مولانا محمد مسلم ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جس نے ایسی زندگی بسر کی کہ اس کا حق ادا کردیا، تمام عمر حق پرستی کا علم تھامے رکھا اور بدی، بے انصافی اور ذہنی غلامی کا شکار بنانے والی ان تمام طاقتوں سے مقابلہ کیا جو انسانیت کی اعلیٰ خصائص سے محروم ہیں۔
یوں تو مسلم صاحب نے برصغیر کی اردو صحافت کو بھی اتنا کچھ دیا کہ کوئی بھی مورخ آزادی کے بعد کی صحافت کا ذکر کرتے وقت ان کے نام اور کام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بھوپال کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی اور اپنے تحریکی مزاج کی بنا پر جلد خاکسار تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز نوابی دو رکے مقامی روزنامہ ’ندیم‘ سے ہوا۔ آزادی کے بعد وہ جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہوگئے اور بعد میں دہلی منتقل ہوکر جماعت اسلامی کے ترجمان ’دعوت‘ کی ترویج واشاعت میں اپنی توانائیاں صرف کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرکے ہفت روزہ سے سہ روزہ اور بعد میں طویل مدت روزنامہ کی حیثیت سے ملت کے دلوں کی دھڑکن بنارہا لیکن ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کی ضرب نے اس اخبار کو اتنا نقصان پہونچایا کہ دوبارہ وہ بحیثیت روزنامہ اپنا مقام حاصل نہ کرسکا۔ اسی دوران ۱۹ ماہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی وجہ سے مسلم صاحب کی صحت بھی جواب دے چکی تھی چنانچہ دعوت دوبارہ شروع ہوا تو روزنامہ سے جلد سہ روزہ ہوگیا۔
مسلم صاحب تین چار سال تک مکمل طو رپر صاحبِ فراش رہے دماغ کے ٹیومر کا آپریشن فیل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صحت دن بدن گرتی جارہی تھی اور ۳جولائی ۱۹۸۶ء کی صبح ان کا وقت موعود آگیا اور اس طرح ملت کا یہ بہی خواہ اور درویش صفت صحافی ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہوگیا۔
مولانا محمد مسلم صاحب نے ۶۵سال کی عمر پائی جس کا نصف سے زیادہ حصہ جماعت اسلامی ہند کے لئے کام کرنے میں صرف ہوا اور جس خلوص، تندہی او رجگر کاوی کے ساتھ انہوں نے جماعت کی خدمت انجام دی، اس کا صلہ بھی انہیں ملا، وہ جماعت اسلامی کے ان مقتدر اور اہل الرائے رہنماؤں میں گنے جانے لگے جن کا احترام پورے عالم اسلام میں کیا جاتا تھا۔ جہاں تک اردو صحافت کی خدمت کا سوال ہے تو انہوں نے اپنی زندگی کا تہائی حصہ اس کی نذر کردیا اور روزنامہ ’ندیم‘ بھوپال میں وہ جو کچھ لکھتے رہے یا ’’دعوت‘‘ کے صحافت سے ان کی جو نگارشات منظر عام پر آتی رہیں ان میں جو پہلو سب پر غالب تھا وہ ان کا فکری میلان تھا لیکن اس چابک دستی بلکہ خاموشی کے ساتھ وہ اس کو قاری کے ذہن میں اتار دیتے تھے کہ جو کچھ مسلم صاحب اپنے الفاظ میں نہیں کہہ پاتے اس تک ان کا قاری خود ہی پہونچ جاتا تھا۔
تحریر کے اندر رہنمائی کا یہ عنصر جس سے پڑھنے والے کی ذہنی ساخت کے سانچے متعین ہونے لگیں کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ اس مقام تک پہونچنے کے لئے لکھنے والے کو اپنی نظریاتی بنیاد تیار کرنے کے لئے خود بھی کافی ریاضت کرنا پڑتی ہے اور اپنے نقطہ نظر سے اس انسیت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے جو ہر دم تازہ اور ولولہ انگیز رہے۔ ان کی تحریر کی ایک اہم خوبی یہی تھی کہ اس میں جھنجلاہٹ ، ماحول سے بیزاری اور تلخی کی جگہ خلوص کی گرمی حاوی ہوتی تھی۔ مسلم صاحب کی تحریر کا انداز ہمیشہ مدلل، تعمیری اور معتدل رہا ، یہی وجہ ہے ایک خاص جماعت کا آرگن ہوتے ہوئے بھی عوام وخواص کا اعتبار ’’دعوت‘‘ کو حاصل ہوگیا، یہانتک کہ مخالف بھی اس کی طرف جوق در جوق مائل ہونے لگے۔
مسلم صاحب مزاج کے اعتبار سے ضرور ایک صحافی تھے مگر طبیعت کے لحاظ سے صلح پسند اور عملی طور پر ایک محنتی کارکن تھے، ان تینوں پہلوؤں سے مل کر ان کی جو شخصیت تشکیل پائی تھی اس میں اردو کے صحافی کی حیثیت اور باعمل تحریک کار ہونے کی حیثیت میں ایک ایسا توازن پیدا ہوگیا تھا کہ ان کی تحریروں کو ان کی مقصدیت سے اور ان کی مقصدیت کو ان کی تحریروں سے علاحدہ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا حالانکہ انہیں جماعت اسلامی کی دوسری سرگرمیوں نے کبھی یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر پرورش لوح وقلم کی اجازت نہیں دی لیکن اس کے باوجود انہوں نے جو رقم کیا اسے پڑھ کر ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہے ہیں یعنی ان کی بیشتر تحریریں اپنی جگہ مکمل ہوا کرتی تھیں ۔
مسلم صاحب کی ایک اہم شناخت جماعت اسلامی کے فروغ اور اس کے پیغام کی اشاعت کیلئے ہمہ وقت فکر مندی اور خودسپردگی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے جماعت کے کام کو اپنا ذاتی غم بنالیا تھا، جماعت اسلامی کے لئے غوروفکر ، اس کی ترویج واشاعت کے لئے اپنے ذہن میں خاکے مرتب کرتے رہنا، یہی ان کی زندگی کا لائحہ عمل تھا۔
ویسے مسلم صاحب نے جماعت اسلامی کی قراردادوں سے لے کر اس کے موقف تک کی وضاحت اور عصری مسائل پر قلم فرسائی تک ہر کام انجام دیا، وہ چھٹی دہائی کی اہم مسلم نمائندہ تنظیم ’’مجلس مشاورت‘‘ کے بانی ارکان میں تھے لیکن ان کی بیشترتوانائیاں ’’دعوت دہلی‘‘ جماعت اسلامی کے کاز اور اسلام کی دعوت کیلئے مخصوص رہیں اور اپنی طبعی مناسبت نیز حضور قلب سے انہوں نے اس کا حق بھی ادا کردیا۔
مسلم صاحب کے دور ادارت میں ’’دعوت‘‘ نے خبروں اور تبصروں کے بارے میں معروضیت سے دست کشی کبھی اختیار نہیں کی اور صحافت کے اس زریں اصول پر اخبار ہمیشہ کا بند رہا کہ خبر مقدس اور اس کا تجزیہ امانت ہے، جس میں شعوری چھیڑ چھاڑ نہیں ہونا چاہئے ۔ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا سوال ہے تو وہ ضرور ہونا چاہئے لیکن پوری شائستگی کے ساتھ، خوشی ہے کہ پیش رو ایڈیٹر کی اس روش پر دعوت آج تک گامزن ہے۔ بالفاظ دیگر دعوت کو مسلم صاحب کی یہ دین ہے جس کی تفصیل ایک مختصر مضمون میں سما نہیں سکتی، مختصر الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ نظریاتی تعصب و تنگ نظری کو مسلم صاحب نے کبھی پنپنے نہیں دیا، نہ اخبار کو نام ونمود کا وسیلہ بنایا اس کے بجائے مضامین ومراسلوں کے ذریعہ مختلف نقطہ نظر کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
مسلم صاحب ایک جامع کمالات انسان تھے ، ذہانت وطباعی، راست بازی، نیک شعاری اور دوسروں کے کام آنا، ان کے معمولات میں داخل تھا۔ کسی تحریک سے جڑے آدمی میں ہم عصر تحریکات سے جو تعصب یا جانبداری پیدا ہوجاتی ہے مسلم صاحب میں اس کا کہیں گزر نہ تھا۔ اس رخ سے دیکھا جائے تو وہ بظاہر کسی خاص مکتب فکر کے آدمی نظر نہیں آتے تھے۔ بلکہ ان کا جو نظریہ تھا اس میں شرافت اور سیرچشمی کو ایک اہم مقام اور انسانیت کو خاص جگہ حاصل تھی۔ حضرات محمودالحسینی، صغیر بیدار، اوصاف سعید وصفی اور حبیب بدر جیسے کئی نوجوانوں نے مسلم صاحب سے متاثر ہوکر ، یا ان کے زیر نگرانی صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور ترقی کی منزلیں طے کیں، وہ اپنی ٹیم کے لیڈر ہی نہیں تربیت کاربھی تھے اسی لئے ان کے شاگرد بھی نیکی و شرافت کے نمونے ثابت ہوئے، اس نیکی کے جو انسان کا فطری زیور ہے اور اس شرافت کے جو انسانیت کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے مسلم صاحب کو پارس پتھر کہا جاسکتا ہے ، جس نے اسے چھو لیا وہ کندن بن گیا۔
مسلم صاحب عام گفتگو میں بھی نہایت متواضع، سلیقہ مند اور خوش گفتار انسان تھے، مجھے ان سے ملاقات کا کم اور اس سے بھی کم گفتگو کا موقع ملا لیکن ان مواقع کو یاد کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ سطحی گفتگو شاید ان کے بس کی نہیں تھی، کبھی کوئی لطیفہ بیان کرتے یا ہنسی مذاق کی بات کہتے تو اس میں بھی شریفانہ اوصاف کی پوری جھلک نظر آتی۔ غرض کہ وہ ایک صحافی و قلم کار کی حیثیت سے ہی منفرد نہ تھے جن لوگوں کا ان سے کچھ بھی واسطہ رہا وہ بھی انہیں کبھی بھلا نہ پائیں گے اور بقول جگرؔ :
جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
جواب دیں