ایسی ہی منفرد اور قابل رشک زندگی کے مالک مولانا شکر اللہ فیضی تھے جنھوں نے ایک جدوجہد ،محنت و کوشش اور قوت و عمل بھری زندگی گزاری ۔اسی کے ساتھ ساتھ علم وعمل ،علما اور علوم اسلامی سے محبت و لگاؤ اور ان کی اشاعت و ترسیل کی فکران کی زندگی کا ایسا روشن پہلو ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔یوں تو ان کے علمی،دینی اور یادگاری کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں خاص طور سے مقامی اور بیرونی سطح پر متعدد مدارس قائم کر نا اور بدعات و خرافات کے قلع قمع کے لیے تبلیغی اسفار کر نا نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ جب انسان کو ئی اہم اور تاریخی قدم اٹھاتا ہے تو اسے گھر والوں کی مدد و معاونت کی ضرور ت محسو س ہو تی ہے۔اکثر یہ ہو تا ہے کہ گھر والے اس سے متفق نہیں ہوتے اور بات بگڑ جاتی ہے یا جہاں سے چلتی ہے وہیں تک سمٹ کر رہ جاتی ہے مگرمولانا شکر اللہ فیضی کوخوش قسمتی سے ایسے گھر والے ملے جنھوں نے ان کی قدم قدم پر دامے ،درمے سخنے اور ہر ممکن مدد کی بلکہ ان کے کاموں کو اپنا کام اور سعادت سمجھ کر کیا اور اس طرح سے ان کا مقصد عظیم پورا ہو گیا۔مولانا شکر اللہ فیضی نے حفاظت دین اور صیانت اسلام کے لیے جس طرح کے منصوبے اور اصول بنائے ان کو پورا کر نے اور ان پر چلنے میں انھیں اس طرح کی دقتیں نہیں آئیں جیسی کہ عموماً اور اکثر آیا کر تی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دست مبارک سے لگے علمی و دینی گلستان آج بھی اسی طرح لہلہارہے ہیں جس طرح ان کی زندگی میں لہلہاتے تھے۔اس کے علاوہ ان کے گھر کے افراد بھی اسی روش پر گامزن ہیں جس کی انھوں نے تلقین کی تھی اور جو انھوں نے ان کے لیے منتخب کی تھی۔ یہ بندے کی کوشش و محنت کا مظہر ہیں جس کا وعدہ اللہ پاک نے اپنے کلام مقدس میں بار بار کیا ہے۔
مولانا شکر اللہ فیضی کی سب سے نمایاں خصوصیت اور وصف ،مدرسوں کے قیام اور علمی و دعوتی امور کی انجام دہی کے مراکز سے محبت اور لگاؤ تھا ،وہ انھیں اپنی جاں سے عزیز رکھتے تھے اوران کے وجود ،بقا اور قیام کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر نے کے لیے ہمیشہ تیا ررہتے تھے۔انھیں ان دینی اور علمی اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اسی طرح خوشی اور شادمانی ہوتی تھی جس طرح کوئی باپ اپنے بچو ں کو پلتا اور پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ حقیقی معنوں میں انھیں مدرسوں اور علمی مراکز کے درودیوار صیانت اسلام کے محفوظ قلعے معلوم ہوتے تھے ۔ان کی اس طرح کی شادمانی اورمسرت کے بیان کا واقعہ بیان کر تے ہو ئے ان کی بڑی صاحبزادی اپنی ذاتی ڈائری میں تحریر کر تی ہیں:
’’مدرسہ مفتاح العلوم والد محترم کی حرز جان تھا ۔ وہ اس مدرسے کو اپنا ثمرۂ آخر ت سمجھتے تھے اس لیے رات دن اس کے تعلیمی معیار کی بلندی،طلبا اور اساتذہ کی سہولیات اور دیگر ملازمین مدرسہ کے حالات کی خبرگیری کرنا اور ان کے دکھ درد میں کام آنا والد محترم اپنا فرض سمجھتے تھے ۔اللہ پاک نے ان کی سعی و کوشش کو قبول بھی فرمایا جس کا مظہر یہ ہے کہ مدرسہ اسی آن و بان اور شان سے چل رہا ہے جس طرح ان کی حیات مبارکہ میں چلتا تھا ۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی وہ رجال کار ہیں جن کے طفیل دنیا کا چمن آباد اور باقی ہے اس طرح یہی لوگ ہیں جن کے دم سے اسلام کے سینے میں روح باقی ہے۔ایسے ہی لوگوں نے ہر دو رمیں اسلام اور دین الٰہی کی حفاظت کی اور اس کی تعلیمات کو سینوں سے لگا کر آگے پہنچایا۔خاص طور سے ایسے وقت میں ان لوگوں کے زرین کارنامے وجود اور غنیمت سے بھی سوا کچھ ہیں جب کہ ہر طرف بے دینی،بے حیائی اور اسلام و مذہب سے بے زاری عام سے عام تر ہوتی جارہی ہے ۔مولانا شکر اللہ فیضی اور ان کے جیسے افراد نے ان ناسازگار اور مخالف حالات میں ہدایت کے چراغ جلا کر امت کی ہدایت و رہنمائی کے کامیاب اقدامات کیے ہیں ۔جن کا فیض دیر تک باقی رہے گا۔
آج وہ نہیں ہیں مگر ان کی یادیں باقی ہیں اور ان کے ذریعے ثبت کردہ نقوش ان کے آبائی وطن ٹکریا میں مدرسہ مفتاح العلوم اور علمی و تبلیغی کوششوں کی صورت میں باقی ہیں۔جن سے ایک جہان مستفید ہو رہا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے زمین کیسے کیسے لوگوں کو کھا گئی اور کیسے کیسے راحت و بخش و راحت رساں آسمانوں کو یہ نگل گئی۔نہ اس سے کوئی حساب مانگتا ہے اور نہ پوچھتاہے ۔بس یہی حسرت دل میں رہتی ہے کہ
فرصت ملے زمیں سے پوچھوں کے اے لعین
تونے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے ؟
مگر کب تک …..؟ایک دن زمین ان قیمتی دفینوں کو ضرور نکالے گی ،اس دن دنیا انھیں دیکھے گی اور عش عش کر ے گی ۔
جواب دیں