ازقلم: محمد فرقان، بنگلور
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
حیا نہیں ہے زمانے کی زباں میں باقی!
میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کررہا ہوں کہ ہمارے کچھ اپنے مسلمان جو فحش گوئی بطور مزاح یا مذاق سمجھ کر کررہے ہیں انہیں اللہ ہدایت نصیب فرمائے اور وہ اس سے توبہ کرلیں۔اس عنوان پر لکھنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ آج ہمارے معاشرے میں فحش گوئی ایک عام بات بن گئی ہے۔ہماری نظروں نے ایسے کچھ کم بخت ملعون لوگوں کو بھی دیکھا جو اللہ کے گھر مسجد جیسی مقدس جگہ میں بھی العیاذباللہ فحش کلامی جس میں خصوصاً مباشرت اور جماع کی کیفیات اور شرمگاہ سے متعلق باتیں کررہے تھے!لاکھ سمجھانے پر بھی وہ منحوس لوگ رجوع ہونے کیلئے تیار نہیں۔کئی دنوں سے یہ بوجھ دل میں لیے بے چین رہا کہ ہماری نظروں نے تو چند افراد کو دیکھا ہے ناجانے ایسے کتنے بدبخت اور ہونگے۔پھر اللہ نے دل میں خیال ڈالا کہ اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالی جائے اور مسلمانوں کو اسکے انجام اور اسکی حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔اللہ کرے کہ ان تمام فحش گو کو ہدایت نصیب ہو۔آمین
آج کے اس پرفتن دور اور خزاں رسیدہ معاشرہ میں زبان کا بیہودہ استعمال حد سے تجاوز کر چکا ہے۔جبکہ انسان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اُس کے نامہئ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور کل حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا۔اس لئے ہمیں ہمیشہ پاکیزہ اور نیک کلمات بولنے چاہئیں۔ زبان کا باہمی تعلقات پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے۔نیک کلام کے اندر ایک مقناطیسی کشش ہوتی ہے۔ مومن کی زبان گندے اور غلیظ کلام سے محفوظ رہتی ہے۔ اس کا کلام پاکیزہ ہوتا ہے۔ حدیث میں مومن کی صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ نہ طعنہ زن، نہ بہت بد دعا کرنے والا، نہ بے حیا اور نہ گندی زبان والا ہوتا ہے۔ بلکہ وہ حیادار ہوتا ہے اور حیا دار شخص کی زبان اس کے قابو میں رہتی ہے۔ حضورﷺ نے ہمیں ہر چیز کی طرح اپنی زبان کا استعمال کرنا بھی سکھایا ہے۔لیکن آج مسلمان اپنی زبان کا غلط استعمال کررہے ہیں۔اسی کی ایک مثال فحش گوئی یا فحش کلامی یا گندی باتیں کرنا ہے۔
فحش گوئی قابل شرم، بیہودہ اور بے حیائی کی بات کو کہتے ہیں۔ فحش گوئی یا کلامی سے مراد یہ ہے کہ ان باتوں کو واضح الفاظ میں ذکر کردیا جائے جن کا صراحۃً اظہار برا سمجھا جاتا ہو مثلاً جماع کی کیفیات یا پوشیدہ امراض کو (بلاحاجتِ شرعی) بیان کرنا۔ (احیاء العلوم،کتاب آفات اللسان)۔فحش گوئی فطرت کے خباثت کی علامت ہے۔بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں فحش گوئی کے شوقین بھی کثرت سےپائے جاتے ہیں جو حصولِ لذت اور دوستوں کی محفلیں گرمانے کے لئے شہوت بھری گفتگو کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”فحش گوئی اور بداخلاقی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں!“(مسند احمد)۔اور یہ دونوں برائیاں اس قدر تباہ کن ہیں کہ یہ عادتیں دوسروں میں بہت جلد منتقل ہوتی ہیں۔لہٰذا ہماری صحبت کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔بروز قیامت سب سے برا شخص وہ ہوگا جسے لوگ اس کی فحش کلامی سے بچنے کیلئے چھوڑ دیں گے۔فحش کلامی کرنے والا بدنصیب ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا ہے۔ گناہ پر راضی ہونا یا اس میں تعاون کرنا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔فحش گوئی اور بدگوئی اسلام کی تعلیمات اور اس کی خصوصیات کے منافی تو ہے ہی، انہیں کوئی شریف معاشرہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ انسان اپنے کلام سے پہچانا جاتا ہے اور اُس کی گفتگو اُس کے کردار اور شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ لوگوں کی نظروں میں بدکلام اور فحش گو کی عزت دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی اور اس سے میل جول کوئی گوارہ نہیں کرتا۔ نیز فحش گوئی سے انسان نہ صرف اپنا وقار تباہ کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی بھی توہین کرتا ہے جن لوگوں نے اسکی تربیت کی ہے۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ”مومن کی شان یہ ہے کہ وہ طعن و تشنیع یا لعنت کرنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی فحش گوئی اور بدزبانی اس کا شعار ہوتا ہے“(ترمذی)۔ ایک اور جگہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ”تم فحاشی اور فحش گوئی سے بچو! کیونکہ اللہ تعالیٰ فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے“ (مسند احمد)َ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ”اللہ تعالیٰ بدزبان اور بے ہودہ گوئی کرنے والے سے بغض وعداوت رکھتا ہے“ (ترمذی)۔ بس مذاق میں بھی ایک دوسرے کو گالی دینا اور آپس میں فحش گفتگو کرنا گناہ ہے! بلکہ یہ یکطرفہ زنا بھی ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کان کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا (باتیں کرنا) ہے، دماغ کا زنا سوچنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، پاؤں کا زنا چلنا ہے، دل کا زنا تمنا اور خواہش کرنا ہے، اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے“ (صحیح مسلم)۔فحش گوئی میں مباشرت اور جماع کی کیفیات کو پیش کرنا کیا زبان کا زنا نہیں ہے؟ کیا اسکے بارے میں سوچنا دماغ کا زنا نہیں ہے؟ دوران گفتگو تمنا اور خواہش کا ظاہر کرنا کیا دل کا زنا نہیں ہے؟ یقیناً ہے!!! اس سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ فحش گو زانی بھی ہے! نیز آج دوسروں کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے بارے میں فحش گوئی کررہے ہیں تو کل ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوسکتا ہے!
فحش گوئی ایک لازمی جزو ہوتی ہے۔ یہ معاملہ صرف ان پڑھ اور جاہل طبقہ میں نہیں بلکہ وہ طبقہ جو اپنے آپ کو پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کرتا ہے وہ بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے دیندار اور شرع کے پابند لوگوں کی محفلیں بھی اس سے خالی نہیں ہوتیں۔ ہنسی مذاق، طنز و مزاح خواہ وہ عمومی یا خصوصی ہو فحاشی سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام نے مزاح کی اجازت دی ہے لیکن اسکی کچھ حدود و قیود بھی مقرر فرمائی ہیں، جو طنز و مزاح کو بھی اخلاق اور تہذیب کے دائرہ کے اندر رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آقائے دوعالم ﷺ نے ہمیں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے روکا بلکہ ایک جگہ اسے حرام قرار دیا، کیونکہ جھوٹ ایک زہر ہے جس سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”وَاجْتَنِبُوْا قُوْلَ الزُّوْرِ“کہ ”جھوٹ بولنے سے بچو!“ (سورۃ الحج)۔ جب ہمیں جھوٹ بولنے خواہ وہ مزاق ہی ہو سے روکا گیا تو کیا ہمیں فحش گوئی کی اجازت ہے؟ کیا کل بروز محشر اسکا حساب نہیں ہوگا؟ کیا آقائے دوعالمﷺ کو اپنے روضہئ مقدس میں اس سے تکلیف نہیں ہوتی ہے؟ فحش گوئی کا سہارا لے کر داد و تحسین سمیٹنے والے بدبخت، کمبخت اور ملعونیاد رکھیں کہ اس کا انجام بہت بُرا ہے!
ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف شرم و حیاء ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ حضورﷺ نے فرمایا ”جس شخص یا معاشرہ میں شرم و حیاء نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی و فساد برپا کر سکتا ہے۔“ بخاری کی ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرے“۔ انسان کی طبیعت بدکاموں کو چاہتی ہے لیکن یہ شرم و حیا ہی ہے جو انسان کے اور برائی کے بیچ آڑ بن جاتی ہے۔ یہی انسان میں اچھے اور برے کلام کے بیچ فرق کا احساس پیدا کرتی ہے۔ لیکن انسان جوں جوں شرم و حیا کا گلا گھونٹتا رہتا ہے، بُرائی کا احساس اُس کے دل سے کم ہوتا رہتا ہے، اُس کی ہچکچاہٹ عادت میں بدلتی جاتی ہے اور جب بلکل ہی شرم و حیا کا جنازہ نکل جاتا ہے تو پھر اس حدیث کا مصداق بن جاتا ہے یعنی جو چاہتا ہے بولتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے، صحیح یا غلط اس کی قطعاً فکر نہیں کرتا۔ گفتگو میں اگر کسی مزاح کا رنگ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ایسا مزاح جو فحاشیات سے لبریز گھٹیا اور بیہودہ ہو اور جو دوسرے کی دل شکنی کا باعث بنے، اسکی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔
زبان ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ رب العزت نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، بات کرنے کی ایسی مشین ہے جو پیدائش سے لیکر مرتے دم تک انسان کا ساتھ دیتی ہے۔چونکہ اس مشین، اس نعمت کو حاصل کرنے میں ہم نے کوئی محنت اور مشقت نہیں کی، کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا، اس لیے ہمیں اس نعمت کی کوئی قدر معلوم نہیں ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ جو نعمت بیٹھے بٹھائے اور بن مانگے مل جائے اس کی قدر بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ زبان بھی ہمیں بن مانگے مل گئی اس لیے لوگ اس کی ذرا قدر نہیں کرتے، جو چاہتے ہیں کہ دیتے ہیں، جو منہ میں آتا ہے بول پڑتے ہیں۔ اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ جن کے منہ میں زبان موجود ہے مگر بولنے کی طاقت نہیں، کوئی بات کہنا چاہتے ہیں مگر کہ نہیں سکتے، دل میں جذبات پیدا ہو رہے ہیں مگر ان کا اظہار نہیں کر سکتے، اس سے پوچھیں کہ زبان کیا چیز ہے اور کتنی بڑی نعمت ہے؟ جو لوگ بنا سوچے سمجھے باتیں کرتے ہیں، بات کہنے سے پہلے اس کو تولتے نہیں۔ بعض اوقات ان کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے جو ان کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دیتی ہے، جبکہ انہیں اسکی خبر بھی نہیں ہوتی۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ”زبان کی باتیں اعضا انسانی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکیزہ کلام تو قرب خداوندی کا سبب بنتا ہے جب کہ گندا کلام ذلت و خوار کر دیتا ہے“۔ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”چار طرح کے جہنمی کھولتے پانی اور آگ کے درمیان بھاگتے پھرتے اور ویل وثبور (یعنی ہلاکت) مانگتے ہوں گے، ان میں سے ایک ایسا شخص بھی ہوگا جس کے منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے“۔ جہنمی کہیں گے:”اس بدبخت کو کیا ہوا کہ ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے؟“جواب ملے گا:”یہ بدنصیب،خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہوکر لذت اٹھاتا تھا مثلاً جماع کی باتوں سے!“(اتحاف السادۃالمتقین،کتاب آفات اللسان)۔ایک اور جگہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا اور بے حیائی، فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا!“ (ترمذی)۔آج فحش گوئی سے بچوگے تو کل وہاں جہنم کی آگ سے بچ سکوگے۔ ہمیں اپنے ماں باپ اور بڑوں کا کتنا خیال ہوتا ہے کہ ہم ان کے سامنے فحش گوئی کیلئے گھٹیا زبان استعمال نہیں کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر لمحہ ہماری ہر بات سن رہا ہے تو فحش گوئی کرتے ہوئے ہم اس بات کا کتنا خیال رکھتے ہیں؟ نیز ہر ہفتے کی پیر اور جمعرات کو جب ہمارے اعمال حضورﷺ کے سامنے پیش ہوتے ہونگے تو ان پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا اسی کے خاطر انہوں نے اتنی قربانیاں دیں کہ آج ہم دین و اسلام کی نشر و اشاعت، دعوت و تبلیغ کا فریضہ، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی فکر چھوڑ کر فحش گوئی میں مبتلا ہوں؟ یاد رکھو انسان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اُس کے نامہئ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور کل جب حشر کے دن تمام مخلوقات خصوصاً آقائے دوعالمﷺ، صحابہ کرامؓ، ہمارے مشائخین و اکابرین، ہمارے اساتذہ، ہمارے والدین، ہماری آل و اولاد کے سامنے یہ نامہئ اعمال پڑھ کر سنایا جائیگا تو ہمیں کس قدر اذیت ہوگی؟ اور کس قدر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے؟ حضرت ابراہیم بن میسرہ ؒ نے تو یہاں تک فرمایا کہ ”قیامت کے دن فحش کلام اور بیہودہ بکنے والے کو کتے کی صورت میں یا کتے کے پیٹ میں لایا جائے گا!“ (إحیاء علوم الدین)۔نیز حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہیکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اَلْجَنَّۃُ حَرَامٌ عَلَی کُلِّ فَاحِشٍ أَنْ یَّدْخُلَہَا“ کہ ”ہر فحش کلام کرنے والے پر جنت کا داخلہ حرام ہے!“ (کتاب الصمت و آداب اللسان)۔ اسلئے ہر طرح کی بیہودہ، فحش گوئی یا فحش کلامی سے احتراز ضروری ہے۔حقیقی مسلمان وہی ہے جو اللہ کیلئے اپنے نفس پر قابو رکھے۔جب تک ہم اس پر قابو نہیں پاتے ہم گناہوں کے سمندر میں ڈوبتے جائیں گے۔نیز بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے اور وہ اللہ کی طرف رجوع ہو اور دوبارہ اسکی طرف نہ جائے۔ارشاد خداوندی ہے کہ ”وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ“ کہ ”اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہو یا چھپی ہوئی“(سورۃ انعام)۔لہٰذا ہمیں ایسی مجالس، محافل اور دوست و احباب سے اجتناب کرنا چاہیے جو ہمیں گناہوں کی طرف مائل کرتے ہوں۔امید ہیکہ تمام فحش گو اپنی بے شرمی سے باز آجائیں گے ورنہ وہ دن بھی دور نہیں کہ انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی، ہمیں فحش گوئی جیسے بیہودہ گناہ سے پچنے کی اور اپنے نفس پر قابو پانے کی نیز ان نصائح پر ہمیں اور تمام مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،آمین ثم آمین۔
آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں برباد ہوں
اب تو اس دل کو بنانا ہے ترے قابل مجھے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں