دوا اور غذا کی کمی بچوں پر بھاری

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

اس بار نئے سال کا جشن شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج اور نوزائیدہ بچوں کی اموات نے  پھیکا کر دیا۔ سال 2019 نے جاتے جاتے کتنے ہی خاندانوں کے چراغ بجھا دیئے۔ ان کے گھروں میں نئے سال کی رات خوشی کی جگہ ماتم پسرا ہوا تھا۔ بری خبر راجستھان کے کوٹہ سے آئی۔ جہاں 31 دسمبر کو سانگود، باراں، بوندی اور کوٹہ شہر کے وگیان نگر و چشمہ کی باوڑی کے رہنے والے پانچ معصوموں نے دم توڑا۔ یکم جنوری کو جو بچی زندگی کی جنگ ہاری اس کے وارڈ کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ گھر والوں کا الزام ہے کہ ننھی جان تیز ٹھنڈ کی تاب نہ لا کر موت کا شکار ہو گئی۔ نئے سال کا سورج طلوع ہونے سے پہلے جے کے لون اسپتال کوٹہ، راجستھان میں 104 نومولودوں کی جان جا چکی تھی۔ ایسے میں نئے سال کا جشن چہ معنی دارد۔ 
جے کے لون اسپتال کے صدر شعبہ امراض اطفال ڈاکٹر اے ایل بیروا نے بچوں کے جان گنوانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے لو برتھ ویٹ، پری میچور ڈلیوری اور مائیلڈ انفیکشن سے متاثر تھے۔ اسپتال کے موجودہ سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سریش دلریا نے بی بی سی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن بچوں کی موت ہوئی وہ بہت نازک حالت میں اسپتال لائے گئے تھے۔ کچھ بچے ایسے تھے جو پیدائش کے ساتھ ہی کمزور تھے اور کسی دوسرے اسپتال سے سرکاری اسپتال میں لائے گئے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاست میں مفت دوائی اسکیم کے لاگو ہونے کے بعد سرکاری اسپتالوں پر دباؤ بڑھا ہے۔ اسپتال کے ڈاکٹر امرت لال بیروا نے اسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کی شکایت کی۔ جبکہ حکومت کی جانچ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بچوں کی موت کے لئے اسپتال کے وینٹیلیٹر اور وارمر کے خراب ہونے سمیت دیگر وجوہات کو ذمہ دار بتایا۔ 
جانکاروں کی مانیں تو پری میچور ڈلیوری اور لو برتھ ویٹ کی وجہ عدم غذائیت، ذہنی و جسمانی دباؤ، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی طور پر محنت کا کام کرنا، کھڑے ہو کر زیادہ وقت گزارنا، انفیکشن، بار بار اسقاط حمل اور کم عمری میں شادی وغیرہ ہے۔ صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اس مسئلہ کو اور پیچیدہ بناتی ہے۔ حکومت راجستھان نے مرکزی وزارت صحت کی رپورٹ کے حوالہ سے بتایا کہ خراب پرفارمنس والے 10 این آئی سی یو میں سے 9 بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں ہیں۔ ان میں سے تین اترپردیش میں جس میں لکھنؤ بھی شامل ہے۔ چار بہار میں اور ایک ایک جھارکھنڈ و گجرات میں ہے۔ اترپردیش کے سیفئی اسپتال میں بھرتی ہونے والے بچوں کی شرح اموات 44 لکھنؤ میں 31.6 اور گجرات کے وڈودرا میں 26 فیصد ہے جبکہ راجستھان میں شرح اموات بے حد کم ہے۔ گہلوت حکومت نے ریاست کی پچھلی بی جے پی کی سرکار پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کوٹہ کے جے کے لون اسپتال میں بچوں کی سب سے زیادہ موتیں بی جے پی کے دور حکومت میں ہوئیں۔ اگست 2015 میں ایک ماہ میں 154 یعنی ایک دن میں 12 بچے مرے تھے۔
کوٹہ میں بچوں کی موت کا آنکڑہ نیا نہیں ہے۔ 2014 میں 15719 بچے اسپتال میں بھرتی ہوئے جن میں سے 1198 بچوں کو نہیں بچایا جا سکا۔ اگلے سال 2015 میں 17579 بچے بھرتی ہوئے جس میں سے 1260 بچوں کی موت ہوئی۔ 2016 میں 17892 میں سے 1193 کی، 2017 میں 17216 میں سے 1027، 2018 میں 16436 میں سے 1005 اور 2019 میں 963 بچوں نے اسپتال میں دم توڑا۔ بچوں کی موت کا معاملہ راجستھان کے کوٹہ تک محدود نہیں ہے۔ ایک ماہ میں 196 معصوموں کی جان جانے کا آنکڑا گجرات سے بھی سامنے آیا ہے۔ راجکوٹ کے سرکاری اسپتال سول ہسپتال میں گزشتہ ایک ماہ میں 111 بچوں کی جان گئی، وہیں احمدآباد کے سول ہسپتال میں 85 بچے کال کے گال میں سما گئے۔ راجکوٹ میں مرنے والے 111 بچوں میں سے 96 پری میچور ڈلیوری سے ہوئے تھے۔ ان کا وزن نارمل سے بہت کم تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسپتال کے این آئی سی یو میں ڈھائی کلو وزن کے بچوں کو بچانے کا نظام اور صلاحیت نہیں ہے۔ گجرات میں معصوم بچوں کی موت کے اعداد پر نظر ڈالیں تو ایک سال میں 1235 بچوں کی موت ہوئی ہے جبکہ احمدآباد میں 253 بچوں نے جان گنوائی ہے۔ 
راجستھان میں کوٹہ کے علاوہ جودھپور سے بھی بچوں کے مرنے کی بات سامنے آئی ہے۔ جودھپور کے ڈاکٹر ایس این میڈیکل کالج کے شعبہ امراض اطفال میں ہر روز اوسطاً 5 بچوں کی موت ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ دسمبر 2019 میں یہاں 146 بچوں نے دم توڑا۔ ان میں سے 98 بچے نوزائیدہ ہیں۔ کالج کے پرنسپل ایس ایس راٹھور کا کہنا ہے کہ سال 2019 میں این آئی سی یو، پی آئی سی یو میں کل 754 بچوں کی موت ہوئی لیکن دسمبر میں یہ تعداد اچانک 146 تک جا پہنچی۔ کم سن بچوں کی صحت کو لے کر ابھی بھی ملک میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ 2019 میں ہی بہار کے مظفرپور میں چمکی بخار کی وجہ سے 170 بچوں کی جان گئی تھی۔ وہیں اترپردیش کے گورکھپور میں ہر سال جاپانی بخار سے کتنے ہی بچے مر جاتے ہیں۔ 2017 کے صرف اگست مہینے میں یہاں 175 بچوں کی موت ہوئی تھی۔ اپنی زندگی کے پہلے پانچ سال میں مرنے والے زیادہ تر بچے غریب خاندانوں کے ہوتے ہیں۔ جنہیں عدم غذائیت اور بروقت دوائی نہ ملنے کی وجہ سے جان گنوانی پڑتی ہے۔ نمونیا اور ڈائیریا چھوٹے بچوں کے مرنے کی بڑی وجہ ہے۔ کئی بچے علاج کئے جانے لائق بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ معمول کی ٹیکہ کاری کے ذریعہ انہیں بچایا جا سکتا ہے۔ 

ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 36 دنوں میں کوٹہ کے جے کے لون اسپتال میں مرنے والے بچوں کی تعداد 110 ہو چکی ہے۔ مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اشوک گہلوت کو بتایا کہ جے کے لون اسپتال کو صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے واسطے2019-2020 کے لئے 91 لاکھ روپے پیشگی رقم کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ یہ رقم نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت دی گئی ہے۔ وہیں کوٹہ ضلع کو رواں سال2019-2020 کے لئے 27 کروڑ 95 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ مختص کرنے کے ساتھ اس پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ مختص کی گئی پوری رقم صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے پر خرچ ہو۔ ویسے ہمارے یہاں صحت کی مد میں ڈبلیو ایچ او کے مقررہ معیار سے کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ڈاکٹروں کی کمی ہے، اور صحت سہولیات تک سب کی رسائی آسان نہیں ہے۔ 

نومولودوں کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ صحت کی سہولیات کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ زچہ بچہ کی بہتر دیکھ بھال ہو، اور حاملہ خواتین کو ڈلیوری کی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ کسی معصوم کا دوا یا غذا کی کمی سے مرنا مہذب سماج کے لئے شرم کی بات ہے۔ بچوں کی موت پر سیاست کے بجائے انہیں بچانے پر دھیان دینے اور ایسا کچھ کرنے کی ضرورت ہے کہ دوا اور غذا بچوں کی جان پر بھاری نہ ہو۔ کیوں کہ یہی بچے ملک کا مستقبل ہیں انہیں معقول علاج یا غذا کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضائع نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
09جنوری2020

 

«
»

شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد

آر ایس ایس غلام نہیں بنا سکتی، اگر تحریک کا مقصد آئین کا تحفظ ہو..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے