عید الاضحےٰ اورقربانی کے احکام قرآن و سنت کی روشنی میں

ابونصر فاروق

(1)     قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمہارا یہی نام ہے، تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بنو……(الحج:۸۷) 
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ اپنے باپ ابراہیم کے طریقے کو اپنا لو۔یعنی مسلم(اللہ کے فرماں بردار اور تابع دار بن جاؤ)اللہ نے پہلے بھی اپنے نیک اور صالح بندوں کا نام مسلم رکھا تھا اور اب قیامت تک اُس کے نیک اور صالح بندے مسلم کے نام سے ہی پہچانے جائیں گے۔دوسری بات یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دی تھیں، اس لئے اب ہر مسلم کا فرض ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر زندگی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائے۔جو ایسا نہیں کرتا وہ مسلم نہیں بن سکتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ قربانی کے بغیر کوئی فرد یا قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی ہے۔اس قربانی کے حکم میں جان کی قربانی بھی شامل ہے۔ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی دی تھی،اللہ نے بیٹے کو بچا لیا اور مینڈھے کی قربانی دے دی۔یعنی اب ہر مسلمان ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر چلتے ہوے عید اضحی میں جانور کی قربانی دے۔اور اس نیت کے ساتھ دے کہ کل اگر اللہ کی راہ میں اپنی جان دینے کی ضرورت پڑے گی تو وہ اس کے لئے بھی تیار ہے۔جو ایسی نیت نہ کرے اُس کی قربانی نہیں ہوتی ہے۔
(2)     نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون،مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔اُس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر(قبضے میں) کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبی ﷺ بشارت دے دو نیکو کار لوگوں کو۔(الحج:۷۳)
     تم جس جانور کی قربانی کرتے ہو وہ جانور اللہ تک نہیں پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ یعنی اللہ کا جو ڈر ہے وہ پہنچتا ہے۔جس آدمی کے اندر اللہ کا ڈرہے ہی نہیں، اُس کی قربانی ایک رسم تو بنتی ہے لیکن اللہ جس قربانی کو پسند کرتا ہے وہ نہیں ہوتی ہے۔ہر قربانی کرنے والے کو اپنے اندر پہلے تقویٰ پیدا کرنا چاہئے۔انسان کا تقویٰ ہی اللہ کے نزدیک اُس کا مقام و مرتبہ بلند کرتا ہے۔
(3)     نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جس شخص کو (قربانی کی)طاقت ہو او ر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابو داؤد)
     جو آدمی قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ عید اضحی میں قربانی ضرور کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اُس کو عید اضحی کی نماز پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ نبیﷺ کا نافرمان ہے اور نبیﷺ کا نافرمان مسلم ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
(4)     نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے۔قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لئے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔(ترمذی)ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بقرعید کے دن قربانی کا جانور خریدنے کے لئے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور چیزوں میں خرچ کرنے سے افضل ہے۔(طبرانی)
     عید اضحی کے دن جانور کی قربانی کرنے سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی محبوب عمل ہے ہی نہیں۔جو آدمی قربانی نہیں کر کے رقم بانٹے گا کیا وہ ہر بال کے بدلے نیکی کرنے سے محروم نہیں رہے گا ؟رسول اللہﷺ دس سال مدینہ میں رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔جو لوگ قربانی کی جگہ رقم غریبوں پر خرچ کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بے علم اور بے دین ہیں۔وہ انسانی ہمدردی کے پردے میں اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کرانا چاہتے ہیں۔
 (5)    حضرت عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے بقرعید کے دن فرمایا:آج کے دن کوئی شخص قربانی سے بہتر کوئی عمل نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ صلہ رحمی کرے۔(طبرانی)صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھنا اور ضرورت کے وقت اُن کی مدد کرنا اور اُن کے کام آنابقرعید کے دن  قربانی کرنے جیسا عظیم عمل ہے۔آج کے بدنصیب دولت مند مسلمان اپنے غریب رشتہ داروں سے ناطہ توڑے اور منہ موڑے رہتے ہیں۔

(6)     نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو اُس نے اپنی ذات کے لیے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اُس کی قربانی پوری ہوئی۔ اُس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔(بخاری) نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے(قربانی کا حکم نہیں جاننے کی وجہ سے) قربانی کر لی، و ہ دوبارہ قربانی کرے۔(بخاری)جس نے جان بوجھ کر ایسا کیا اُس نے نیکی نہیں کی گناہ کیا۔
(7)     نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین ن سے زیادہ نہ کھایا کرو۔(بخاری) جب اگلے سال (قربانی کا دن آیا تو) صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم لوگ پچھلے سال کی طرح کریں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا:نہیں وہ ایسا سال تھا جب لوگ سخت ضرورت مند تھے تو میں نے چاہاکہ (قربانی کا گوشت)اُن میں پھیل جائے۔ (مسلم)
    شروع میں مسلمان تنگی کا شکار تھے اور مفلس تھے اس لئے حکم دیا گیا کہ قربانی کا گوشت کھانے کے ساتھ بانٹو بھی جمع کر کے مت رکھو۔آگے کی حدیث بتا رہی ہے کہ جب خوش حالی آ گئی اور کسی کو گوشت کی تنگی نہ رہی تو پھر یہ پابندی ختم کر دی گئی۔آج کل دولت مند مسلمان اپنے کھانے کے لئے  بکرا ذبح کرتے ہیں اور بانٹنا ہوتو بڑا جانور کرتے ہیں۔یہ نیت کی خرابی اور ضرورت مند بندوں پر خرچ کرنے میں بخیلی ہے۔اللہ تعالیٰ بخیل بندے کو پسند نہیں کرتاہے۔نبیﷺنے فرمایا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسرے کے لئے پسند کرو۔اس لئے ایساکرنے والے نبیﷺ کے بھی نافرمان ہیں۔
(8)     نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صرف دو دانت والی (یعنی ایک سال والی)بکری کی قربانی کرو۔ (بخاری)قربانی کے لئے دتا ہوا یعنی ایک سال کا جانور ہونا ضروری ہے۔اگر جانور ایک سال کا نہ ہوا ہو اور وہ دیکھنے میں ایک سال کا لگ رہا ہو تو اُس کی قربانی بھی ہو جائے گی۔شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ کسی فطری کمزوری کی وجہ سے ایک سال کے جانور کے دو دانت نہیں نکلے ہوں، تی ایسی حالت میں اُس کی قربانی جائز ہے۔
(9)      عبد الرحمن ؓبن عوف نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کونہ کاٹے۔(مسلم) عید کا چاند نکل جانے کے بعد قربانی کرنے والا اپنی داڑھی اور ناخن نہ بنائے۔جب ہر مسلمان داڑھی رکھتا تھا اور یہ سوچاہی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی مسلمان بھی ہو اور اُس کی داڑھی نہ ہو۔لیکن اب داڑھی مسلمانوں کی پہچان نہیں رہ گئی۔داڑھی رکھنا فیشن بن گیا اور غیر مسلم بھی شوق سے داڑھی رکھنے لگے۔جو مسلمان داڑھی نہیں رکھتا ہے اُس کے لئے اوپر کے حکم پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔جب وہ داڑھی نہیں رکھنے کا گناہ کر ہی رہا ہے تو بقرعید کا چاند دیکھ کر داڑھی اور ناخن کاٹنے کا گناہ بھی ڈھیٹ بن کر کرے۔
(10)     ایک صحابی دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے۔ ایک نبیﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے۔ اُن سے پوچھا گیا(ایسا کیوں کرتے ہیں؟) تو اُنہوں نے بتایا کہ مجھے اسی کا حکم نبی اکرمﷺنے دیا ہے اس لئے میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ (ترمذی)
    یہ حدیث بتا رہی ہے کہ جب نبی ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے تب بھی اُن کی محبت میں اُن کے صحابی اُن کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ مرحوم کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے، دوسرے یہ کہ محبت رسولﷺ کی نشانی ہے کہ اُن کی طر ف سے قربانی کی جائے۔لیکن غریب اور نادار لوگ ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔جو اپنی قربانی نہیں کر سکتا وہ رسول کی قربانی کیسے کرے گا ؟
(11)     نبیﷺ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایایہ میری امت کے اُن لوگوں کی طر ف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔(ترمذی) عبد اللہؓ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ ایک بکری کی قربانی ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی۔اس حدیث میں آگے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شروع میں جب مفلسی کا دور تھا تو قربانی ایسے ہی ہوتی تھی۔یعنی ایک قربانی پورے گھر بھر کی طرف سے ہوتی تھی۔ پھر جب خوش حالی آ گئی تو نام و نمود کے لئے قربانی زیادہ کی جانے لگی۔ابھی بھی غریب آدمی گھر میں ایک قربانی کر لے تو اللہ تعالیٰ سارے گھر والوں کو اُس کا اجر دے گا۔لیکن مالداروں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔نادار لوگوں کو بکرے کا گوشت کھانے کو نہیں ملتاہے۔مالدار لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بکرے کی قربانی کر کے مفلس ضرورت مندوں کو گوشت بانٹنا چاہئے۔ہر گھر کو اتنا گوشت بھیجنا چاہئے کہ گھر والے کم سے کم ایک وقت بکرے کے گوشت کا کھانا کھالے۔
(12)     نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو جانور لنگڑا ہو، اندھا ہو،بیمار ہو یا لاغر اور کمزورہو اُس کی قربانی نہ کرو۔ (ترمذی)
    قربانی کا جانور دراصل اللہ کے حضور ایک تحفہ ہے۔تحفہ اچھی چیز دی جاتی ہے۔گھٹیا اور عیب دار چیز تحفہ نہیں دی جاتی ہے۔ اس لئے کہا جارہا ہے کہ قربانی کا جانور ہر طرح سے صحت مند اوراچھا ہونا چاہئے۔لیکن اپنے شوق اور نام و نمود کے لئے قیمتی جانور کرنا گناہ ہے۔یعنی قربانی اللہ کے لئے نہیں اپنے رتبے اور نام و نمود کے لئے کی جارہی ہے تو یہ شرک کہا جائے گا۔ایسا شرک کرنے میں ہر فرقے کے لوگ شامل ہیں۔
(13)    نبیﷺنے عید الاضحیٰ کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی اور جس وقت اُن کا منہ قبلے کی طرف کیا تو اُس وقت فرمایا:”میں اپنا رخ اُس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلے اس کے تابعداروں میں سے ہوں۔ اے اللہ یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے اور تیرے ہی لئے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما۔“(ابن ماجہ)یہ ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ہے جب اُنہوں نے سورج چاند اور تارے کو دیکھ کر اللہ کو پا لیا تھا اور اللہ کی مکمل فرماں برداری کا اعلان کیاتھا۔نبی ﷺ نے اسی دعا کو قربانی کی دعا بنا دیا۔یہ دعا صرف زبان سے نہیں کرنی ہے بلکہ قربانی کرتے ہوئے ایسی نیت اور پکا ارادہ بھی ہونا چاہئے۔
(14)    صحابہ روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر(ذبح) کیا گیا۔اسحاق  ؓبن راہویہ کہتے ہیں کہ اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے بھی کفایت کر جائے گا۔(ترمذی)
    اس حدیث سے یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ بکرے یا مینڈھے کی قربانی صرف ایک آدمی کی طرف سے کی جائے گی لیکن گائے اور اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ کی قربانی د س آدمیوں کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے۔
(15)     نبیﷺ نے فرمایا اگر بکری یا گائے کی قربانی کے بعد اُس کے پیٹ سے مردہ بچہ نکلے تو چاہو تو اُسے کھالو۔ جانور کی قربانی کرنے میں اُس بچہ کی قربانی بھی شامل ہے۔(ابو داؤد)علی ؓنے کہا کہ گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طر ف سے کرو۔حجیہ نے پوچھا اگر اُس کے پیٹ سے(زندہ) بچہ نکلے تب ؟  اُنہوں نے کہا گائے کے ساتھ اُس کو بھی ذبح کر دو۔(ترمذی)
    بچہ اگر مردہ پیدا ہوا ہے تو اُس کی حیثیت ماں کے بدن کی سی ہوئی۔جس طرح قربانی کے جانور کے دوسرے اعضا یعنی دل،کلیجی،پھیپھڑا اور دوسری چیزیں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہیں،اُسی طرح پیدا ہونے والے بچے کو بھی کھایا جائے گا۔خریدے ہوئے مادہ جانور کے متعلق اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اُس کے پیٹ میں بچہ ہے یا نہیں۔اگر قربانی کے بعد بچہ نکل جائے تو کہا جارہا ہے کہ اُس کا کھانا حلال ہے۔ طبیعت کے مانوس نہیں ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ ساری چیزیں نہیں کھاتے ہیں اُسی طرح بچے کو کھانے میں بھی کراہیت ہو سکتی ہے۔جو اُسے کھانا چاہے کھائے ورنہ زمین میں دفن کر دے۔
(16)    قربانی کے گوشت کاتین حصہ کرنا چاہئے: ایک اپنے لئے، دوسرا رشتہ داروں کے لئے، تیسرا ضرورت مندوں کے لئے۔لیکن یہ فرض نہیں ہے، پسندیدہ ہے۔اگر قربانی کا گوشت کم ہو اور خاندان بڑا اور نادارہوتو پورا کا پوراگوشت خود ہی استعمال کیا جاسکتا ہے، بانٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گوشت کا حصہ اُن گھروں میں بھیجنا چاہئے جہاں قربانی نہیں ہوئی ہے۔رواج کے طور پر ان گھروں میں حصہ بھیجنا جہاں قربانی ہوئی ہے غلط ہے۔
(17)    قربانی ہر صاحب نصاب پر واجب ہے۔صاحب نصاب کا جانور خریدنے کے بعد مر گیا یا چوری ہو گیا تو اُس کی قربانی ہوگئی۔ اُسے دوسراجانور خریدنا ضروری نہیں ہے۔لیکن جس پر قربانی واجب نہیں تھی اور اُس نے شوق سے قربانی کا جانورخریدا اوروہ مر گیا یا چوری ہو گیا تو اُس آدمی کو دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنی ہوگی۔اللہ نے اُس پر قربانی واجب نہیں کی تھی، اُس نے جب خودسے خودپر قربانی واجب کر لی تو اُسے قربانی کرنی ہی ہوگی۔
(18)    قتادہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ذی الحجہ کے نویں تاریخ کے روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس روزے کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا۔(مسلم)۹/ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ رکھا جاتا ہے۔
(19)     گھر میں تو کھانے والا ہے نہیں،کس کے لئے قربانی کریں۔یہ سوچ گمراہی اور حکم شریعت کی نافرمانی ہے۔قربانی جب واجب ہے تو ضرور ہونی چاہئے،ضرورت بھر گھر میں رکھ کر باقی تقسیم کردینا چاہئے۔ دولت کے لالچی ایسا کرتے۔ان کو اللہ سے زیادہ اپنی دولت سے محبت ہوتی ہے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

 

«
»

آزادی کے 75 سال: جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار… شاہد صدیقی (علیگ)

حج کی ادائیگی __ لمحہ بلمحہ دم بدم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے