بھیدبھاو یا تعصب کی آگ ہمارے سماج کو خاک کردے گی!!

ہری کرشنا کمپنی نے اس تعلق سے کافی صفائی دینے کی کوشش کی کہ اس کمپنی میں 50مسلم لوگ کام کرتے ہیں ۔ یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ کئی کمپنیوں میں صرف عیسائی امیدواروں سے ہی درخواستیں طلب کی گئی ہے۔ اس طرح کے معاملات قابل مذمت ہیں اور کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔
اس ملک کے شہریوں میں مذہب، ذات پات، زبان کی بنیاد پر کسی قسم کا تعصب یا بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتایہ ہندوستان کے آئین میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر سو نظر آتے ہیں۔ اسی بھید بھاؤ کی وجہ سے نوکریاں نہیں دی جاتی، اسکولوں میں بچوں کے داخلے نہیں ہوتے، اس طرح کی شکایتیں والدین کرتے رہتے ہیں۔ اسی بھید بھاؤ کی وجہ سے کرایے پر مکان دینا ، کوپرئیٹیو سوسائٹی میں براہ راست یا بالراست پابندی عائد کرنا یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔اس طرح کے معاملات کی زد میں شہرکی مشہور شخصیات بھی آچکی ہیں۔ ممبئی کے ایک ٹاور میں گوشت خور لوگوں کو فلیٹ خریدنے کی اجازت نہیں ہے، چند مخصوص مذہب کے لوگوں کوہی اس ٹاور میں فلیٹ دیئے جاتے ہیں۔کاروباری معاملات میں بھی اسی طرح کی سوچ پنپ رہی ہے۔ گجرات میں 2002میں جو فساد ہوا، اس میں اقلیتوں کے کاروبار کو نشانہ بنایا گیا، مخصوص کاروبار اور پیشہ پر جو اقلیتوں کا اختیار تھا ، اسے چھین کر دوسرے مذہب کے لوگ قابض ہوگئے ہیں۔
مذہب، ذات،زبان کی بنیاد پر کیا جانے والا بھید بھاؤصحت افزأ سماجی نظام کو کھوکھلا کرنے کا کام کرتا ہے، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اس کے ساتھ ہی اس ملک کے کسی شہری یا کسی مذہب کے لوگوں کے ساتھ تعصب کیا جائے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں باوقار زندگی گزارنے پر روک لگائی جارہی ہے، اس بات کا احساس پیدا ہونا یا اس طرح کی سوچ پیدا ہونے سے ملک کے اتحاد اور بھائی چارگی میں دراڑیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ کبھی سیاسی اور سماجی لیڈران اس طرح کے حالات پیدا ہونے سے انھیں روکنے کا کام کرتے ہیں یا پھر اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ہوا دینے کا کام کرتے ہیں۔
کسی مذہب کے خلاف جب تعصب کیا جاتا ہے ، اس وجہ سے اس مذہب کے نوجوانوں میں عد م تحفظ کا احساس جنم لینے لگتا ہے،جب یہ احساس یقین میں بدلتا ہے تو تشدد پھوٹ پڑتا ہے اور پھر سماج میں جرائم پنپنے لگتے ہیں۔اقلیتوں کو سرکاری نوکریوں سے دور رکھا جارہے ہے ، کسی قسم کا کوئی ریزرویشن نہیں پھر اقلیتی فرقہ قومی دھارے میں کیسے آسکتا ہے۔ تعصب یا بھید بھاؤ کے جذبہ پر کاری ضرب لگنی چاہیے ایسے حالات یا ایسا ماحول پیداکرنے کی ضرورت ہے۔
اقلیتی فرقہ کے لوگوں نے بھی خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کے آئین پر یقین رکھنے والے، ذات پات کے تعصب سے دور رہنے والے شہریوں کے دلوں میں بھی اب بھید بھاؤ پیدا ہونے لگا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں اور اس کا سد باب کس طرح کرنا چاہیے اس پر بھی غورو خوض کرنا ضروری ہے۔
روز مرہ کے معمولی معمولی باتوں سے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا جذبہ پید اہوتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے معاملہ گالی گلوچ تک پہنچ جاتا ہے اور یہ مار پیٹ تک پہنچتا ہے۔قانون کی خلاف ورزی کرنا، سرکاری نوکروں پر دھاک جمانا، پبلک جگہوں پر ناجائز قبضہ کرنا، گندگی پھیلانااس طرح کی وجوہات سے متاثرہ اکثریتی فرقہ کے دلوں میں نفرت جنم لیتی ہے۔ممبئی کے سڑکوں پر تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلانے والے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، اگر کسی نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو اس سے مارپیٹ کرناجیسی مثالیں بیشمار موجود ہیں۔ کسی بڑے تہوار کے دن سڑکوں پر یا ریلوے اسٹیشنوں پر شو و غل کرنا ، جو تشدد تک پہنچ جاتا ہے۔رہائشی عمارتوں میں جو Common Spaceہوتا ہے اس پر قبضہ کرنا ، دوسرے لوگوں کو اس جگہ کے استعمال سے روکنا۔ دوسروں کا اعتراض ہونے کے باوجود اس جگہ پر جانوروں جو باندھنا، جانوروں کو ذبح کرنا، جس کیو جہ سے عام آدمی بے بس ہوجاتا ہے مگر اس کے اندر جو غصہ ہے وہ کبھی نہ کبھی تشد د کی صورت میں باہر آجاتا ہے۔ان تمام معاملات میں ’ٹپوری‘ نوجوان ملوث ہوتے ہیں، جن کاکوئی مخصوص مذہب نہیں ہوتا ، ہر مذہب کے ٹپوری موجود ہوتے ہیں۔ مگر کئی ٹپوریوں کی پہچان بطور مسلم کی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔کئی کچھ معاملہ ہو تو ٹی وی اور اخبارات میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرایا جاتا اور یہ پیغام دیگر مذاہب تک بھی پہنچ جاتا ہے اسی وجہ سے ذیشان جیسے تعلیم یافتہ لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں۔
مذہب شہری بنانے کیلئے ہمارے شہریوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے، اسکولوں میں، تعلیمی مراکز پر، مدرسوں میں اس بات کی تعلیم دینا ضروری ہے کہ ذمہ دار شہری کیسا ہو، اس کے کیا کیا فرائض ہیں، اس نے سماج میں کیسے رہنا چاہیے، شہریت کیسے کہتے ، تہذیب کیا چیز ہوتی ہے، اس کی تعلیم دینے کیلئےہمارے دانشوروں کو، ادبا و شعراء کو ، سماجی اور سیاسی لوگوں کواس تعلق سے آگے آنے کی ضرورت ہے، اس ملک کے شہریوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اکثریتی فرقوں میں جو اقلیتی فرقہ کے تعلق سے منفی سوچ پیداہوئی ہے ، اسے دور کرنا وقت کا تقاضہ ہے، ورنہ پھر ذیشان جیسے تعلیم یافتہ لوگ اس طرح کے حالات کی زد میں آجائیں گے، تعصب کا شکار ہوں گے اورپھر ہمارے ملک کے امن و امان و خوشحالی میں شگاف ہونے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پھر تعصب یا بھید بھاؤ کی آگ ہمارے سماج کو خاک کردے گی۔

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے