فارسی میں رامائن کے ترجمے اور ہنداسلامی تہذیب کے نقوش

یہ کہانی اس قدر عام رہی ہے کہ ہر سال رام لیلا کے عنوان سے اسے اسٹیج کیا جاتا رہا ہے اور تمام چھوٹے بڑے اسے دلچسپی سے دیکھتے رہے ہیں۔مزے کی بات ہے کہ یہ داستان صرف بھارت کی سرحد تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اندونیشا اور ملیشیا جیسے ملکوں میں بھی یہ نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ راجہ رام چندر انھیں کے ملک کے باشندہ تھے۔ رامائن کی مقبولیت اس قدر عام ہوئی کہ جدید دور میں اس پر فلمیں بنائی گئیں اور سیریل بنے۔ ان فلموں اور ٹی وی سریئلس کو بھی خوب مقبولیت حاصل ہوئی اورٹی آر پی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ان کی ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی اس وقت پورے ملک کی رفتار ٹھہرجاتی تھی اور لوگ اپنے تمام کام دھندے چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ رامائن ہندووں کی مذہبی کتاب کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہے مگر اسے عام کرنے اور عوام تک پہنچانے میں مسلمانوں کا یوگدان بھی کم نہیں رہا ہے۔یہ جب تک سنسکرت میں تھی تب تک اس تک صرف خواص کی رسائی تھی مگر جب اسے فارسی اور اودھی میں ڈھالا گیا تو سب لوگوں کی دسترس میں آگئی۔ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کو کئی لحاظ سے اہم جانا جاتا ہے اور اس دور میں کئی بڑے علمی کام ہوئے جن میں سنسکرت کتابوں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر نے کئی سنسکرت کتابوں کے فارسی میں تراجم کرائے او ر وہ کتابیں جو پہلے صرف پنڈتوں تک محدود تھیں ان کی رسائی پڑھے لکھے عوام تک ہونے لگی۔ رامائن ابتدائی طور پر سنسکرت میں لکھی گئی تھی اور اسے بالمیکی جی نے لکھا تھا۔ عہد اکبری تک اس کاترجمہ کسی بھی عوامی زبان میں نہیں ہوا تھا مگر سب سے پہلے تلسی داس نے اسے اودھی میں منتقل کیا اور اس کے بعد اکبر کے حکم سے اس عہد کے معروف مورخ اور عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے اسے فارسی زبان میں ڈھالا۔ اس کے اخراجات سرکار کی طرف سے ادا کئے گئے تھے اور اس کی آرائش وزیبائش کے لئے پینٹنگس بنائی گئیں۔ ممکن ہے اکبر کی اس کاوش کے پیچھے سیاسی مفاد بھی پوشیدہ ہو مگر یہ بڑا کام تھا اور اس کی جانب توجہ کرکے اکبر نے آنے والی نسلوں پر احسان کیا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار رامائن کا ترجمہ ہوا تھا اور اس کے بعد بہت سے تراجم ہوتے رہے۔ اب تک دنیا کی بیشتر زبانوں میں رامائن کے ترجمے ہوچکے ہیں اور ساری دنیا میں ترجموں کی مدد سے اس
کتاب کو پڑھا اور سمجھا جارہا ہے۔ ممکن ہے کچھ قدیم ترجمے وقت اور حالات کی دستبرد سے محفوظ نہ رہے ہوں مگر جو محفوظ ہیں ان میں صرف فارسی کے ۲۳تراجم دستیاب ہیں اور ان کی کاپیاں کسی نہ کسی لائبریری میں مل جائیں گی۔ اصل میں مسلم عہد حکومت اس لحاظ سے خاص تھا کہ اس دور میں قدیم علمی ورثوں اور پرانے تہذیبی عناصر کو محفوظ کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس دور کے علمی اور تہذیبی کاموں کا ثبوت وہ علمی وفنی نگارشات ہیں جو آج بھی ساری دنیا کے میوزیموں میں نمائش کے لئے موجود ہیں اور لائبریریوں کی زینت ہیں۔دلی کے نیشنل میوزیم سے لے کر لندن کے برٹش میوزیم تک اور پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل لائبریری سے لے کر امریکہ کی عظیم لائبریریوں تک اس قسم کے نادر نمونے مل سکتے ہیں۔عہد اکبری میں رامائن کے کئی ترجمے ہوئے تھے، جن میں سب سے نمایاں ملاعبدالقادربدایونی کا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ ۹۹۲ھ (۱۵۸۴ء) میں شروع ہوا تھا اور چار سال کی طویل محنت کے بعد مکمل ہوا۔اکبر کے درباری ابوالفضل نے لکھا ہے کہ بادشاہ کے حکم سے یہ کام کیا گیا۔ 
رامائن کے فارسی تراجم
اس وقت ہندی، اردو، انگلش اور تمام ہندوستانی زبانوں میں رامائن کے ترجمے موجود ہیں مگر سب سے قدیم سنسکرت نسخے کی ہوبہونقل وہی نسخہ ہے جسے بدایونی نے فارسی کا جامہ پہنایا تھا۔رامائن کا ایک قدیم نسخہ عبدالرحیم خان خاناں کا ہے ۔یہ اب بھی Freer Art Gallery

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے