اور مزید لکھا ہے کہ حکومت و سلطنت اللہ ہی کو زیبا ہے مخلوق کے لیے صرف اطاعت ہے اور جو شخص اس بات کا دعوی کرے کہ اسے حکومت کرنے یا انسانوں کے لیے قانون سازی کی آزادی ہے وہ کافر ہے، کیوں کہ وہ حاکمیت میں اللہ کا مقابل بننا چاہتا ہے جو صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، نیز جو کوئی اس شخص کی حکومت کو مانے یا اس کے بنائے قوانین پر عمل کرے وہ بھی مودودی صاحب کے نزدیک ’’مشرک‘‘ ہے کیوں کہ اس نے اللہ کے سوا دوسرے کو معبود مانا۔
اور شیخ الازہر نے مودودی کی اس فکر کا بھی ذکر کیا جس کا دعویٰ انہوں نے کیاہے کہ ان چار اصطلاحوں کا یہ مفہوم ان کی ایجادواختراع نہیں ہے، بلکہ نزول قرآن کے وقت مشرکین قریش ان کا یہی مفہوم سمجھتے تھے اور اسلام کو ایک یا دو صدی بھی نہیں گزری تھی کہ[یہ] مفہوم ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور کئی صدیوں تک اوجھل رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کا صحیح مفہوم مودودی صاحب نے آکر واضح کیا اور پچھلی دس صدیوں کے مسلمانوں پر ’’گمراہیت‘‘ پر رہنے کا الزام بھی دیا ۔
شیخ الازہر نے مودودی کے ا س دعویٰ کی تردید نبی اکرم ﷺکی حدیث سے کی جیسا کہ مروی ہے کہ: ’’میری امت کبھی گمرہی پر جمع نہیں ہوگی‘‘ اور فرمایا کہ مودودی صاحب اس حدیث کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ اک اور حدیث ہے کہ’’ روز قیامت تک اس امت کی ہر نسل میں علمائے حق رہیں گے جنہیں ناتو کسی مخالف کا ڈر ہوگا ناہی کسی ملامت کی پرواہ ‘‘۔ یہ احادیث اور اس قسم کی دیگر احادیث صحیحہ کا ذخیرہ ’’فکرِ مودودی‘‘ کے قصر کو ملیامیٹ کرنے کے لیے کافی ہے جو دس صدیوں کے مسلمانوں کی تضلیل پر قایم ہے۔
مزید فرمایا کہ: مودودی صاحب کا یہ دعویٰ قرآن مجید پرغیرصریح اور غیر واضح ہونے کاکھلا الزام ہے حالانکہ خود اللہ رب العزت نے بہت سی آیتوں میں قرآن پاک کاوصف مبین یعنی واضح ہونا بیان فرمایا ہے؛ سورہ حجر آیت نمبر دس :ترجمہ :’’یہ روشن کتاب قرآن کی آیتیں ہیں ‘‘ تو جب اللہ نے فرمادیاکہ قرآن کے معانی وا ضح وبین ہیں تو مودودی صاحب اس نظریے کو کہاں سے لائے جو آیات کریمہ کے بالکل متضاد ہے ،مودودی صاحب عالم تھے۔ ممکن ہے بعض مسائل میں ان کے رائے درست ہو مگر ان کے بعض افکار امت کے لیے کثیر مشکلات کا باعث بنے، اسی طرح انہوں نے پہلی دس صدیوں کی تفسیرات میں شک کیا ہے، حالاں کہ خود ان کی تفسیر کے اَصح[صحیح] ہونے پر کوئی دلیل نہیں ایسے ہی انہوں نے کہا کہ’’ قرآن ہمیشہ ایک پہیلی اور غموض وابہام سے بھرپور رہے گا اور کوئی اس کی تفسیر نہیں کرسکے گا‘‘ ان کا یہ قول اسلامی اصول پر کھلا وار ہے۔
اس مسئلے پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ الازہر نے فرمایا کہ :’’سید قطب‘‘ اپنے ہم عصر دوست ابو الاعلیٰ مودودی کے اس نظریہ سے دیوانگی کی حد تک متاثر ہوئے اور اس نظریہ کی رو سے انہوں نے کہاکہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے کیوں کہ حاکمیت الوہیت کا دوسرا نام ہے ، کسی انسان یا ادارہ یا تنظیم کو حق قانون سازی دینا اللہ کی حاکمیت کو چھوڑ کر انسانوں کو حاکم بنانا ہے اور سید قطب کے مطابق موجودہ تمام انسان اللہ کے عطاکردہ قانون کو چھوڑ کر انسان کے خود ساختہ قوانین پر عمل پیرا ہیں جو شریعت اسلامیہ کے بالکل خلاف ہے اس وجہ سے موجودہ معاشرہ ’’کافر و مشرک‘‘ اور ’’غیر اللہ‘‘ کی عبادت کرنے والا ہے، کیوں کہ عبادت کا مفہوم قطب صاحب کے نزدیک اللہ کی حاکمیت میں اس کی اطاعت کرنا ہے اور جب معاشرے نے اس کے سوا دوسرے کی اطاعت کی تو اس نے مخلوق کو اللہ کاساجھے دار ٹھہرایا ،اسی نظریہ کو بنیاد بناتے ہوئے سید قطب نے کہا کہ موجودہ معاشرہ جس میں امت اسلامیہ پنپ رہی ہے در اصل’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کا معاشرہ ہے اور نہ صرف ’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کی طرح ہے بلکہ اس سے دوگنا جہالت کا حامل ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں صرف بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور موجودہ مسلم معاشرے پردساتیر اور ’’قانون ساز اداروں کاتسلط‘‘ ہے جو سید قطب کی نظر میں ’’اصنام‘‘[بت] ہیں اور دوسرے ہزاروں قسم کے بت ہیں جن کی مسلمان پرستش کرتے ہیں ،مزید برآں جو لوگ شریعت کی تطبیق کی بات کرتے ہیں ان سے تمسخر کرتے ہوئے سید قطب کہتے ہیں کہ یہ معاشرے مسلم تو ہے نہیں کہ ان میں نظام شریعت لاگو کیا جاسکے، یہ تو کافر معاشرہ ہے جس پر کافر حاکموں کا راج ہے پہلے ان سب کو اسلام میں دوبارہ داخل کرو ، ’’اسی نظریہ کو لے کر انہوں نے پہلے اسے جاہلی معاشرہ قرار دیا پھر اس معاشرے کو کافر کہا اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جائز قرار دیا‘‘ اور کہا کہ مسلمانوں کے لیے ولایت اور غیر مسلمین سے برائت کو اپنا وتیرہ بنانا چاہیے ،ان کی اس تفریق نے (جو پورے مسلم معاشرے کی تکفیر اور اس سے نفرت کی طرف بلاتی ہے )اس فکر کے دلدادہ نوجوانوں کو اپنے آباواجداد سے متنفر کیا ان میں سے بعض نے اپنی نوکری چھوڑدی اوربعض نے اس سے علاحدگی اختیار کرلی کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ پورامعاشرہ جاہلی ہے، حاکم جاہلی ہے ۔
اخیر میں اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے شیخ الازہر نے فرمایا کہ ’’’سید قطب کے ان افکار ونظریات کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ،لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض داعیان اسلام اس نظریہ کی تائید میں کھڑے نظر آتے ہیں۔‘‘
(بحوالہ جریدہ صوت الازہر، عدد شمارہ ۷۰۸ بتاریخ ،۱۳؍ مارچ ۲۰۱۵ء)
جواب دیں