عام انتخابات: مسلمان جائیں تو جائیں کہاں

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

رواں عام انتخابات میں مسلمان کس ریاست میں کس پارٹی کے ساتھ جائینگے اور کس کے ساتھ جانا چاہئے؟ کیا نریندر مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کا خواب مسلمان ووٹروں کے سبب چکناچور ہوگا اوردوبارہ دہلی پر قبضے کا کانگریس کا خواب مسلمانوں کے سبب پورا ہوگا؟ کیا علاقائی پارٹیاں اس بار مسلمان ووٹروں کے سبب کنگ میکر بن کر ابھرینگی؟ ان دنوں اس قسم کے سوال خوب اچھل رہے ہیں مگراس تلخ حقیقت کی جانب نہ تو میڈیا کی نظر ہے اور نہ ہی مسلمان سوچ رہا ہے کہ آزادی کے بعد گزشتہ اکہتر برسوں میں جو مسلمانوں کی حالت بدسے بدتر ہوئی ہے،اس صورتحال سے چھٹکارہ کیسے ملے گا؟ مسلمان کی روزافزوں تعلیمی پسماندگی کیسے دور ہوگی؟ سرکاری ملامتوں میں اسے مساوی مواقع کیسے ملیں گے؟ کونسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے گی؟ یوں تو آزادی کے بعد ملک کو جس طرح ترقی کرنا چاہئے تھا نہیں کیا اور دلتوں، قبائلیوں،پسماندوں، غریبوں اورکسانوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوامگر ان معنوں میں مسلمان زیادہ مظلوم ہیں کہ انھیں قانونی طور پر بھی انصاف دینے کی کوشش نہیں ہوئی۔ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے لئے جس قدر کانگریسی اور دوسری حکومتیں ذمہ دار ہیں، اتنے ہی خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں۔ 2019کے عام انتخابات کا دور دورہ ہے اور آج مسلمان، خود کو جس قدر حاشیئے پر محسوس کر رہا ہے ،ماضی میں کبھی ایسی بے چارگی نہیں دیکھی گئی۔آج کوئی بھی پارٹی مسلمانوں سے ووٹ مانگنے نہیں جارہی ہے۔ اسے اندیشہ ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں اس کے ہندوووٹر ناراض نہ ہوجائیں۔ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے سے بھی گریز کیا جارہا ہے اور جن سیٹوں پر مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں ،وہاں کئی کئی مسلمان امیدوارآپس میں دست بہ گریباں ہوکر بی جے پی کی راہ آسان کر رہے ہیں۔
مسلم قیادت کا فقدان
مسلمانوں کے پاس ’اپنے‘ سیاسی لیڈران نہیں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے جو برائے نام لیڈران تھے وہ بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ کسی زمانے میں یہیں سے ڈاکٹرفریدی کی تحریک ابھری تھی اور مسلم قیادت بنانے کی کوشش ہوئی تھی مگر آج پورے یوپی میں ایک مسلمان لیڈر نظر نہیں آتا۔ اعظم خان سب سے دھاکڑ لیڈر سمجھے جاتے تھے مگر سماج وادی پارٹی کو اب ان کے وجود کا احساس ہی نہیں ہے۔ حالانکہ انھوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو سیاست میں اتار دیا ہے مگر ان کا مستقبل کیا ہوگااللہ جانے۔ سماج وادی پارٹی میں ہی ایک احمد حسن بھی ہیں جو عمر دراز ہوچلے ہیں۔ اسی پارٹی کے ایک بیباک لیڈر ابوعاصم اعظمی ہیں جو مہاراشٹر میں پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اور ممبرپارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ اعظمی مسلمانوں کے بڑے لیڈر بن سکتے تھے کیونکہ وہ اچھے مقرر ہیں اور دولت مندشخص بھی ہیں مگر انھیں بھی مسلمانوں کی حمایت کچھ ہی دن تک ملی۔ اب ان کے بیٹے فرحان اعظمی بھی سیاست میں ہیں۔ کانگریس میں اترپردیش سے سلمان خورشید آتے ہیں جو سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے ہیں۔ وہ کانگریس میں اہم وزارتوں کی ذمہ داریاں دیکھتے رہے ہیں مگر آج اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ الیکشن سے جیت سکیں۔ انھوں نے وزیر رہتے ہوئے کبھی مسلمانوں کے حق کی بات نہیں کی اور آج خود عضو معطل بن گئے ہیں۔مختار انصاری اور عتیق احمد جیل میں ہیں جب کہ مولانا عبیداللہ خان اعظمی ایک بار پھر مذہبی جلسوں تک محدووہیں۔
اگر بہار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک وقت تھا جب کشن گنج، ارریہ، پورنیا، کٹیہار، دربھنگہ، مدھوبنی، شیوہر، مغربی چمپارن (بیتیا)، سیوان، بھاگلپور، بیگوسرائے، کھگڑیا وغیرہ ایسے لوک سبھا علاقے تھے، جہاں سے مسلم امیدواروں کو انتخابات لڑنے کا موقع ملا۔ کچھ نے جیت پائی اور کچھ نے اپنی مضبوط موجودگی درج کرائی لیکن اچانک امیدواروں کی تعداد میں کمی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات موجود ہیں مگر سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں نئی قیادت کا فقدان ہے۔ مسلمانوں میں ایک لمبے ٹائم سے کوئی نئی قیادت نہیں ابھری ہے۔ پچھلے دنوں کشن گنج کے ممبرپارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی کا انتقال ہوگیا تو اب ان کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ سیوان کے ایم پی محمد شہاب الدین جب جیل چلے گئے تو ان کی جگہ لینے والا کوئی مسلمان نظر نہیں آیا۔ بہار کے لیڈروں میں سابق مرکزی وزیرعلی اشرف فاطمی، سابق ایم پی ڈاکٹر ایم اعجازعلی، سابق ایم پی علی انور انصاری،ان دنوں عضو معطل بن گئے ہیں۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے کچھ مسلمانوں کو لیڈر کے طور پر ابھرنے کا موقع دیا ہے جن میں کلکتہ کارپوریشن کے میئر فرہادحکیم، ممبرپارلیمنٹ ادریس علی، ندیم الحق، ساجدہ احمد، ریاستی وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری کے نام شامل ہیں۔سی پی آئی ایم سے رائے گنج کے ایم پی محمد سلیم بھی قابل ذکرہیں مگر یہ لوگ مسلمانوں کے کم اور پارٹی کے زیادہ ہیں۔
جنوبی ہند سے سیاست میں جو مسلم لیڈران سرگرم رہے ہیں ان میں کرناٹک سے جعفرشریف تھے جو وزیر ریل بھی بنے ۔ کرناٹک سے ہی کے رحمان خان آتے تھے ۔ جنوبی ہند کے موجودہ لیڈروں میں روشن بیگ ،ضمیراحمد خان، عبدالقادرہیں جو کانگریس سے ہیں۔ جب کہ کیرل میں مسلم لیگ کے لیڈران میں پی کے کنہہ علی کٹی، ای ٹی محمد بشیر اور پی وی عبدالوہاب کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔تلنگانہ میں اویسی برادران کے بعد ریاستی وزیر محمودعلی خان قابل ذکر ہیں۔
مسلمان امیدواروں کو ووٹ نہیں
مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلم لیڈروں نے شاید ہی کبھی مسلمانوں کے حق کے لئے آواز اٹھائی ہو مگر اب یہ ’برائے نام مسلم قیادت‘بھی تقریباً ختم ہونے پر ہے۔ حالیہ ایام میں ایک بڑی تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ فرقہ وارانہ تعصب میں اضافہ کے سبب مسلم امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں میں بھی کمی آئی ہے۔ گزشتہ دو انتخابات کے اعداد و شمار گواہی دیتے ہیں کہ مسلم امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ 2014 میں، 22 مسلم امیدواروں نے جیت حاصل کی تھی، جو اب تک کا سب سے کم رکارڈ ہے۔ 2009 میں کل 41.71 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالے تھے جبکہ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 55.38 کروڑ ہو گئی تھی لیکن مسلم امیدواروں کے ووٹ کم ہوگئے۔ 2009 میں، مسلم امیدواروں نے مجموعی طور پر 2.89 کروڑ، یا 6.9 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 2014 کے انتخابات میں، اعداد و شمارگھٹ کر 2.78 کروڑ پر آگئے۔ یہ مجموعی ووٹ کا 5 فیصد ہے۔ 2009 میں ایک مسلم امیدوار کو اوسطا 34ہزار،948 ووٹ ملے، وہیں ایک عام امیدوار کو 51ہزار،692 ووٹ ملے۔ جب دوسرے امیدواروں کوملنے والے ووٹ میں اضافہ ہوا، تو مسلم امیدواروں کے ووٹ میں کمی آئی۔
مسلمان کس کے ساتھ؟
رواں لوک سبھا الیکشن ، مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی لائے گا، ایسا نہیں لگتا۔ مسلمانوں کی جو صورت حال ہے، اس کے لئے سیاسی شعورکی کمی اور ملک کے حالات ذمہ دار ہیں۔ مسلمان اگر اپنی اگلی نسل کو بہتر طور پر تعلیم یافتہ بنائیں تو ممکن ہے، آنے والے دنوں میں اس مسئلے کا کوئی حل نکلے، مگر ہربار کی طرح آج بھی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا ایشو بی جے پی کو شکست دینا ہے۔ مسلمان اپنے مفاد کے تعلق سے نہیں سوچ رہے ہیں۔اگر راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات اور مہاراشٹر میں وہ کانگریس کو ووٹ دینے کے لئے مجبور ہیں تو اترپردیش میں ایس پی، بی ایس پی اتحاد، بہار میں مہاگٹھبندھن، مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے ساتھ جارہے ہیں۔کرناٹک میں کانگریس وجنتادل (سیکولر)، کیرل میں کانگریس، کمیونسٹ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے بیچ منقسم ہیں تو تلنگانہ میں ایم آئی ایم وٹی آرایس اور آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس، ٹی ڈی پی وکانگریس کے ساتھ جارہے ۔ آسام میں مسلمان یوڈی ایف وکانگریس کے ساتھ جارہے ہیں تو دہلی میں ان کی اکثریت عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ وہ ایسا کربی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیں گے ۔ حالانکہ وہ جن پارٹیوں کو ووٹ دے رہے ہیں وہ محض اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔ کانگریس کی کوشش ہے کہ وہ آسام میں یوڈی ایف، دہلی میں عام آدمی پارٹی، اترپردیش میں سماج وادی پارٹی وبہوجن سماج پارٹی کو ختم کردے، خواہ اس کوشش میں بی جے پی کو نئی زندگی مل جائے۔ کیرل میں کانگریس اور کمیونسٹ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں تو مغربی بنگال میں دونوں ہی ترنمول کانگریس کا صفایا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔یعنی کسی پارٹی کو بی جے پی کی شکست سے مطلب نہیں ہے بلکہ اپنا مفاد عزیز ہے اور الیکشن میں مسلمانوں کاووٹ لینے کے بعد ان میں سے کوئی بھی پارٹی بی جے پی کے ساتھ جاسکتی ہے۔ کوئی کھل کر حمایت کرسکتی ہے تو کوئی پس پردہ مدد کرسکتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے سامنے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

03 اپریل2019

«
»

کیا انتخابی میدان میں گاندھی اور گوڈسے کا مقابلہ ہے؟

سمجھوتہ بلاسٹ کیس: اگر بری ہوئے لوگ بے گناہ ہیں تو ذمہ دارکون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے