آپ دنیا کے پرستار ہیں یا آخرت کے شہ سوار؟ جواب دیجیے!

 ابونصر فاروق:رابطہ

 (۱)    تنگی اور خوش حالی آزمائش ہے:
    تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیاتا کہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں، پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی مگر ان کے دل تو اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو،پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو،جو انہیں کی گئی تھی،بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لئے کھول دئے یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں، جو انہیں عطا کی گئی تھیں، خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیااور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لئے۔(سورہ انعام:آیات ۴۴/۵۴)
    اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں عیش ومستی کرنے نہیں آیا ہے،بلکہ آخرت کی کھیتی کرنے آیا ہے۔وہ اپنی محنت و مشقت سے عمل کر کے کھیتی یہاں کرے گا اور اس کھیتی کی لہلہاتی ہوئی فصل آخرت میں کاٹے گا۔لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا میں پیٹ پر پتھر باندھ کر رہے گا اوردل کی خواہشات کو قتل کر دے گا۔وہ دنیا میں بھی لطف اندوز ہوگا اور اس کی آرزوئیں بھی پوری ہوں گی لیکن حلال اور جائز کی شرط کے ساتھ۔وہ اپنے ایمان کے دعوے میں سچا ہے یا نہیں اس کا اسے اہل دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرنا پڑتا ہے۔اللہ کو تو معلوم ہی ہے کہ وہ کیا ہے اور کیسا ہے۔اس لیے اللہ کے لیے نہیں بلکہ خود اُس کے اپنے لیے ایسا ہوناضروری ہے۔اُس کے تمام اعمال کا ریکارڈ تیار کیاجارہا ہے جس کی بنیاد پر اُس کو جزا یا سز ا ملے گی۔جب وہ آزمائش سے گزر کر صبر و شکر کا رویہ اختیار کرے گا تب ہی تو اُس کے نامہئ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی اور وہ اجر و انعام کا حقدار بنے گا۔لیکن نادان انسان مصیبت کا شکار بن کر اللہ کو یاد کرنے اور صبر و شکر کرنے کی جگہ اپنی قسمت کو کوسنے لگتا ہے، اللہ سے شکوہ کرنے لگتا ہے اوراللہ کی جگہ دوسروں سے مدد کا طلب گار بن جاتا ہے۔یہ سب شیطانی عمل ہے اور شیطان اُس کو اس پر شاباشی دیتا رہتا ہے۔ایسا کرنے کے بعد اُس کو مزید گمراہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اُس پر نوازشوں کے دروازے کھول دیتا ہے اوروہ اس میں مگن ہو جاتا ہے۔پھر اچانک اللہ کی پکڑ اُس کو دبوچ لیتی ہے اوروہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے۔جو لوگ اسلام کے اس فلسفہئ حیات کو جانتے اور سمجھتے ہیں وہ نہ تو مصیبت میں ہمت ہارتے ہیں اور نہ خوش حالی میں خر مستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ایک اعتدا ل کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور رحمتوں کے حقدار بنتے ہیں۔
(۲)    قبر آخرت کی پہلی منزل:
        حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام ہانی کہتے ہیں کہ عثمانؓ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو روتے یہاں تک کہ اپنی داڑھی آنسوؤں سے تر کر لیتے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ جنت اور جہنم کی یاد پر آپ نہیں روتے اور قبر کی یاد پررونے لگتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟  اُنہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ قبر آخرت کے مراحل میں سے پہلا مرحلہ ہے، اگر آدمی کو یہاں چھٹکارا مل گیا توبعد کا مسئلہ اُس کے لئے آسان ہوگا، اور اگر یہاں چھٹکارا نہیں ملا تو بعد کے مراحل اُس کے لئے سخت تر ہوں گے،نیز میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میں نے جتنے ہولناک منظر دیکھے ہیں، قبر کا منظر اُن کے مقابلے میں شدید تر ہے۔ہانی کہتے ہیں کہ، میں نے دیکھا کہ حضرت عثمان ؓ ایک قبر کے پاس کھڑے یہ شعر پڑھ رہے تھے۔(ترجمہ)اے عثمان اگر تو قبر کی مصیبت سے نجات پا جائے تو ایک بڑی مصیبت سے نجات پا جائے گااور اگر یہاں نجات نہ ملی تو میرا خیال ہے کہ تجھے نجات ہی نہیں ملے گی۔(ترمذی)
    قبر میں پہلا سوا ل ہوگا تمہارا رب کون ہے ؟  یعنی دنیا میں کس کو اپنا رب بنایا تھا ؟  (۲)قبر میں دوسراسوا ل ہوگاتمہارا دین کیا ہے ؟  یعنی دنیا میں کس کے دین پر چلے تھے، دنیا والوں کے یا اللہ کے ؟  (۳)قبر میں تیسرا سوا ل ہوگا تمہارے پیغمبر کون ہیں ؟  جو آدمی ان سوالوں کا ٹھیک اور صحیح جواب دے گا اُس سے چوتھا سوال ہوگا تمہیں یہ باتیں کہاں سے معلوم ہوئیں؟ وہ جواب دے گا میں نے قرآن میں پڑھا۔
    حضرت عثمانؓ  عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔یعنی دنیا میں جنتی ہونے کی بشارت پانے والے دس افراد میں سے ایک۔اس کے باوجود اُنہیں قبر کے سوال و جواب کا خوف دہلائے رکھتا تھا۔اُن کی دین کی سمجھ،اُن کا ایمان، اُن کی عبادتیں، اُن کا تقویٰ اور پرہیزگاری اور اُن کازمانہ سب کچھ مثالی ہے، پھر بھی وہ اپنی نجات کے لئے کس قدر فکر مند رہتے تھے۔اور ایک آج کے مسلمان ہیں کہ اپنی نجات اور آخرت کی فلاح و کامیابی سے بے پرواہو کر محض دنیا کی کامیابی اور آرام و آسائش کے پیچھے دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ان کو نہ خدا کا ڈر ہے، نہ رسول سے محبت کا وہ انداز جو ہونا چاہئے اور نہ ہی آخرت اور قبر کے مراحل کی کوئی تیاری ہے۔کس قدر اطمینان سے وقت گزر رہا ہے۔ عیش کر لو اے میاں،زندگی پھر نا ملے گی دوبارہ۔
آخرت کے پانچ سوال
        رسول اللہﷺنے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی ہٹ نہیں سکتا جب تک اُس سے پانچ باتوں کے بارے میں حساب نہ لے لیا جائے۔ اس سے پوچھا جائے گا(۱) عمر کن کاموں میں گزاری ؟  (۲)جوانی کس مشغلہ میں گھلائی ؟  (۳) مال کس طرح کمایا ؟  (۴) مال کن کن کاموں میں خرچ کیا ؟   (۵)دین کا جو علم حاصل کیا اُس پر کہاں تک عمل کیا ؟  (ترمذی)
    اسلام کی تعلیم، تصور حیات و کائنات اور عقیدہ و ایمان یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی ایک آزمائش اور امتحان ہے۔انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، انسان کی ملکیت نہیں۔انسان کی ہوش مندی، دانش مندی اورفہم و شعور کا تقاضہ ہے کہ اس واضح اور مکمل تصور کے ساتھ زندگی کے شب و روز بسر کرے اور اس بات کو کبھی فراموش نہ کرے کہ اسے پل پل کا اور ذرّہ ذرّہ کا حساب دینا ہے۔
    زندگی کا جو موقع اُسے ملا ہے اُس کے ایک ایک پل کا اُسے حساب دینا ہوگا کہ یہ وقت اور وقفے اللہ کی فرماں برداری میں گزرے یا نافرمانی میں۔اسی طرح جوانی جو زندگی کا سب سے قیمتی وقت ہوتا ہے اُسے کن کاموں میں بسر کیا، اللہ کو خوش کرنے والے کاموں میں یا اُس کو ناراض کرنے والی مشغولیات میں۔آمدنی اور کمائے ہوئے سرمایے کے بارے میں عام تصور یہ پایاجاتا ہے کہ یہ ہماری ملکیت ہے ہم جیسے چاہیں اس کو خرچ کریں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ رزق اور روزی  ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت کسی کو زیادہ اورکسی کو کم دیتا ہے۔یہ روزی انسان نے جائز طور پر حاصل کی یاناجائز راستے سے کمایا ہے اور پھر اسے خرچ کن کاموں میں کیا۔آخرت میں کام آنے والے عمل خیر میں یا دنیا کی لذتیں حاصل کرنے کے کاموں میں۔اور پھر شعوری یا غیر شعوری طور پر دین کا جو علم حاصل ہوا اُس پر عمل کس حدتک کیاگیا۔ان سوالوں کا صحیح جواب دیے بغیر اللہ کے دربار سے چھٹکارا نہیں ہوگا۔ لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ قیامت میں ہونے والے ان سوالوں کا نہ تو علم ہے، نہ سمجھ اورنہ اس مرحلے سے آسانی کے ساتھ گزرجانے کی کوئی تیاری۔ عبرت پکڑو اے دیدہئ بینا رکھنے والو!
تین خطرناک وقت
    حضرت عائشہ ؓ کو جہنم کی یاد آئی تو رو پڑیں۔رسول اللہﷺنے  پوچھا تم روئیں کیوں ؟   اُنہوں نے کہا جہنم کی یاد آئی تو رلائی آ گئی۔ اے اللہ کے رسولﷺآپ قیامت کے دن اپنی بیویوں کو یادکریں گے ؟  رسول اللہﷺنے فرمایا:تین مواقع ایسے ہیں جہاں کوئی کسی کو یاد نہ کر ے گا۔ایک وہ موقع جب اعمال تولے جا رہے ہوں گے۔اُس دن ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی کہ ترازو ہلکی ہوتی ہے یا بھاری۔دوسرا وہ موقع جب اعمال کے نتائج ہاتھ میں دیے جائیں گے، دائیں ہاتھ میں یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں۔اور تیسرا وہ موقع جب جہنم پر پل صراط رکھا جائے گا اور آدمی اُس پر سے گزرے گا۔(ابوداؤد)
    یہ بہت ہی عبرت انگیز حدیث ہے۔جتنے بھی انسان پیدا ہوئے ہیں اُن میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پیارے حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اللہ نے اُن کو آخری نبی بنایا، اُن پر وہ کتاب اتاری جو قیامت تک باقی رہے گی، اُن کو معراج میں آسمان پربلایا اور غیب کی چیزیں دکھائیں اور بتائیں،مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اُن میں سے بھی کچھ چیزوں کا علم اُنہیں دیا۔مگر ان سبھوں کے باوجود حضرت محمد ﷺاللہ کے بندے ہیں رشتہ دار نہیں۔اللہ کے نزدیک بندگی کے اعتبار سے وہ عام آدمی ہی کی طرح ہیں۔اُن کا سارا اعزاز اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اُن کا اپنا نہیں ہے۔
    ان کی بہت پیاری زوجہ محترمہ قیامت کا تصور کر کے روپڑتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ کیا آپ اپنی بیویوں کو قیامت میں یاد رکھیں گے ؟  حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جب کوئی کسی کو یاد نہیں رکھے گا۔ سب کو اپنی فکر پڑی ہوگی۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جتنا زیادہ حضرت محمدﷺ جانتے اورپہچانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں پہچانتا۔ایک دوسری حدیث میں اس طرح کی بات ملتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت میں اپنا فیصلہ بدل دے اور کہے کہ سب کو جہنم میں جانا ہوگا تو کون ہے جو اُس سے یہ سوال کر سکے کہ مالک تو ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ اللہ کی یہی عظمت اور بزرگی ہے جس کے سامنے اچھے اچھے انبیا اور صالحین بھی سرجھکائے رہتے ہیں اور اُن کو اپنی بندگی، عبادت اورفرماں برداری بالکل حقیردکھائی دیتی ہے۔ امام الانبیاء کا جب یہ حال ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہونا چاہئے۔کاش مسلمانوں کو عبرت حاصل ہو!
