موصوف نے جب صحافت کی وادی میں قدم رکھا تھا اور روزنامہ قومی تنظیم ، پٹنہ سے بحیثیت رپورٹر منسلک ہوئے تھے، اس وقت کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُردو کا یہ نووارد اور نوجوان صحافی اتنی جلد صحافت کی دنیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلائے گا۔
دس سال قبل جب ڈاکٹر منصورخوشتر ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ (پندرہ روزہ) کا اجرا کیا تھا اس وقت برادر عزیز ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق لکچرر و صدر شعبۂ اُردو ویمنس کالج، حاجی پور نے ڈاکٹر منصورخوشتر کا غائبانہ تعارف کراتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ موصوف آپ کے بیٹا (محمد عارف حسن، ریسرچ اسکالر) کی عمر کے نوجوان ہیں۔ اُردو سے انہیں بچپن سے ہی والہانہ محبت رہی ہے۔ اُردو سے اسی محبت کے سبب ہی اردو صحافت سے ان کی وابستگی ہوئی۔ ڈاکٹر مشتاق نے جناب منصورخوشتر کی انسانی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے مزید بتایا کہ موصو ف بے حد خلیق، ملنساراور منکسرالمزاج نوجوان ہیں۔ اپنی شہرت اور مقبولیت پر انہیں کوئی فخر نہیں ہے۔موصوف دھن کے پکے انسان ہیں، جو ارادہ کرلیتے ہیں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔کچھ کر دکھانے کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق نے منصورخوشتر کو بچپن سے جوانی کا سفر طے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چونکہ دربھنگہ کا پرانی منصفی محلہ جہاں منصورخوشتر کا آبائی وطن ہے، اُسی محلے میں ڈاکٹر مشتاق صاحب کی خالہ امی کا بھی مکان ہے، جہاں عرصۂ دراز سے انس کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے منصورخوشتر کے تعلق سے ان کے مشاہدات اور تاثرات پر یقین نہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔
ڈاکٹرمنصورخوشتر سے گرچہ تادم تحریر میری کوئی ملاقات نہیں ہے لیکن اُردو اخبارات و رسائل کا قاری ہونے کے سبب ان کی سرگرمیوں اور ان کی فعالیت سے باخبر ضرور ہوں۔ یہ بات بہتوں کو معلوم ہے کہ موصوف مشرقی ہند کے کثیرالاشاعت اُردو روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ کے دربھنگہ بیوروچیف کے ساتھ ساتھ اس اخبار کے شخصیات ایڈیشن اور اسپیشل پیج کے بھی انچارج ہیں۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ڈاکٹرمنصورخوشترکے ترتیب دئیے ہوے اسپیشل پیج اور شخصیات ایڈیشن نے قومی تنظیم کواُردو آبادی میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شخصیات کے تحت خصوصی گوشے کی اشاعت کرنا منصورخوشتر کا ایک قابل تحسین کارنامہ ہے۔ اس سلسلے کے تحت ہانہوں نے جہاں نامور علمائے کرام، ادباء، شعراء اور مجاہدین آزادی پر گوشے شائع کئے ہیں وہیں نئی نسل کے نوجوان ادباء اور شعراء پر بھی گوشے شائع کرکے ان کی حوصلہ افزائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ گوشے کی اشاعت میں انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز برتا ہے اور نہ مسلکی یا کسی دیگر قسم کے تعصب کے شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے جہاں دیوبندی مسلک کے علمبردار مولانا اشرف علی تھانویؒ پر گوشہ شائع کیا ہے وہیں بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمدرضا خاں بریلویؒ پر بھی نہایت عمدگی سے گوشہ شائع کیا ہے۔ انہوں نے اب تک جن اہم شخصیتوں پر گوشے شائع کئے ہیں ان میں مولانا محمد علی جوہرؒ ، مولانا حسین احمدمدنی، ڈاکٹرمختار احمد انصاری، علامہ اقبالؒ ، مولانا سیدسلیمان ندویؒ ، حکیم اجمل خاں، عبدالعلیم آسی، مولانا عبدالصمد رحمانی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی، چودھری خلیق الزماں، مولانا مناظراحسن گیلانی، ڈاکٹر ذاکرحسین(سابق صدر جمہوریہ ہند)، مولانا منت اللہ رحمانی، مولاناسیدنظام الدین، مائل خیرآبادی، مظہرامام، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی، مولانا شبنم کمالی، مولانا محمدولی رحمانی، مولانا خالدسیف اللہ رحمانی، اویس احمد دوراں، پروفیسر نادم بلخی، پروفیسرشکیل الرحمن، مولانا رضوان قاسمی، پروفیسراجتبیٰ حسین رضوی، پروفیسرقمراعظم ہاشمی، پروفیسرعبدالمنان طرزیؔ ، ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی، پروفیسر حفیظ بنارسی، شمیم فاروقی، پروین شاکر اور سلطان اختر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ قومی تنظیم کے شخصیات ایڈیشن کے یہ گوشے اگر جناب منصورخوشتر کتابی شکل میں محفوظ کرنے کی ہمت جٹائیں تو نئی نسل کے لئے یہ ایک قیمتی تحفہ ثابت ہوگا۔ جہاں تک اسپیشل پیج کی ترتیب کا معاملہ ہے تو یہاں بھی ڈاکٹر منصورخوشتر کی انفرادیت نمایاں نظر آتی ہے۔ اپنے ترتیب دئیے ہوئے خصوصی صفحے پر موصوف ہر طرح کی خبروں کو جگہ دیتے ہیں۔ کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتتے۔ پورے دربھنگہ کے لوگ خواہ ان کا تعلق شہری علاقہ سے ہو یا دیہی علاقہ سے، موصوف کی صحافتی دیانت داری اور غیرجانب داری کے تمام لوگ معترف ہیں۔ اپنے اسی اختصاص کے سبب وہ اہل دربھنگہ کی آنکھوں کے تارے اور ان کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرمنصورخوشتر ادبی صحافت سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ان کے اس شغف کا غماز ہے ان کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی رسالہ ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘، جس کا اجرا موصوف نے پندرہ روزہ کی شکل میں ۲۰۰۵ء میں کیا تھا اور جو آگے چل کر رسالہ کی شکل میں شائع ہونے لگا۔ آج یہ رسالہ اپنے مواد اور معیار کے اعتبار سے بہار کے اہم رسالوں میں شمار ہوتا ہے۔ برصغیر کے کئی نامور ادباء اور شعراء اس رسالہ کی پذیرائی اپنے تاثرات کے ذریعہ کرچکے ہیں۔ مختصر مدت میں ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ نے اُردو شعروادب کی دنیا میں اپنی جو شناخت قائم کی ہے اس کا کریڈٹ جناب منصورخوشتر کے سرجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ رسالہ ادب کی صحت مند روایات اور جدید رجحانات کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
ڈاکٹر منصورخوشتر ایک فعال اور سرگرم صحافی کے ساتھ ساتھ ایک خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ جس طرح صحافت کے میدان میں جواں سال صحافیوں میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں اُسی طرح نوجوان شاعروں میں بھی اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’محفل خوباں‘‘ عنقریب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظرعام پر آنے والا ہے۔ یہ کتاب جب شائع ہوکر منظرعام پر آئے گی تو یقیناًناقدوں، ادیبوں اور شعر فہموں کو متوجہ کرے گی۔ ان کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ ان کی شاعری میں جہاں جدید حسیت کارفرماہے وہیں ان کے اشعار میں بے ساختگی بھی پائی جاتی ہے جو قاری کو متوجہ کرتی ہے موصوف کے یہ چند اشعار جو مجھے پسند ہیں انہیں نذر قارئین کررہا ہوں:
بہاروں پر تسلط ہے خزاں کا
برا دن آگیا ہے گلستاں کا
مقدر ہے ہماری بے پناہی
یہاں پر ذکر مت کیجئے اماں کا
زندگی پاتی اسی سے حوصلہ
تم غم دواں سے گھبراتے ہو کیوں
سڑک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
خوش رہے ہیں شہروفا سے جاتا ہوں
اپنے کئے پر آپ مگر شرمائیں گے
عمر بھر لکھتا رہا میں ریت پر اس کا ہی نام
ہائے نادانی یہ کیسا کام کارِ طفلانہ کیا
اچھے برے کا فرق بھی خوشترؔ ہے مٹ گیا
ہے آگہی سے دور کتابوں کا قافلہ
خوشترؔ ہوگا زندگی میں دوست اس کا کب کوئی
جس نے اپنوں کو عمل سے اپنے، بیگانہ کیا
ڈاکٹر منصورخوشتر صرف صحافی اور شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بہترین منتظم کار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ موصوف کے اندر انتظامی اور قائدانہ صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ دربھنگہ کی مختلف ادبی تنظیموں کے روحِ رواں تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ کسی تنظیم میں سکریٹری اور کسی تنظیم میں جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت کسی تنظیم میں سکریٹری یا جنرل سکریٹری کی ہوتی ہے۔ منصورخوشترؔ بیک وقت انجمن فروغِ اُردو، بہارکے ریاستی سکریٹری بھی ہیں اور انجمن ہذا کی ضلعی شاخ دربھنگہ کے جنرل سکریٹری بھی۔ علاوہ اس کے المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ، انجمن ادبی چوپال، دربھنگہ، دانشور فورم، بہاراور اُردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن، دربھنگہ جیسی فعال تنظیموں میں سکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے سرپرست ، میڈیا اسپورٹس کلب کے نائب صدر اور ضلع اوقاف کمیٹی، دربھنگہ کے رُکن بھی ہیں۔ اتنی ساری تنظیموں سے موصوف کی وابستگی ان کے سرگرم اور فعال شخصیت ہونے کی دلیل ہے۔ موصوف کی فعالیت کا اندازہ المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئرٹرسٹ کے زیراہتمام منعقد ہونے والے چار کل ہندمشاعرے، دو قومی سیمینار اور ایک سو سے زیادہ ادبی نشستوں کے انعقادسے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ معروف شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ پر نیشنل سیمینار اور دربھنگہ میں اُردو بیداری کانفرنس کے انعقاد میں بھی جناب منصورخوشتر کا سرگرم رول رہا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اگر بہار کے ہرضلع میں منصورخوشتر جیسا متحرک، فعال اور سرپھرا نوجوان پیدا ہوجائے تو اگلے پچاس سال تک بہار میں اُردو کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ڈاکٹرمنصورخوشتر تصنیف و تالیف سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ انہوں نے دو خصوصی مجلے کی اشاعت کے علاوہ تین اہم کتابیں ترتیب دی ہیں جو گذشتہ برس ۲۰۱۴ء میں شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں۔ یہ کتابیں ہیں : (۱) ’’لمعاتِ طرزی‘‘، (۲)نثرنگارانِ دربھنگہ‘‘،(۳) ’’ماجرا۔دی اسٹوری۔موصوف کی مزید تین کتابیں جو ابھی زیرطبع ہیں، وہ ہیں (۱) ’’بہار میں اُردو صحافت : سمت و رفتار‘‘ ، (۲) ’’بہار کی اہم شخصیات‘‘ (۳)’’محفل خوباں‘‘ (شعری مجموعہ) ۔ یہاں موصوف کی شائع شدہ کتابوں کا ایک مختصر تعارف پیش کرنا سمجھتا ہوں:
لمعاتِ طرزی (مرتب: ڈاکٹر منصورخوشتر):
پروفیسر ڈاکٹرعبدالمنان طرزی کی شخصیت کثیرالجہات بھی ہے اور عبقری کی۔ ڈاکٹر طرزی حافظ قرآن کے ساتھ ساتھ اُردو شعروادب کے نامور استاذ، صاحب طرز نثرنگار اور ایک قادرالکلام شاعر ہیں۔ بحیثیت شاعر تو انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ موصوف اُردو میں منظوم تنقید کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔ پوری اُردو دنیا پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ کی قادرالکلامی، زودگوئی اور ان کی بے مثل فنکاری کی معترف ہے۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستان، ایران، انگلینڈ،کناڈا اور امریکہ کے بے شمار مشاہیرادب نے جناب طرزی کی شاعرانہ عظمت اور ان کی منفرد نثرنگاری کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ اس سلسلے کی ۱۳۵ آراء کو جواں سال صحافی ڈاکٹرمنصورخوشتر نے ترتیب دے کر ’’لمعاتِ طرزی‘‘ کے نام سے شائع کرنے کی قابل تحسین سعی کی ہے۔ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے یہ کتاب نہایت عمدہ اور کارآمد ہے۔ معروف ناقد اور محقق ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کے بقول ’’یہ کتاب فطری عبقریت کے مالک عبدالمنان طرزیؔ کو مفکر، شاعر اورمنظوم ناقد کی حیثیت سے نوع بہ نوع سطحوں پرمنکشف کرتی ہے۔ اُردو ادب کی اُفق پر نئی شفق بکھیرنے والی اس چھتنارشخصیت پر منصورخوشترکی یہ کتاب بصیرت کا انکشاف کرتی ہے۔‘‘
نثرنگارانِ دربھنگہ (مرتب:ڈاکٹرمنصورخوشتر):
دربھنگہ کے فنکاروں اور قلمکاروں نے اُردو نثر کے فروغ میں قابل ذکر حصہ لیا ہے جس کا اعتراف ڈاکٹر عبدالمنان طرزی نے اپنی منظوم تخلیق ’’نثرنگارانِ دربھنگہ‘‘ میں بڑی خوبی سے کیا ہے۔ اس کتاب میں تقریبا دوسو نثرنگاروں کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر طرزی نے اپنی اس کتاب میں صرف دو دو اور تین تین شعروں میں ہی نثرنگاروں کی سیرت اور انکی خدمات کو منظوم کیا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں اور اختصار کے ساتھ بڑی سے بڑی بات کہہ جانے کا ہنر ڈاکٹر طرزی بخوبی جانتے ہیں۔ پروفیسر فاروق احمد صدیقی کے بقول ’’سمندر کو کوزہ میں سمونا اگر فنکاری کی بات ہے تو پروفیسر طرزیؔ کو اس میں انفرادی اختصاص حاصل ہے۔‘‘ دربھنگہ کی اُردو نثری روایت پہ پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ کی اس منظوم تخلیق کو ترتیب دے کر جناب منصورخوشتر نے اُردو شعر و ادب کے قارئین کے علم میں اضافہ کا سامان مہیا کرنے کا قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ماجرا۔دی اسٹوری (مرتب: ڈاکٹرمنصورخوشتر):
۱۱۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مصنف مشہور صحافی سیداشرف فرید (چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘پٹنہ) ہیں اور اس کے مرتب ڈاکٹر منصورخوشتر ہیں۔ ماجرا۔دی اسٹوری میں ۲۰۱۱ء۔۲۰۱۲ء کے درمیان پیش آنے والے ملک و بیرونِ ملک کے ان خاص واقعات پر جناب اشرف فرید کے وہ تجزیاتی مضامین ہیں جنہیں وہ اپنے اخبار کے ہفتہ وار ایڈیشن ’’دھنک رنگ‘‘ (مرتب جناب راشد احمد) کے لئے خصوصی طور پر تحریر فرماتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں کل ۴۴ مضامین ہیں جن کے مطالبہ سے سید اشرف فرید صاحب کی ملی، قومی اور بین الاقوامی مسائل سے ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کے دو مضمون شخصیات کے تعلق سے ہیں، جن میں پہلا مضمون معروف قانون داں اور حکومت بہارکے سابق وزیر جناب شکیل احمد خاں ایڈوکیٹ کے انتقال سے متاثر ہوکر لکھا ہوا ہے جب کہ دوسرا مضمون معروف ناقد، محقق اور دانشور پروفیسر وہاب اشرفی کے لئے بطور خراجِ عقیدت تحریر کیا ہوا ہے۔ بقیہ مضامین میں ’’بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، پورے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش، اسلام: انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار، اُردو پر ستم کیوں، مسلکی اختلاف: مسلمانوں کی ترقی میں سب سے اہم رکاوٹ، گجرات کا درد: آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں، قابل مطالعہ ہیں۔ ان تحریروں کی اہمیت اور ان کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر ڈاکٹر منصورخوشتر نے اسے کتابی شکل میں محفوظ کرکے نئی نسل اور آئندہ نسل کے لئے ایک قیمتی تحفہ فراہم کرنے کا قابل تحسین کام کیا ہے وہ ان کی صحافتی بصیرت اور دیدہ وری کی عمدہ مثال ہے۔
ڈاکٹر منصورخوشتر کی دلچسپی کا میدان صحافت، شاعری، تصنیف و تالیف اور تنظیمی امور کے علاوہ ڈاکٹری اور تجارت بھی ہے۔ برادرِ بزرگ جناب ذکی احمد (چندن پٹی، دربھنگہ) نے ۲۰۱۲ء میں مجھے بتایا تھا کہ منصورخوشتر ایک معالج (فیزیوتھیراپسٹ) بھی ہیں۔ پھر جمال اُویسی، دربھنگہ کی ایک تحریر بسلسلۂ منصورخوشتر جب نگاہ سے گزری تو اس تحریر سے مزید یہ واقفیت ہوئی کہ منصورخوشتر کی ریڈی میڈ کپڑوں کے دو شو روم بھی ہیں۔ موصوف کی ان گوناگوں مصروفیتوں کا حال جان کر میں حیران اور ششدر ہوں کہ آخر موصوف اتنی ساری ذمہ داریاں کس طرح اور کیسے انجام دیتے ہیں؟ پتہ نہیں موصوف آدمی ہیں یا کام کرنے کی مشین۔ منصور خوشتر جیسے ہی متحرک اور فعال نوجوان کو دیکھ کر کسی نے کہا تھا: ’’اتنی سی عمر اور اتنے سارے کام، اللہ اللہ کس مٹی کے بنے ہیں آپ‘‘
ڈاکٹر منصورخوشتر پر کوئی مضمون لکھتے ہوئے اگر ان کو ملے انعامات و اعزازات کا ذکر نہ کہا جائے تو ان کی شخصیت کا ایک اہم گوشہ خالی رہ جائے گا۔ موصوف اپنی صحافتی خدمات کے عوض کئی ایوارڈس اور اعزازات سے نوازے جاچکے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں موصوف کو یکے بعد دیگرے چار صحافتی ایوارڈ ملے۔ پہلا ایوارڈ ڈاکٹر شکیل احمد وزیرمملکت حکومت ہند کے ہاتھوں، دوسرا ایوارڈ امگاؤں میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے موقع پر، تیسرا ایوارڈ روزنامہ قومی تنظیم کے ذریعہ (عمر فرید ایوارڈ) اور چوتھا ایوارڈ سابق وزیر ریل جناب لالو پرساد یادو کے ہاتھوں 25 ہزار روپے نقد و مفت ایک سال سفرکرنے کیلئے ریلوے پاس۔ ۲۰۱۳ء میں ڈان باسکو اسکول سے برائے صحافتی خدمات اور ۲۰۱۳ء میں حکومت ہند کے شعبۂ نشرواشاعت کے ذریعہ بھی برائے صحافتی خدمات ہی ایوارڈ ملے۔ میری سمجھ سے جناب منصورخوشتر کے لئے سب سے بڑا اعزاز تو بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرپروفیس ڈاکٹرحافظ عبدالمنان طرزی کی وہ نظم ہے جسے انہوں نے موصوف کی مدح میں لکھی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اسے یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
ایک عزیز نیک خو منصورخوشتر جو ہوئے
دل ہوا مائل مرا کچھ ان پہ لکھنے کے لئے
اعتراف ان کی سعادت مندیوں کا ہے مجھے
احترام ایسا ہمیشہ وہ مرا کرتے رہے
جو شریفانہ روش ورثے میں ہے ان کو ملی
اس کی کرتے ہیں نگہ داری عمل سے خوب ہی
آپ نے فیزیو تھراپی میں ہے ڈپلوما کیا
سلسلہ رکھا ہے قائم کچھ حصولِ علم کا
روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ سے وابستگی
ایک مدت سے ہے گویا آپ کی پہچان بھی
اُردو سہ ماہی بھی اک ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ نام کا
چند برسوں سے ادارت میں ہے ان کی چھپ رہا
ہے ’’ایجوکیشنل ٹرسٹ‘‘ ان کا جو ’’المنصور‘‘ ہی
اُردو کی ترویج کا لیتے ہیں اس سے کام بھی
کرتے ہیں اردو زبان سے یہ محبت بھی بہت
کام آیا ہے انہیں شوقی صحافت بھی بہت
ڈاکٹر منصورخوشتر نے اپنی چھوٹی عمر کا ایک بڑا حصہ جس طرح اُردو صحافتی آبیاری، اُردو شعر و ادب کی خدمت اور تحریک اُردو کو مضبوط کرنے میں صرف کیا ہے وہ اُردو داں نوجوانوں کے لئے قابل تقلید بھی ہے اور مشعل راہ بھی۔ محض ۳۰ ال کی عمر میں موصوف شہرت اور مقبولیت کی جس منزل پر پہنچ چکے ہیں اس سفر کو طے کرنے میں اکثر لوگوں کی تمام عمر بھی ناکافی ہوتی ہے۔ منصورخوشتر کے لئے میری دعا یہ ہے کہ خدا انہیں نظربند سے بچائے۔ آمین۔
جواب دیں