ایمرجنسی..آزاد ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دور اور آج …

سویرے والی گاڑی سے چلے جائیں گے
کچھ لے کے جائیں گے کچھ دے کے جائیں گے
اس وقت ہمارا اخبارات کا مطالعہ رہنمائے دکن کے دوشنبہ ایڈیشن تک محدود تھا۔ مگر اندرا گاندھی کی ہار کے بارے میں پڑھنے کا تجسس پیدا ہوا۔ بہت کچھ پڑھا مگر اس وقت سمجھ میں نہیں آیا۔ اُسی زمانہ میں ماہنامہ بیسویں صدی میں خوشتر گرامی کے کارٹونس اور تیر و نشتر بہت شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ جس میں انہوں نے اندرا اور سنجے گاندھی کو گائے اور بچھڑے سے تشبیہ دی۔ اتفاق سے اس وقت کانگریس کا انتخابی نشان گائے اور بچھڑا ہی تھا۔ خوشتر گرامی کا کہنا تھا کہ بچھڑے نے گائے کو قربان کردیا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ سنجے گاندھی کی ڈکٹیٹرشپ اور امور اقتدار پر مکمل کنٹرول من مانی نے ہندوستان کی جمہوری اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا تھا۔ ایمرجنسی کی برخواستگی کے بعد رام پور سے شائع ہونے والے ماہنامہ الحسنات نے ایک کتاب ’’زنداں نامہ‘‘ شائع کی تھی جس میں جماعت اسلامی کے قائدین و ارکان کو ایمرجنسی کے دوران جیل میں دی گئی اذیتوں کی روداد شامل تھی۔ اس کم عمری میں بھی ایمرجنسی کے ظالمانہ واقعات کا ذہن پر ایسا اثر ہوا جو ابھی تک باقی ہے۔ پولیس نے درندگی کے تمام حدود کو پار کردیا تھا۔ ٹارچر کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا گیا تھا۔ یقیناًایسے مظالم جن سنگھ، آر ایس ایس کے علاوہ کانگریس کے مخالف جماعتوں کو ارکان کے ساتھ بھی کئے گئے ہوں گے۔ وہ دور صرف اخبار اور ریڈیو کا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اخبارات حکومت کے تابع ہوچکے تھے۔ ریکارڈس کے مطابق صرف انڈین ایکسپریس نے حکومت کی تابعداری نہیں کی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہر خبر اور تصویر کو سنسر کے مرحلے سے گذر کر چھپنا ہوتا تھا۔ بھلے ہی عریاں تصاویر کیوں نہ ہوں انہیں چھاپنے کی اجازت تھی۔ مخالف حکومت کوئی خبر یا تصویر کی اشاعت کی اجازت نہیں تھی۔ اپوزیشن قائدین صحافتی اقدار کے پاسبان صحافی جیلوں میں تھے۔ راج تھا تو سنجئے گاندھی اور ان کی چنڈال چوکڑی کا۔
بہرحال اندرا گاندھی کو آخر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اندرا گاندھی تو اس وقت ناقابل چیالنج لیڈر تھیں جنہوں نے پاکستان میں فوج داخل کرکے بنگلہ دیش کو آزاد کروایا۔ اور ہندوستان کی اس کامیابی پر اس وقت ان کے کٹر مخالف اٹل بہاری واجپائی نے تک انہیں درگا دیوی کا خطاب دیا تھا۔ اس کے باوجود اندرا گاندھی کو اپنی کرسی بچانے کیلئے ایمرجنسی کا سہارا لینا پڑا۔ اس لئے کہ حکومت اور مکمل کنٹرول کے باوجود پارٹی میں اندرونی طور پر ان کی مخالفت بڑھ چکی تھی کیوں کہ پارٹی اور حکومت کے امور پر آہستہ آہستہ اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا تھا۔ محض سنجے کی بات نہ ماننے پر چند لوگوں میں مرکزی وزیر اندر کمار گجرال کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
ایمرجنسی کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب الہ آباد ہائی کورٹ نے 1971ء میں اندرا گاندھی کے لوک سبھا کے لئے دوبارہ انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ 12؍جون 1975ء کو کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اسے چیالنج کیا گیا۔ 24؍جون 1975ء کو سپریم کورٹ نے اندرا گاندھی کو مشروط حکم التوا منظور کیا جس کے تحت انہیں رکن پارلیمنٹ رہنے کی اجازت دی گئی مگر پارلیمانی کاروائی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی کو ایمرجنسی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ لوک نائک جئے پرکاش نارائن کی تحریک اس وقت اپنی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ جئے پرکاش نارائن کو آزاد ہندوستان کا گاندھی کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اندرا گاندھی کے استعفیٰ کے مطالبے میں شدت پیدا کرتے ہوئے تحریک سیول نافرمانی کا اعلان کیا تھا اور عوام سے اس وقت تک مکمل انقلاب کی اپیل کی تھی تاوقتیکہ اندرا گاندھی مستعفی نہیں ہوتیں۔ پورے ملک میں اس پُرتشدد تحریک کا زبردست اثر دیکھا جارہا تھا۔ جئے پرکاش نارائن کے ساتھی مرارجی دیسائی جو کبھی مسز اندرا گاندھی کے نائب رہے تھے انہوں نے ایک صحافتی انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ اندرا گاندھی کی قیامگاہ کا محاصرہ کرکے انہیں اقتدار سے بے دخل کیا جائے گا۔ بہرحال ان حالات کے پس منظر میں اگر تاریخی دستاویزی شہادتوں پر یقین کرلیا جائے تو اس وقت کے چیف منسٹر مغربی بنگال سدھارتھ شنکر رے نے مسز گاندھی کو ایمرجنسی کے نفاذ کا مشورہ دیا اور مسز گاندھی نے 24؍جون 1975ء کی شب صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کو ایمرجنسی کے نفاذ کی سفارش کی۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ کی کیا اہمیت ہے فخرالدین علی احمد نے پہلی مرتبہ ہندوستانی عوام کو اس کا احساس دلایا (گیانی ذیل سنگھ نے راجیو گاندھی سے بعض معاملات میں بحث و مباحث کرکے اس عہدہ کے وقار کو بحال کیا)۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی واجپائی، جارج فرنانڈیز، مرارجی دیسائی جیسے سرکردہ قائدین جیل پہنچا دےئے گئے۔ 26؍جون کو گجرال کی جگہ وی سی شکلا وزیر اطلاعات و نشریات مقرر کئے گئے جنہیں اس دور کا گوبلز کہا جاتا ہے اور جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ جوزف گوبلز (1897-1945) جرمنی کے ڈکٹیٹر ہلٹر کا دست راست تھا وہ جرمنی کا چانسلر بھی تھا۔ پروپگنڈہ کا ماہر اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرنے میں اسے ملکہ حاصل تھی۔ وی سی شکلا نے گوبلز کا رول ادا کیا اور ہٹلر کا رول سنجے گاندھی ادا کررہے تھے۔ ایمرجنسی کے 19 مہینے ہندوستان کی تاریخ کا بدترین دور سمجھا جاتا ہے کیوں کہ حکومت اور کارندوں نے ہر قسم کے مظالم ڈھائے۔ اس دور میں سنجے گاندھی نے آبادی پر کنٹرول کے لئے فیملی پلاننگ یا نس بندی کا اطلاق کیا۔ ہر ریاست کے لئے نس بندی کوٹہ کا الاٹ کیا گیا۔ سرکاری کارندے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے حد سے آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں تک نس بندی کردی۔ ایک عام اندازہ کے مطابق 1976-77 کے درمیان 83لاکھ افراد کی نس بندی کی گئی۔ اس دور کا ایک اور بدترین واقعہ دہلی میں ترکمان گیٹ کے سلم علاقے کے جبری تخلیے کے لئے ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جگیوں اور جھوپڑ پٹیوں کی صفائی کے لئے یہ دیکھے بغیر بلڈوزر چلائے گئے کہ آیا ان میں کوئی انسان موجود ہے یا نہیں۔ عدلیہ ہندوستانی جمہوریت کا سب سے اہم ستون رہا ہے۔ مگر عدلیہ کو بھی اندرا اور سنجے گاندھی نے اپنا تابع بنالیا تھا۔ 19 ماہ بعد ایمرجنسی ہٹائی گئی۔ الیکشن ہوئے۔ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی دونوں ہار گئے۔ کانگریس 153نشستوں پر سبقت کی۔ مرارجی دیسائی کی قیادت میں جنتاپارٹی کی حکومت تشکیل دی گئی۔ مگر جنتا پارٹی کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں تھی۔ آپسی رشہ کشی، گروہ بندی نے جنتا پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا۔ 1980ء میں اندرا گاندھی ایمرجنسی کے لئے عوام سے معافی مانگ کر دوبارہ اقتدار پر آگئیں۔ مگر سنجیے گاندھی کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ وہ تربیتی طیارہ کے حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔
ایمرجنسی کی 40ویں برسی کے موقع پر بھارتیہ جنتاپارٹی کے معمر قائد ایل کے اڈوانی نے ایک انگریزی اخبار کو دےئے گئے انٹرویو میں یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ ملک کے حالات ایسے ہیں‘یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوبارہ ایمرجنسی نافذ نہ ہو۔ کمیونسٹ لیڈر سومناتھ چٹرجی اور بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے اڈوانی کے اندیشے کی حمایت کی۔ اڈوانی کو پارٹی میں نظرانداز کردیا گیا۔ نتیش کمار کو بہار کاا لیکشن جیتنا ہے اس لئے ان کے بیانات کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ 40برس پہلے ایک نعرہ عام کیا گیا ’’India is Indira

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے