لیکن جس طرح انہوں نے مسلمانوں کی داڑھی کو طالبان سے جوڑ کر دیکھا کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کی مکمل معلومات نہیں رکھتے بلکہ اپنی ذہنیت سے مذہب بیزار بھی نظر آتے ہیں۔ان کے نزدیک مہاتما گاندھی اس لئے برطانیہ کے ایجنٹ ٹھہرے ہیں کیوں کہ انہوں نے تحریک آزادی کے دوران مذہب کو سیاست میں داخل کرکے دو قومی نظریہ کو تقویت بخشی ہے مگر سبھاش چندر بوس کو جاپان کا ایجنٹ کیونکرقراردیا جاسکتا ہے؟انکی طرف سے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی گئی ۔انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ آخر جنگ آزادی کے ان دونوں مجاہدین نے اپنے اس گناہ یا برے کردار سے کیا حاصل کیا یا ان کی اولادوں کو بھی کیا کوئی سیاسی فائدہ پہنچا۔جبکہ سبھاش چندر بوس خود بھارت رتن کے اعزاز سے محروم ہیں اور ہندوستان کے اصل گاندھی ہونے کا اعزاز اور خطابات ہمارے معزز وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے خاندان کے حق میں چلا گیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہماری دنیا کا یہ ایک فیشن اور چلن رہا ہے کہ جب کوئی شخص کسی وجہ سے شہرت پاچکا ہوتا ہے اور اپنی شہرت کھوتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ کسی مرحوم اور معزز شخصیت کے خلاف مغلظات بکنا شروع کردیتا ہے ۔یا اکثر اخبارات اور صحافی حضرات جنہیں اپنی تصنیفات کے لئے شہرت حاصل کرنا ہوتی ہے تو کوئی ایسا متنازعہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔صحافیوں اور مصنفوں میں سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین اور وی ایس نائپال اسریٰ نعمانی جیسے نئے تخلیق کار جو اپنی سنجیدہ تخلیقات سے لوگوں کو متاثر نہیں کرسکے وہ اپنے متنازعہ کردار اور بیانات سے مشہور ہوگئے اور اکثر اسلام دشمن تنظیمیں اور ادارے ان کو معاشی اور اخلاقی مدد اور تعاون کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔موجودہ صورتحال میں اگر آپ عالمی اور ملکی سرکاری ایجنسیوں اور لبرل طبقات کی خوشنودی حاصل کرکے اخبارات میں چھپنا اور شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو طالبان ،ملا عمر ،القاعدہ ،اسامہ بن لادن،دولت اسلامیہ اور البغدادی کو امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے اسی فہرست میں آر ایس ایس اور مودی کو بھی کھڑا کرکے لفظوں کی کنکریاں مارنا شروع کردیجئے توثواب کے ساتھ ساتھ واہ واہی ملتی رہے گی ۔مہاتما گاندھی نے اگر اپنے آپ کو سناتنی دھرم سے منسلک ہونے کا اعتراف کیاتو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے اور نہ ہونا چاہئے ۔سچ تو یہ ہے کہ آدھی صدی پہلے کے ان تحریکی لوگوں میں وہ چاہے ہندوؤں کے ہی رہنما ہوں کیوں نہ ہوں مسلم رہنما کی طرح ان کی اخلاقی قدریں بھی زندہ تھیں اور انہوں نے اگر اپنے اصول و عہد پر کسی حد تک قائم رہنے کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی وجہ ان کا مذہب سے وابستہ ہونا بھی ہے ۔جہاں تک مہاتما گاندھی گائے ذبیحہ کئے جانے کے خلاف تھے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے خود مسلم حکمراں بابر نے بھی ملک کے ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ہمایوں کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی تھی یہ بھی ہماری تحریک آزادی اور وطن عزیز کا ایک المیہ ہے کہ کچھ لوگوں کو مہاتما گاندھی کی یہ مذہبی رواداری پسند نہیں جیسا کہ وہ کہتے تھے کہ میرا خدا صرف گیتا اور رامائن میں ہی نہیں رہتا میں اسے قرآن بائبل اور توریت میں بھی تلاش کرتا ہوں۔ایسے شخص کو شدت پسند مذہبی تنظیم کے ایک رکن ناتھو رام گوڈسے نے ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگوان کی چھتر چھایا میں ہی قتل کرڈالا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انہوں نے رام راجیہ کے ساتھ ساتھ حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کی خلافت اور ان کی سادگی پر مبنی حکومت کی بات کا تذکرہ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ اسلامی قوانین نافذ کریں گے جہاں آنکھ کے بدلے آنکھ اور قتل کے بدلے قتل کیا جاتا ہے تو گاندھی جی نے اس کے برعکس جواب دیا اور اکثر مورخین ان کی طرف سے شک و شبہات کے بیانات کو لے کر انہیں اسلام مخالف مانتے ہیں جبکہ یہ سچ نہیں ہے ۔اختلافات تو خود مسلمانوں کے اپنے علماء میں بھی رہے ہیں اور خاص طور سے مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد تو ہمارے بہت سے علماء دین کو لبرل جمہوری نظام اور سیاست میں اسلام کا گمشدہ خزانہ نظر آنے لگا اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل تو صراط مستقیم کے لئے اسی تالاب میں غوطہ لگارہی ہے ۔ مگر ابھی تک کوئی امید کی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی کہ بھولے بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح سمت دی جاسکے۔ایسے میں مہاتما گاندھی کی جرات کو سلام کیا جانا چاہئے کہ اگر وہ چند اسلامی نظریات کے مخالف بھی رہے ہیں تو یہ ان کا علم تھا اور اس سے بھی زیادہ وہ جس ماحول سے آئے تھے وہاں ہزاروں خداؤں کی پوجا کی جاتی تھی اور اگر وہ بغاوت بھی کرتے تو کہاں جاتے،مسلمانوں نے گھر واپسی کے لئے غیروں کے لئے کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں بنایا تھا۔بقول اقبال کہ یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو ،تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو۔اس کے باوجود گاندھی کو فرقہ پرست نہیں کہا جاسکتا شاید اپنی اسی اصول کی بنیاد پر انہوں نے نہ صرف ملکی پارلیمنٹ اور اپنے قریبی ساتھیوں کی مخالفت کا سامنا کیابلکہ ہندو تنظیموں کی نظر میں بھی دشمن قرار پائے ۔عام طور پر گاندھی کے قتل کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ ہندو تنظیموں نے پاکستان کے بٹوارے کی وجہ سے ان کا قتل کیا جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے خو دابولکلام آزاد نے اپنی کتاب میں اس کا ذمہ دار نہرواور پٹیل کو ٹھہرایاہے۔دوسری وجہ پچیس کروڑ کی بقایا رقم تھی جسے ہماری پارلیمنٹ نے پاکستان کے ذریعہ کشمیر میں بغاوت کرانے کی وجہ سے نہ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر مہاتما گاندھی کی ضد اور بھوک ہڑتال کی وجہ سے یہ رقم پاکستان کو دے دی گئی ۔سواال یہ ہے کہ پاکستان کا بٹوارہ بھی ہوچکاتھا اور ہندوؤں کے سارے لیڈران اس بٹوارے سے خوش تھے اور بقایا رقم بھی پاکستان کو دیدی گئی ۔پھر اس کے بعد ایک بوڑھے شخص کے قتل کئے جانے کاکیا مطلب جو اگر زندہ بھی رہتا تو ایک دو سال میں ہی اٹل بہاری واجپئی کی طرح کوئی فیصلہ لینے کے بھی قابل نہیں رہتا ۔اکثر مورخین نے لکھا ہے کہ ۱۹۳۴ کے بعد سے گاندھی پر تین حملے ہوچکے تھے جبکہ اس وقت پاکستان اور پاکستان کوبقایا رقم دینے جیسا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ایسے میں کوئی ایسا سنگین راز ضرور ہے جس پر سے پردہ اٹھنا چاہئے تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے گاندھی کے قاتل گاندھی کو فطری موت مرنے کا بھی موقع دینا نہیں چاہتے تھے ۔عدالت میں ناتھو رام گوڈسے کی پوری تقریر سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ گاندھی کے قتل میں صرف ناتھو رام گوڈسے اور آر ایس ایس ہی شریک نہیں تھی اور نہ ہی ناتھو رام گوڈسے کی طرف سے یہ کوئی غصہ اور جذبات میں اٹھایا گیا قدم تھا۔بلکہ گاندھی اور سبھاش چندر بوس دونوں کا قتل ایک سوچی سمجھی اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔اب دیکھئے گوڈ سے کی طویل تقریر کا ایک معمولی حصہ وہ کہتا ہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے گاندھی کو قتل کردیا تو مجھے تاریخ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔مجھ پر لعنت بھیجی جائے گی ۔اس سے بھی زیادہ میں اپنی زندگی سے ہی ہار جاؤں گا ۔اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ لیا کہ مجھے ملک کے مفاد میں گاندھی کا قتل کرنا ہی ہوگا۔کیوں کہ ہندوستانی سیاست کو گاندھی کی غیر موجودگی میں ہی مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے ۔اس طرح ہماری فوجی اور عسکری قوت کا استعمال بھی بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے ‘‘۔سوال یہ ہے کہ مرکزمیں حکومت کانگریس کی تھی یا آرایس ایس کی اور گوڈسے کو صرف گاندھی سے دشمنی کیوں تھی،کیا باقی کے کانگریسی لیڈران آر ایس ایس کی مرضی سے کام کررہے تھے؟یہ بات کسی تحریر میں تو نہیں آئی کہ گوڈسے کے بیانات کو اسی طرح منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا جیسا کہ قصاب کے سرکاری وکیل نے قصاب کے تعلق سے جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا ہے اور کرکرے کے قتل کا معمہ بھی ہنوز حل طلب ہے ۔مگر بعد کے حالات میں جس طرح صرف ایک سال کے اندر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں ہماری فوجوں نے جارحانہ رخ اختیار کیا اور ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرکے نظام حیدرآباد کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی،یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر گاندھی زندہ ہوتے تو ہمارے سیاست دانوں کوایسا کرنے میں اڑچن ضرور آتی۔دیگر صورت میں گاندھی خوددیکھ لیتے کہ اہنسا اور رواداری پر مبنی ان کے نظریات کا کس طرح ان کی زندگی میں ہی قتل کردیاگیا۔اروندھتی رائے جنہوں نے گورکھ پور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پر الزام لگایا کہ آزادی کی تحریک میں گاندھی کی تنظیم سرمایہ داروں کی حمایت اور مدد کی وجہ سے پروان چڑھی دوسرے لفظوں میں گاندھی کو سرمایہ داروں کا حمایتی قرار دیا ۔جبکہ گاندھی نے جس طرح سادگی اور چرخے کی صنعت کو فروغ دینے کی مہم شروع کی تھی یہ نظریہ بذات خود سرمایہ داروں کے برخلاف تھااس کے برعکس ارون دھتی رائے کو اوارڈ دیاگیا اور جو انعام دیا جاتا ہے اسکی خطیر رقم سرمایہ داروں کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ گاندھی کا قتل اصل میں سرمایہ دارانہ مخالف نظریہ کا ہی سبب بنا ہے ۔جیسا کہ آر ایس ایس کی بنیاد بنیوں اور سرمایہ داروں کی حمایت سے قائم کی گئی تھی اور خودنہرو پٹیل کی حکومتی پالیسی میں سرمایہ داروں کو اولیت کا درجہ حاصل رہا ہے۔اب ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ صرف اکیلے ناتھو رام گوڈسے ہی گاندھی کا قاتل تھا ۔کہیں نہ کہیں اس وقت کی مرکزی حکومت کو بھی قصوروار قرار دیا جاسکتاہے جیسے گاندھی پر متعدد مرتبہ حملہ ہونے کے بعد بھی ان کی حفاظت میں کوتاہی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔اسی طرح آسانی کے ساتھ قتل ہوجانے دیا جیسے کہ ہیمنت کرکرے کا قتل ابھی بھی معمہ ہے۔
جواب دیں