ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے۔ طلبہ، اساتذہ، دانشور اور عام لوگ سڑکوں پر ہیں۔ مظاہرے نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جسے عام لوگوں کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے۔ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے اس کے اس رویہ سے عوام میں جو غصہ پنپ رہا تھا۔ وہ شہریت مسئلہ پر جوالا مکھی کی طرح پھٹ پڑا۔ نریندر مودی گڈ گورننس، مہنگائی، بدعنوانی، بے روزگاری سے چھٹکارہ دلانے، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کے وعدے پر اقتدار میں آئے تھے۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد ملک کے عوام کو کیا ملا۔ مہنگا دودھ، سبزی، دال، اناج اور دوائیاں، کسانوں کو دھوکہ، 45 سالوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری، نوکریوں میں چھٹنی یا جبراً ریٹائرمنٹ، خواتین کے لئے غیر محفوظ ماحول، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، گرتی معیشت اور من مانی۔ کوئی سرکار کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے لاٹھی، ڈنڈا ساتھ میں ملک سے غداری کا تمغہ۔ حکومت نے نوٹ بندی کرکے لوگوں کو بینک کی لائن میں کھڑا کر دیا۔ لائنوں میں لگنے سے ایک سو پچیس افراد کی جان چلی گئی۔ ایک دیش ایک ٹیکس کی سنک میں حکومت نے جی ایس ٹی نافذ کر رہا سہا کاروبار بھی چوپٹ کر دیا۔ لوگوں نے حکومت کے ہر فیصلہ کو سر جھکا کر تسلیم کیا۔ مگر شہریت ترمیمی قانون لا کر حکومت نے ملک کے آئین، جمہوریت اور تکثیریت کو چیلنج کیا تو عوام کھڑے ہو گئے۔ اس کی مخالفت میں بہت سے لوگ فیض احمد فیض کے قول – بول کہ لب آزاد ہیں تیرے کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دکھا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل جس طرح سوالوں کو درکنار کر پاس کرایا گیا۔ اس کے خلاف آواز اٹھنا فطری تھا۔ اقتدار کے نشے میں چور بی جے پی حکومت کو مسلمانوں سے شہریت قانون کی مخالفت اور احتجاج کی توقع ہوگی۔ مودی شاہ نے شاید سوچا ہوگا کہ مسلمانوں کی جانب سے جتنی مخالفت ہوگی ان کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ جس کا وہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں فائدہ اٹھائیں گے۔ اس لئے انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی آواز کو پولیس کے ذریعہ دبانے کی کوشش کی۔ جبکہ طلباء جائز حق کے لئے آئین ہند کی خلاف ورزی کی مخالفت اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر احتجاج کر رہے تھے۔ احتجاجی طلباء میں غیر مسلم طلبہ و طالبات بھی شامل تھے۔ مگر جامعہ ملیہ کے سبھی طلباء کو دشمن مان کر پولیس نے جس طرح ان پر حملے کئے اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا اس نے ملک کے عوام کو مشتعل کر دیا۔ جامعہ کے لڑکے لڑکیوں کی حمایت میں پورا ملک کھڑا ہو گیا۔ دیش کی ایک سو پچیس یونیورسٹیوں اور دنیا کے گوشے گوشے میں پولیس کی بربریت کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ ملک کے عوام کو جامعہ کے طلباء و طالبات میں اپنی اولاد کی جھلک نظر آئی۔ زخم ان کے جسم کو لگے مگر اس کی ٹیس پورے ملک نے محسوس کی۔ مودی شاہ کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ پورا ملک متحد ہو کر اس ناانصافی کے خلاف کھڑا ہو جائے گا۔
شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگوں کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے آئین، جمہوریت، رواداری اور قومی یکجہتی کا مسئلہ ہے۔ اس لئے شہریت قانون کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے سیکولر ہندوستانی آگے آئے ہیں۔ ان میں ہرش مندر ہوں یا آئی اے ایس گوپی ناتھن، یوگیندر یادو ہوں یا سینئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن، تاریخ داں رام چندر گوہا ہوں یا انگریزی ادب کی نامور ہستیاں شوبھاڈے اور اروندھتی رائے، بالی ووڈ کے مہیش بھٹ، سویرا بھاسکر، راہل بوس، سوشانت سنگھ سوہاسنی مولے، سدھارتھ سلم وغیرہ انکے علاوہ رویش کمار اور ابھی سار شرما جیسے صحافی بھی پیچھے نہیں رہے۔ کنہیا کمار، عمر خالد، شہلا رشید جیسے طلباء و نوجوان شہریت قانون کے خلاف پیش پیش ہیں۔ کتنے ہی سکھ اور دلت ایسے ہیں جن کے نام ہم نہیں جانتے لیکن وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر شہریت کے امتیازی قانون کے خلاف کہیں امبیڈکر اور بھگت سنگھ کا فوٹو لگا کر تو کہیں رام پرساد بسمل، راجندر ناتھ لہیڑی، اشفاق اللہ خان اور روشن سنگھ کی شہادت کو یاد کرکے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ آزادی کے سپاہی برٹش حکومت کے جابرانہ قانون اور ناانصافی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھایا کرتے تھے۔ کچھ ایسا ہی ماحول اس وقت ملک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
حکومت نے شہریت قانون کے خلاف اٹھنے والی آواز کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ احتجاجی مظاہرین پر لاٹھی، ڈنڈے، گولی اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ حزب اختلاف کے علاوہ عوام اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی پرواہ کئے بغیر ازخود سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ اور مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے خیال کو مسترد کر رہے ہیں۔ اکیلے اترپردیش میں دو درجن سے زیادہ لوگ مر چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بھی کافی ہے، جگہ جگہ سے احتجاج کے پر تشدد ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ پولیس کے ساتھ لال ٹی شرٹ میں کون ہے جو لوگوں پر لاٹھی برسا رہا ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ پر امن احتجاج میں گھس کر کچھ انجان لوگ اسے پر تشدد بنا رہے ہیں۔ میرٹھ، مظفر نگر، بجنور، کانپور اور منگلور سے پولیس فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرین کو پیٹنے، گھروں میں گھس کر مار پیٹ، توڑ پھوڑ کرنے، سی سی ٹی وی کے کیمروں کو توڑنے اور گولی چلانے کی تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔ ان کی جانچ ہونی چاہئے کہ پولیس نے ایسا کیوں کیا اور ان کے ساتھ کون لوگ تھے۔ جانچ اس پہلو سے بھی ہونی چاہئے کہ احتجاج کے پرتشدد ہونے کا فائدہ کس کو ہے۔ کہیں پولیس کے انتظام کی تعریف ہو رہی ہے تو کہیں پولیس پر بھیڑ کو بھڑکانے کا الزام لگ رہا ہے۔ ایسے ویڈیو بھی سامنے آئے ہیں جن میں پولیس آگ لگاتے اور پتھر پھینکتے دکھائی دے رہی ہے۔ ان ویڈیوز کو دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ یہ برٹش راج کی پولیس ہے یا بھارت کی۔
بہر حال جمہوریت میں عوام کو اپنی بات کہنے یا حکومت کے کسی فیصلہ کی پر امن طریقہ سے مخالفت کرنے کا حق ہے۔ تشدد یا پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے دہلی کے رام لیلا میدان سے پبلک پراپرٹی کو نقصان نہ پہچانے کی جذباتی اپیل کی ہے۔ انہیں ایک پیغام اپنے بھکتوں کو بھی دینا چاہئے جو اختلاف میں آواز اٹھانے والوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ شہریت قانون پر نریندر مودی نے حزب اختلاف پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے 2014 سے آج تک این آر سی پر کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی ملک میں کوئی ڈی ٹینشن سینٹر بنایا گیا۔ راج ناتھ سنگھ نے بوکارو کی ریلی میں ملک گیر این آر سی کی بات کی تھی۔ امت شاہ مغربی بنگال سے لے کر پارلیمنٹ تک میں بار بار پورے ملک میں این آر سی لانے کی بات کہہ چکے ہیں۔ رہا سوال ڈی ٹینشن سینٹر کا تو ان کی حکومت 28 نومبر 2018 کرناٹک ہائی کورٹ میں لکھ کر دے چکی ہے کہ اس نے 2014 اور 2018 میں سبھی ریاستوں کو خط لکھ کر ڈی ٹینشن سینٹر بنانے کو کہا ہے۔ انڈین ایکسپریس میں آسام کے گوارپارا میں 3000 لوگوں کے لئے ڈی ٹینشن سینٹر بنائے جانے کی خبر شائع ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی کانگریس کے سشی تھرور کے سوال کے جواب میں بھی ڈی ٹینشن سینٹرز کی تفصیل آچکی ہے۔ پھر وزیراعظم نے غلط بیانی کر ملک کو گمراہ کیوں کیا۔
کیا واقعی وزیراعظم کو نہیں معلوم کہ این آر سی اور شہریت قانون کے بارے میں ان کے وزراء کیا باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عدالت میں کیا لکھ کر دیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں کیا بتایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تو پھر کرناٹک کی بی جے پی حکومت کے وزیر یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اگر اکثریتی طبقہ نے آپا کھویا تو گودھرا جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے؟ مرکزی وزیر نیتن گڈگری کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کے پاس پناہ لینے کے لئے 50 سے زیادہ اسلامی ممالک کا آپشن موجود ہے۔ مودی جی کو بتانا چاہئے کہ کیا یہ بیان بانٹنے والے ہیں یا نہیں؟ اور وہ ان بیانوں سے متفق ہیں یا نہیں۔ ویسے اس کے جواب کی ان سے توقع نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ خود اپنے ووٹ بنک کو سادھنے کے لئے نفرت آمیز بیان دیتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے دمکا میں کہا تھا کہ تشدد، فساد کرنے والے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک نے دوسرے ملکوں کے شہریوں کو پناہ دی، روزگار کے مواقع فراہم کئے، ان کے بچوں کو سماجی تحفظ دیا۔ کیوں کہ پناہ گزینوں کو عزت کی زندگی جینے موقع دینا ترقی یافتہ اور مہذب سماج کی پہچان ہے۔ ان ممالک میں مقامی لوگوں سے پناہ گزینوں کے ٹکراؤ بھی ہوئے اور اس کی وجہ سے سرکاروں سے سوال بھی پوچھے گئے۔ لیکن دنیا بھارت شاید اکیلا ملک ہے جہاں مہاجروں کی تقسیم کر ان کا سیاسی استعمال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے خلاف اپنے ہی شہریوں کو احتجاج سے روکا جا رہا ہے۔ ان پر لاٹھی، بندوقوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کانگریس بھی شری لنکا سے آئے مہاجرین کو شہریت دے چکی ہے مگر اس نے شہریت کو کبھی بھی مذہب سے نہیں جوڑا۔ یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر آف ریفیوجی (یو این ایچ سی آر) 2018 کی رپورٹ کے جو اعداد وشمار ہندی روزنامہ امر اجالا میں شائع ہوئے ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں جن ممالک کے شہریوں کو سب سے زیادہ مہاجرین کا درجہ ملا ان میں تین سر فہرست ملک چین 108008، شری لنکا 60802 اور میانمار 18813 ہیں۔ دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کی تعداد کے معاملہ میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا نام نہیں ہے۔ بے شک یہاں سے مہاجرین بھارت آتے ہیں لیکن ان تینوں ممالک میں سے کوئی بھی دیش ایسا نہیں ہے جو بھارت میں مہاجرین کے معاملہ میں ٹاپ تین میں بھی آتا ہو۔
ان تین ممالک کے ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی، جین اور پارسی کو شہریت دینے کے پیچھے صرف ووٹ کی سیاست ہے۔ کسی دوسرے ملک کی بات کرنے سے وہ فائدہ نہیں مل سکتا جو بی جے پی کو درکار ہے۔ بہتر ہوتا کہ سرکار مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم، کسانوں کی دشواریوں اور مندی سے نبٹنے کے لئے منصوبہ سازی کرتی۔ ملک ایک حد تک برداشت اور کسی پر بھروسہ کرتا ہے چاہے وہ بانٹو اور راج کرو کی نیتی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جب بات ملک کی آن بان، اس کی عزت اور تکثیریت پر آتی ہے تو وہ اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے اہنسا کے راستہ پر چل پڑتا ہے۔ حکومت عوام کے اتحاد کو انتشار میں بدلنے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کو اس آزمائش کے وقت میں دانشمندی سے کام لینا چاہئے، ایسے نعروں سے بچنا چاہئے جو اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنا دیں۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے وقار، رواداری، آئین، جمہوریت اور اتحاد کا ہے۔ اسی لئے ملک کے کونے کونے سے آواز آرہی ہے کہ اب ہمارے لب آزاد ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں