ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کورونا کی دوسری لہر سے ابھی نجات بھی نہ ملی ہے کہ تیسری لہر کے آنے کا اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اس سے بچے بڑی تعداد میں متاثر ہوں گے۔ تیسری لہر کی کیا شکل، کتنی شدید اور کتنے دن چلے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ اس سے نبٹنے کی حکومت کیا تیاری کر رہی ہے۔ ایسے سوالوں کے جواب ملنے ابھی باقی ہیں۔ مگر اس سے پہلے بلیک فنگس نام کی بیماری کا خوف ملک پر چھا رہا ہے۔ اٹھارہ سے زیادہ ریاستیں اس کی زد میں آ چکی ہیں اور مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ویسے میوکر مائیکوسس (بلیک فنگس) کوئی نئی بیماری نہیں ہے۔ لیکن کورونا کے دوران یہ اتنی تیزی سے اتنے بڑے پیمانے پر پھیلی کہ اسے قابو کرنا مشکل ہو گیا۔ بلیک فنگس میں موت کا امکان زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ بیماری کی سنگینی اور وسعت کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے ریاستوں کو ہدایت جاری کر بلیک فنگس کو مہاماری قانون کے تحت درج کر معاملوں کی رپورٹ کرنے کو کہا ہے۔ اس کے تحت بلیک فنگس کے سبھی معاملے وزارت صحت کو رپورٹ کئے جائیں گے۔ سرکاری و نجی اسپتالوں کو وزارت صحت اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔
جسم کے جس حصہ میں انفیکشن ہے اس پر بیماری کی علامتیں دکھائی دیتی ہیں۔ چہرے کا ایک طرف سے سوج جانا، سر درد ہونا، ناک بند ہونا، الٹی آنا، بخار، سینے میں درد ہونا، سائی نس کنجیشن، منھ کے اوپری حصے یا ناک میں کالے زخم جو تیزی سے بڑھتے ہیں وغیرہ اس کی علامتیں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ فنگل انفیکشن جس حصہ میں ہوتا ہے اسے ختم کر دیتا ہے۔ اگر اس کا اثر سر میں ہو جائے تو برین ٹیومر سمیت کئی طرح کی بیماریاں ہو سکتی ہیں جو جان لیوا ہیں۔ وقت پر علاج ملنے پر اس سے بچا جا سکتا ہے۔ فنگل انفیکشن دماغ تک پہنچنے کی صورت میں 80 فیصد تک موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بلیک فنگس کا داخلہ کورونا وائرس کے باہر نکلنے کے بعد ہوتا ہے۔ کووڈ 19 انفیکشن کے 14 دن بعد مریض کو اینٹی وائرل علاج کی ضرورت نہیں پڑتی صرف بلیک فنگس کا ہی علاج کرنا ہوتا ہے۔ سی کے برلا اسپتال گڑگاؤں میں انٹرنیشنل میڈیسن کے ڈاکٹر تشار تیال کا کہنا ہے کہ بیماری کی تصدیق ہونے پر حکومت کے منظور شدہ مراکز سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ بلیک فنگس کے علاج کا وہاں معقول انتظام کیا گیا ہے۔ ناک یا آنکھ میں انفیکشن ہونے پر فوری سرجری کرنی پڑتی ہے۔ اس سے آنکھ کی روشنی بھی جا سکتی ہے۔
میوکرمائیکوسس فنگس سے ہونے والی بیماری ہے۔ یہ زیادہ تر ان لوگوں کو ہوتی ہے جنھیں پہلے سے کوئی بیماری ہو یا وہ ایسی دوائی لے رہے ہوں جو جسم میں امیونٹی کو کم کرتی ہو یا جسم کی امراض سے لڑنے کی قوت کو کم کرتی ہو۔ ذیابطیس، کینسر کے مریضوں، جن کے اعضاء بدلے گئے ہوں یا جو لمبے عرصے سے اسٹرائیڈ استعمال کر کر رہے ہیں۔ جن کی جلد کی سرجری ہوئی ہو، جسم کہیں سے جل گیا ہو یا پھر کسی طرح کا زخم ہو۔ وہاں یہ انفیکشن پھیل سکتا ہے، جسم کے جس حصہ میں یہ پھیلتا ہے اسے سڑا دیتا ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ ہوا میں موجود فنگس سانس کے ذریعہ جسم میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ جسم کے کسی بھی حصہ کو متاثر کر سکتا ہے۔ ابتداء میں اگر اسے نہیں پہچانا گیا تو اس سے جان جا سکتی ہے۔
کووڈ کی دوسری لہر میں مریضوں کے بڑھنے اور آکسیجن کی کمی پڑنے پر انڈسٹریل آکسیجن کو میڈیکل استعمال میں لایا گیا۔ کیا یہ بھی بلیک فنگس کی وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا صرف انڈسٹریل آکسیجن اس انفیکشن کے لیے ذمہ دار ہے؟ تو پھر ان لوگوں کو میوکر مائیکوسس کیوں ہو رہا ہے جنہیں اسپتال میں بھرتی کیا ہی نہیں گیا؟ انڈسٹریل آکسیجن کو بلیک فنگس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ انڈسٹری میں استعمال ہونے والی آکسیجن 94 – 95 فیصد ہی خالص ہوتی ہے۔ جبکہ اسپتالوں میں 99 فیصد خالص آکسیجن استعمال کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر تیال کا کہنا ہے کہ اسپتال میں استعمال ہونے والی آکسیجن کو جن سلنڈروں میں رکھا جاتا ہے انہیں ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ انڈسٹری میں استعمال ہونے والی آکسیجن کے سلنڈر زیادہ صاف ستھرے نہیں ہوتے۔ ان میں معمولی رساؤ کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دہلی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رڑدیپ گولیریا کووڈ کے علاج میں اسٹرائیڈ کے بے جا استعمال کو بلیک فنگس کی وجہ مانتے ہیں۔ جبکہ اے ای ایف آئی کمیٹی کے قومی صدر ڈاکٹر این کے اروڑا کا کہنا ہے کہ کووڈ کے علاج میں استعمال ہونے والی اینٹی بایوٹک دواؤں کی زیادتی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مریض کی تیمارداری کرنے والوں کو ڈاکٹر پر مریض کو جلدی ٹھیک کرنے کا دباؤ نہیں بنانا چاہیے۔ ایسی صورت میں اینٹی بایوٹک دواؤں کی زیادتی کا امکان رہتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ سے ٹھیک ہونے کے دوران مدافعتی نظام بے حد کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کو دوسرے انفیکشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ مشن مدھیہ پردیش کی میوکر مائیکوسس کے 743 مریضوں کی تجزیاتی رپورٹ چونکانے والی ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ 75 فیصد مریضوں کو آکسیجن لگی ہی نہیں، 73 فیصد مریضوں کو کورونا کے علاج میں اسٹرائیڈ نہیں دیا گیا۔ 60 فیصد مریضوں کو ذیابطیس کی شکایت تھی ان کی امیونٹی کمزور تھی۔ 38 فیصد متاثرین ایسے ہیں جنہیں کورونا ہوا ہی نہیں۔ صرف 27 فیصد کو اسٹرائیڈ دینے کے بعد انفیکشن ہوا ہے۔ بہار سمیت کئی دوسری ریاستوں سے آئی رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہے یا جن کی شوگر کنٹرول میں نہیں ہے یا جنہیں کورونا کے علاج کے دوران اسٹرائیڈ دیا گیا صرف وہی بلیک فنگس کی زد میں آئے۔ مہاراشٹر میں 1500 سے زیادہ معاملے آ چکے ہیں اور 90 لوگوں کو جان گنوانی پڑی ہے۔ 22 مئی تک بہار میں بلیک فنگس کے مریضوں کی تعداد 91 ہو چکی تھی۔ ایمس پٹنہ میں 22 مئی کو آئے 40 مشکوک مریضوں میں سے صرف 7 میں بلیک فنگس کی تصدیق ہوئی تھی۔ تمل ناڈو میں بھی ایک درجن سے زیادہ معاملے درج ہو چکے ہیں۔ راجستھان، گجرات، ہریانہ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹر، تمل ناڈو، بہار سمیت 18 صوبے بلیک فنگس کو مہاماری کا درجہ دے چکے ہیں۔ یہ بیماری اتنی خطرناک ہے کہ 54 فیصد مریضوں کی موت یقینی ہے۔ امریکی ایجنسی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کی رپورٹ کہتی ہے کہ انفیکشن جسم کے کس حصہ میں ہے اس کے لحاظ سے شرح اموات گھٹ یا بڑھ سکتی ہے۔ جیسے سائی نس انفیکشن میں 46 فیصد پھیپھڑوں کے انفیکشن میں 76 فیصد اور ڈس مین ٹیڈ انفیکشن میں شرح اموات 96 فیصد تک ہو سکتی ہے۔
بلیک فنگس کا علاج بہت مہنگا ہے، جو مجبور ہیں جن کے پاس مہنگے علاج کے لیے وسائل نہیں ہیں وہی مریض سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ کڑوی حقیقت دہائیوں سے ہندوستانی سماج میں دکھائی دے رہی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر نے تو نظام صحت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ لیکن حکومت اب بھی بہانے سے کام چلا رہی ہے۔ اعداد وشمار کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حالات کنٹرول میں ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کورونا سے ٹھیک ہوئے مریضوں پر بلیک فنگس کا خطرہ منڈرا رہا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے عوام کو کووڈ کے متعلق مناسب رویہ پر عمل کرتے ہوئے صاف صفائی کا اہتمام کرنے۔ ماسک، جسمانی دوری، ہاتھ دھونے اور سینی ٹائیزر کے متواتر استعمال پر دھیان دینا ہوگا۔ بھوپال کی ڈاکٹر پونم چاندنی احتیاطی تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ تعمیراتی سائٹ سے دور رہیں، دھول والے مقامات اور جہاں پانی کا رساؤ ہو یا گندہ پانی جمع ہو وہاں نہ جائیں۔ گارڈنگ یا کھیتی کرتے وقت دستانے اور ماسک کا استعمال کریں۔ بھلے ہی چھونے سے یہ بیماری نہیں پھیلتی لیکن پھر بھی سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے کووڈ 19 کے پروٹوکول کا خیال رکھیں۔ سیاسی سطح پر ذات اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ دینے کے بجائے اچھے اسپتال اور سستے علاج کو ووٹ دینے کا پیمانہ بنایا جائے تاکہ عوامی ضرورتوں کو پورا کرنا سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن جائے۔ اگر عوام بیدار ہو جائیں تو ملک کورونا اور بلیک فنگس جیسی بیماری کے خوف سے محفوظ ہو سکتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں