دعائے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی برکت

عبدالکریم ندوی گنگولی
           انسان گرچہ دنیوی وسعتوں، آسمانی بلندیوں اورزمینی تہوں کو پار کر جائے، شاذ ونادر اور خارق عادات چیزوں کو بروئے کار لائے اور وہ سب کرجائے جو عامۃً کسی فرد واحد ہی نہیں بلکہ پوری ایک جماعت سے صادر ہونے کا تصور بھی نہ ہو ،ان سب کے باوجود کائنات کی ہر شیئ کے ساتھ محتاجی و بے بسی ، غمی و خوشی لگی ہوئی ہے، صرف ایک خدائے واحد کی ذات کسی کی محتاج نہیں اور جس کی اجازت کے بغیر معمولی سی چیز میں جنبش تک پیدا نہیں ہوسکتی: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ( فاطر:۱۵) "اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز ہے، ہر تعریف کا بذات خود مستحق ہے" لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سوائے انسان کے ہر مخلوق خالق کی تسبیح میں محو ہے اور انسانوں میں بھی چند ایسی شخصیات ہیں جو اپنے رب کی تعریف و توصیف، عبادت و بندگی میں لگی ہوئی ہیں، ارشاد ربانی ہے" یُسَبحُ للہ مافی السموات ومافی الارض" آسمانوں اور زمین میں جوکچھ بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں".
         انسان اللہ کی بہت محبوب اور پیاری مخلوق ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اسے" اشرف المخلوقات" کے لقب سے نواز کر کائنات کی دیگر ساری مخلوقات کو اس کی خدمت میں لگادیا اور اس پر مستزاد انسانوں کو اس بات کا حکم دیا، چاہے خوشیوں کی بارات ہو یا غموں کی سیاہ رات ہر وقت، ہر لمحہ ذکر الٰہی اور تسبیح ربانی کو اپنا وطیرہ اور زندگی کا لازمی جزو بنالیں اور اسی کے سامنے اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کے لئے دست دعا دراز کریں، کیونکہ قرآن مجید میں اسی کا واضح فرمان ہے "وقال ربکم ادعونی استجب لکم"( المؤمن) اور تمہارے رب نے کہا ہے تم مجھے پکارو، میں تمہاری (دعائیں) قبول کروں گا" اور ایک جگہ ارشاد ہے" وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ  اِذَا دَعَانِ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ  لَعَلَّہُمۡ  یَرۡشُدُوۡنَ" اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں، لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں(البقرۃ: 186) اور یہ ذہن نشین رہے کہ دعا بذات خود بہت بڑی عبادت بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :الدعا ھو العبادۃ" دعا عین عبادت ہے (سنن ابی داؤد :1479).
            اسلام میں دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تقدیر پر ایمان رکھنا ہم مسلمانوں کا فریضہ ہے یعنی جو چیز ہونی ہے یا ہوگی، ان تمام کو کاتب تقدیر نے بإذن خداوندی لکھ دیا، اب اس میں تبدیلی ناممکن ہے، مگر دعا ایک ایسا ہتھیار ہے جس میں اللہ نے قضا کو بھی تبدیل کردینے کی قوت بخشی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے " لا یرد القضاء إلا الدعاء" کہ قضا کو ٹالنے اور دور کرنے والی چیز صرف دعا ہے(ترمذی:2139) ہوتا یوں ہے کہ انسان کے مقدر میں نقصان لکھا رہتا ہے لیکن وہ اس نقصان سے اللہ کی پناہ اور خیر و عافیت کی دعا کرتا ہے تو اس دعا کی برکت سے پیش آنے والے نقصان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے یا اسے ٹال دیا جاتا ہے، حفاظت کی دعاؤں میں ایک بہت ہی اہم دعا وہ ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو سکھائی تھی، جس کی برکت سے وہ ہر قسم کے مظالم اور فتنوں سے محفوظ رہے، اس دعا کو علامہ سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل فرمایا ہے اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اس کی شرح فارسی زبان میں تحریر فرمائی ہے اور اس کا نام "استیناس انوار القبس فی شرح دعا أنس" تجویز فرمایا ہے.
            لہذا ہم تمام ہندی مسلمانوں کے لئے عصر حاضر کے ناگوار حالات میں یہ دعا بہت ہی کارگر اور مفید ثابت ہوگی بشرط کہ یقین کامل شامل حال ہو، ان شاء اللہ انہیں اس کی برکت سے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں پہونچے گی، دعا یہ ہے "بِسْمِ اللہِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِی۔ بِسْمِ اللہِ عَلٰی اَھْلِیْ وَ مَالِیْ وَوَلَدِیْ۔ بِسْمِ اللہِ عَلٰی مَااَعْطَانِیَ اللہُ۔ اَللہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا۔ اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ، اَللہُ اَکْبَرْ، وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّااَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّکُلِّ شَّیْطَانٍ مَّرِیْدٍ۔ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّاہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ اِنَّ وَلِیَّ اللہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ".
          ہمارے یقین کی پختگی کے لئے اس دعا کی برکت سے رونما ہونے والا واقعہ بھی پیش خدمت ہے، شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر حافظ حدیث ہیں، انہوں نے نقل کیا ہے کہ ابو الشیخ نے "کتاب الثواب" میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں یہ واقعہ روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے، حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے، حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمایئے! اپنے آقا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اسی قسم کے گھوڑے اور نازونعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا! یقیناً میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بدرجہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے حضور سے سنا کہ گھوڑوں کی جو لوگ پرورش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں، ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور داد شجاعت دے گا، اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا، دوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے( یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)، تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پرورش نام اور شہرت کے لیے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے.
            حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں، حجاج یہ بات سن کر بھڑک اٹھا اور اس کے غصے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا :اے انس جو خدمت تم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا نیز امیرالمومنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے بابت لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:خدا کے قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظر بد سے دیکھ سکے، میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے، حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجئے! فرمایا : میں تجھے ہر گز نہ سکھاؤں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں.
            پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ سے چاہے تھے مگر آپ نے اس کو سکھائے نہیں، فرمایا :ہاں تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے، میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں، صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ و تعالی تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے.

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے