصداق سانٹھ کی طرح خدا کی زمین پر اترا کر چلتا ہے ؛ حالانکہ قرآن کریم کے مصداق نہ وہ اس اترانے کی وجہ نہ وہ زمین پر بوجھل ہو کر زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی اونچاہو کر پہاڑیوں کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے ، صرف سینے میں کچھ تناؤ توضرور آسکتا ہے ، لیکن قد فطری میں کوئی اضافہ نہیں ہونا ؛ حالانکہ اس کو اس اترانے کا کوئی حق نہیں ، اس نے اپنے کمائی اور کسب پر نگاہ ہی ڈالی ، کس طرح دھوکہ دہی ، چال بازی ، جعل سازی غریبوں کا پیسہ ہڑپ کر اس طرح اترا رہا ہے ، کسب وکمائی میں نفع کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ، ہر شخص اپنے مانی مانی سے اپنے تئیں قیمت اور نرخ طئے کر کے پیسے ہڑپ کرنے پر تلا ہوا ہے ، خدارا غریبوں کے استحصال اور ان پر ظلم وستم سے باز آؤ ، یہ ظلم وستم اور استحصال کا وصف دنیا میں کچھ وقتیہ طور پر کچھ کارآمد اور کارگر تو ضرور ہوسکتا ہے ؛ لیکن روز قیامت یہ انسان کے لئے خدا کے حضور ایک بہت بڑا مجرم بنا کر کھڑا کردے گا اور خود دنیا میں بھی وہ یہ ظالم اور جاہر اور چال باز خدا کے غضب وعقاب سے محفوظ ومامون نہیں رہ سکتے ، وہ ضرور خدا کے عقاب وعذاب میں گرفتار ہوں گے ؛اس لئے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لے کہ اس کا رویہ اپنے ماتحتوں اور اپنے پاس وپڑوس کے ساتھ ظالمانہ وجابرانہ تو نہیں ، وہ اپنے رعب ودعب اور اپنے مال ودولت اور اور اپنی اونچی حیثیت سے ان کو نیچا اور کمتر دکھا کر ان کا استحصال تو نہیں کر رہا ہے ، وہ اپنے کاروبا ر میں اپنے گاہکوں کے ساتھ چکنی چپڑی اور میٹھی ورسیلی باتوں کے ذریعہ ان کی پونچی اور خون پسینے سے کمائے ہوئے روپیوں اور ٹکوں کو نہیں کھیچ رہا ہے ، اپنے عہدے اور منصب کے استعمال کے ذریعہ غریب اور مظلوم کی دولت اور جائیداد پر تو ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے ،اور اپنے دامن مرادکو اعمال حسنہ کے بجائے آخرت اور دنیا کے عذابوں، سزاؤں کی شکل میں مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں سے تو نہیں بھر رہا ہے ، اس لئے کہ حضور اکرم ا کا ارشادگرامی ہے : حضرت علی صسے مروی ہے وہ نبئ کریم اسے روایت کرتے ہیں کہ : تم مظلوم کی بد دعا سے بچو ، چونکہ وہ حق تعالیٰ سے سوال کرے گا ’’ایّاک ودعوۃ المظلوم ‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ : فی دعوۃ المظلوم : ۶؍۴۸)اور ایک روایت میں ہے کہ : جس کسی بندے پر ظلم ہوتا ہے اور وہ اپنی نگاہ آسمان کی جانب اٹھاتا ہے تو اللہ عزوجل کہتے ہیں کہ : میں حاضر ہوں میرے بندے ، مجھ پر یہ حق ہے کہ تیری مدد کروں گر چہ تھوڑی دیر کے بعد سہی ’’لبّیک عبدی حقّا لأنصرنّک ولو بعد حین ‘‘(الترغیب والترھیب للمنذری : کتاب الصوم ،الترغیب فی الصوم ، حدیث: ۱۴۷۱)
آپ اکا یہ بھی ارشا دہے کہ: ظلم کی تین قسمیں ہیں : ایک تو وہ ظلم جس کی معافی نہیں ، دوسرے وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جائے گا ، تیسرا وہ ظلم جس کی بخشش ہوگی ۔جو ظلم معاف نہیں ہوتا وہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشا دہے ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا ےَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَےَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاءُ ‘‘(النساء: ۴۸)اور جو ظلم چھوڑا نہیں جائے گا وہ بندوں کے آپس کے مظالم ہیں ، اور جس ظلم کی معافی ہوگی جس کا مطالبہ نہ ہوگا وہ بندے کا اپنے نفس پر ظلم ہے ۔(المستطرف)
حضرت علی صکہتے ہیں کہ : مظلوم کا دن ظالم پر ظالم کے مظلوم پر دن سے زیادہ سخت ہوگا ’’یوم المظلوم علی الظالم أشدّ من یوم الظالم علی المظلوم ‘‘آسمان کے اوپر ایک تختی دکھائی دی جس میں لکھا تھا ’’لَا الٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘اور اس کے نیچے یہ شعر لکھا تھا (المستطرف : ومنھا ارسال المثل والاستملاء : ۱؍۲۳۴،دار الکتب العلمےۃ ،بیروت)
فلم أر مثل العدل رافعاً ولم أر مثل الجور للمرء واضعاً
میں نے عدل جیسا بلندی عطاکرنے والا نہیں دیکھا اور ظلم جیسا پست اورذلیل کرنے والا نہیں دیکھا۔
حضرت معاویہ صکہتے تھے کہ : مجھے شرم آتی ہے کہ میں ایسے شخص پر ظلم کروں جس کا مددگار صرف اللہ ہے ’’انّی استحی أن أظلم من لایجد علیّ ناصراً الّا اللّٰہ ‘‘(درر الحکم لأبی منصور الثعالبی : مقدمۃ : ۱؍۵۵،دار الصحابۃ ، طنطا)
یوسف بن اسباط کہتے ہیں کہ: جو روئے زمین پر ظلم کے بقاء کی دعا کرتا ہے تو اس نے اللہ کی زمین میں اس کی نافرمانی کو پسند کیا ’’فقد أحبّ أن یعصی اللّٰہ فی أرضہ ‘‘(احیاء علوم الدین : کتاب اداب الکسب والمعاش : ۲؍۸۷)
مجاھد کہتے ہیں کہ : اللہ عزوجل جہنمیوں پر کجھلی مسلط کریں گے ،وہ اپنے جسموں کو کھرچیں گے جس سے ان کی ہڈیاں ظاہر ہوجائیں گی ، ان سے کہا جائے گا : کیا یہ تمہارے لئے تکلیف دہ ہے ، تو وہ کہیں گے : اللہ کی قسم ! یہ بڑے تکلیف دہ ہیں ، تو ان سے کہا جائے گا : یہ اس وجہ سے ہے کہ تم (دنیامیں)مومنوں کو تکلیف دیتے تھے ’’ھذا بما کنتم توذون المؤمنین ‘‘(قصص العرب : ۱؍۱۷۵)
ابن مسعود صکہتے ہیں کہ : جب اللہ عزوجل نے یوسف علیہ السلام کی قوم سے عذاب کو دور کیا تو انہوں نے آپس کے مظالم کو ختم کیا ، یہاں تک کہ آدمی پتھر اس کی بنیاد سے اکھاڑ دیتا اور اس کو ا سکے مالک کے حوالے کردیتا ’’حتی کان الرجل لیقلع الحجر من أساسہ فیردّہ الی صاحبہ‘‘(قصص العرب : ۱؍۱۷۵)
نبئ کریم اسے مروی ہے آپ ا فرماتے ہیں کہ : اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں کہ : میں اس پر غضبناک ہوتا ہوں جو ایسے شخص پر ظلم کرتا ہے جس کا میرے علاوہ کوئی مددگار نہیں ’’اشتد غضبی علی من ظلم یجد لہ ناصر غیری ‘‘(الترغیب الترھیب: کتاب القضاء
جواب دیں