تین نیکیاں باقی رہنے والی
    رسول اللہﷺنے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ کٹ جاتا ہے، مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ُان کا ثوا ب مرنے کے بعد بھی نامہئ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہے۔(۱) صدقہ جاریہ(۲)نفع بخش علم(۳)نیک اولاد۔(ترمذی)
     انسان کے لئے عمل کرنے کی مہلت اُس کی زندگی تک ہی ہے۔موت آتے ہی اللہ تعالیٰ آدمی سے عمل کرنے کا اختیار چھین لیتا ہے اور اُس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔موت کے بعد عمل کے انجام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اچھے عمل کا اچھا بدلہ اور برے عمل کا براانجام سامنے آنے لگتا ہے۔رسول اللہﷺفرماتے ہیں:تین چیزیں ایسی ہیں کہ مرنے کے بعد بھی وہ عمل بن کر کام کرتی رہتی ہیں اور مرنے والے کو اُن کا بدلہ ملتا رہتا ہے۔
    صدقہ جاریہ ایسے کام کو کہتے ہیں جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔جس شخص نے کوئی ایسا علم ایجاد کیا جس سے دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے تو جب تک وہ علم باقی رہے گا مرنے کے بعد بھی اُس کے ایجاد کرنے والے کو اُس کا ثواب ملتا رہے گا۔انسان کی نیک اولادایسی دولت ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اُس کی اولاد کی نیکیوں کا بدلہ اولاد کے ساتھ ماں باپ کو بھی ملتا رہتا ہے۔دنیا کے دولت مند وں کا اپنی دولت صرف دنیا کے عیش و آرام میں استعمال کرنا سخت نادانی ہے۔ دولت کا استعمال ایسے کاموں میں کرنا چاہئے جن سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچے اور یہ عمل اُن کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے۔اسی طرح لوگ اپنی اولاد کو دنیا میں ترقی کرنے والا تو بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ نیک مسلمان بن کر اپنے ماں با پ کو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی رہے اس کی فکر کسی کو نہیں ہوتی ہے۔اللہ کی نعمت کا غلط استعمال کر کے اولاد کی آخرت بھی برباد کرتے ہیں اورخودبھی اس کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔غور فرمائیے کہ آج کے ایسے لوگ نادان ہیں یا عقل مند ؟
    جو لوگ دین و شریعت کی باتوں کو نہ جانتے ہیں، نہ جانناچاہتے ہیں اورنہ اُن پر عمل کرنا چاہتے ہیں،اُ ن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جانور بلکہ جانور سے بھی بد تر کہاہے۔ ایسے لوگوں کی مثال کتے، گدھے اور بندر جیسے جانوروں سے دی گئی ہے۔آپ فیصلہ کیجئے کہ دور حاضر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی دولت مند لوگ جو اپنے کو انتہائی کامیاب اور خوش انجام سمجھ رہے ہیں،اُن کی باتیں صحیح اور درست ہیں یا اللہ او ر اُس کے پیارے نبیﷺ نے جو باتیں کہی ہیں وہ صحیح اور درست ہیں ؟  جو ایمان سے محروم ہیں وہ کہیں گے دنیا والے صحیح کہہ رہے ہیں۔اور جوایمان کی دولت سے مالامال ہیں وہ کہیں گے اللہ اور رسولﷺ کی بات حق اور حقیقت ہے۔پھر یہ بتائیے کہ آپ دنیا کے پرستار ہیں یا آخرت کے شہ سوار ؟  صارمؔ کہتے ہیں: 
دنیا کی ہوس نے اسے برباد کیا ہے
نادان سمجھتا ہے کہ آباد بہت ہے
اللہ نے ہر طرح نوازا اسے لیکن 
بے چین ہے غم گین ہے ناشاد بہت ہے

 

«
»

رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے