بھگوان کے نام پر ،شیطان کا کھیل

پولس کو جد جہد کرنی پڑی اورخرابئ بسیار کے بعد آخر کار اس خود ساختہ سنت کو انتہائی ذلالت کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہریانہ میں امن وقانون کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور پولس کے لئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ کورٹ کے احکام کی تعمیل کرے، مگر بھارت کا عدالتی سسٹم کئی معنوں میں انفرادیت کا حامل ہے کہ اسے ملک کا کوئی بھی فرد نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ہمارے ملک کے سسٹم میں کئی خرابیوں کے باوجود عدلیہ
نے اپنی اہمیت کا ہمیشہ احساس دلایا ہے اور بڑے سے بڑے طاقت ور شخص کو اس کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔ اندرا گاندھی کو بھی کورٹ کے حکم پر جیل جانا پڑا تھا اور وہ بھی اس زمانے میں جب ان کی طوطی بولتی تھی۔ کئی وزیر کرپشن کے معاملے میں جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور تمام سرکاروں و کورٹ کے حکم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آج نریندر مودی پوری قوت کے ساتھ اقتدار میں ہیں مگر ان کی سرکار کو بھی پچھلے دنوں سپریم کورٹ سے پھٹکار ملی تھی ۔ جب بڑے بڑے تیس مار خاں کورٹ کے حکم پر مجبور ہوئے کہ قانون کے سامنے خود سپردگی کردیں تو سنت رام پال کیا ہیں؟ بدقسمتی سے انھیں یہ گمان ہوچلا تھا کہ وہ اپنے عقیدت مندون کی بڑی تعداد کے سامنے حکومت اور آئین و قانون کو جھکانے میں کامیاب ہوجائینگے اور وہ قانون سے بالاتر ہیں مگر ان کی غلط فہمی تب دور ہوگئی جب پولس نے انھیں ان کے آشرم سے گرفتار کر کے لے گئی۔ حالانکہ انھوں نے اس کے لئے اخیر تک جد جہد کی اور اپنے بھکتوں کو ہی آشرم میں قید کئے رکھا مگر کچھ بھی کام نہ آیا۔ اگر ہمارے ملک میں یہی چلن چل جائے اور باباؤں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت مل جائے تو ایک غلط روایت چل پڑے گی اور نہ جانے کتنے بابا اپنے عقیدت مندوں کی تعداد دکھا کر حکومت اور عدلیہ کو خوفزدہ کرینگے۔ ہمارے ملک میں باباگیری کے نام پر ٹھگی کو دھندہ بھی زوروں پر ہے اور اس پر لگام لگانے کی ضرورت ہے۔ آخر کب تک سنت رام پال جیسے لوگ عوام کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور خود کو خدا بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟ پہلے یہ عوام کے سامنے پروچن کرتے ہیں اور پھر جب ان کی عقیدت دل میں بیٹھ جاتی ہے تو اپنے بھگوان ہونے کا اعلان کردیتے ہیں۔
رام پال کا ڈرامہ
سنت رام پال خود کو کبیر پنتھی بتاتے ہیں اور اس لحاظ سے ممکن ہے ان کے ماننے والوں میں بڑی تعداددلت اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کی ہو۔ کبیر داس ایک موحد سنت تھے اور مختلف مذاہب کی اچھی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ وہ کسی بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کے قائل نہ تھے بلکہ تمام انسانوں کو ایک خدا کا بندہ مانتے تھے اور انسانی مساوات کے قائل تھے۔ ان کے دوہے جن کا بیشتر حصہ وحدت انسانی کے موضوع پر ہے، آدمیت اور یکجہتی کا درس دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کبیر داس کی تعلیمات کا بابا رام پال پر کوئی اثر نہیں تھا ورنہ وہ تشدد اور خون خرابہ سے دور رہتے۔ اگر ایک سنت یہی سب کام کرنے لگے تو اس میں اور سیاسی لوگوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ رام پال پر ایک کیس ۲۰۰۶ء سے چل رہا ہے۔ اس کیس میں ان پر الزام ہے کہ وہ ایک دوسرے آشرم کے لوگوں سے ان کے آشرم کا جھگڑا ہوگیا تھا اور اس لڑائی میں ایک قتل بھی ہوگیا جو ان کے مخالف آشرم کے شخص کا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا اور ان کی گرفتاری بھی ہوئی تھی مگر پھر وہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔ اب کورٹ کا حکم تھا کہ وہ مقدمہ کے سلسلے میں حاضر ہوں مگر وہ کورٹ میں حاضری سے گریز کر رہے تھے۔ اس پر کورٹ نے حکم دیا کہ انھیں پولس جبراً حاضر کرے۔ اس سے بچنے کے لئے انھوں نے اپنے آشرم میں بھکتوں کی بھیڑ جمع کرلی اورپولس کو آشرم میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ پولس نے اندر داخل ہونا چاہا تو اس پر پتھراؤ کیا گیا۔ گولیاں چلائی گئیں اور راستے میں خواتین اور بچوں کو بٹھا دیا گیا۔ ان کے عقیدت مند کئی دن تک دھوپ، سردی اور کہرے کی پروا کئے بغیر آشرم کے باہر اور اندر بیٹھے رہے اور کہتے رہے کہ خواہ لاشیں بچھ جائیں مگر پولس کو اندر داخل نہیں ہونے دینگے۔ بہراحال لاشیں تو بچھیں مگر پولس بابا تک پہنچنے میں
کامیاب بھی ہوئی اور انھیں گرفتار کرلیا۔ جو کام وہ عزت کے ساتھ کرسکتے تھے اسے بے عزتی کے ساتھ کرنے پر مجبور ہوئے۔کورٹ کے حکم پر عمل کیا جانا تھا اور کیا گیا۔ بابا کے عقیدت مندوں اور پولس کی جھڑپ میں سینکڑوں کی تعداد میں دونوں جانب سے لوگ زخمی ہوئے۔ املاک کو نقصان پہنچا اور دوسروں کی بھی گرفتاریاں ہوئیں۔ پولس کو اندر داخل ہونے کے لئے جہاں آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے وہیں آشرم کا گیٹ بھی توڑنا پڑا۔ پولس نے اپنا غصہ میڈیا پر بھی اتارا اور مختلف ٹی وی چینلوں کے لوگوں کو پیٹ ڈالا۔ حالانکہ یہ لوگ نہ تو بابا کی طرف سے تھے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی ہمدردی رکھنے والے تھے۔ یہ تو اپنا کام کر رہے تھے اور میڈیا بھی ابابا پر شدیدنکتہ چینی کر رہا تھا۔ کورٹ کا یہ بھی حکم ہے کہ بابا کی گرفتاری میں جس قدر خرچ آیا ہے ،وہ بھی اسی سے وصول کیا جائے، اور اخراجات کا تخمینہ حکومت سے مانگا گیا ہے۔ 
پانچ ستارہ آشرم
رام پال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے سائنٹسٹ تھا اور پھرا س نے نوکری چھوڑ کر یہ دھندہ شروع کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب مذہب کے نام پر ٹھگی کرنے میں زیادہ کمائی ہو تو سائنٹسٹ کا کام کرنے سے کیا فائدہ۔ اس کا آشرم ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولیات رکھتا تھا اور اس کے شردھالو اسے بھگوان اور پرماتما مانتے تھے۔ آشرم سینکڑوں ایکڑ میں پھیلا ہوا تھا اور بابا کے رہنے والی عمارت پانچ منزلہ تھی،جس میں شاندار زندگی جینے کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ سجا سجائے کمرے، خوبصورت اور آراستہ ڈرائنگ رومس، آرامدہ باتھ روم اور کشادہ سوئمنگ پول ،بابا کی بلٹ پروف کار دیکھ کرکر کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پانچ منزلہ عمارت کے نیچے تہہ خانہ بھی دیکھا گیا حالانکہ بعض لوگوں کو دعویٰ ہے کہ یہ تہہ خانہ بھی پانچ منزلہ ہے۔
آشرم کے اندر ہزاروں افراد کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے انتظامات تھے اورعمارتوں کے علاوہ تمبو اور ترپال بھی گرائے جاتے تھے۔ یہاں گودام میں اناج کا ذخیرہ تھا جس سے لوگوں کے کھانے پینے کے انتظامات کئے جاتے تھے۔ روٹیاں بنانے کے لئے کئی کئی مشینیں لگی ہوئی تھیں ۔ آشرم میں آنے جانے والوں کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والے عقیدت مندوں سے کسی قسم کی فیس وصول کئے بغیر کھانا، پانی فراہم کیا جاتا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں ست سنگ سننے آیا کرتے تھے۔یہاں آنے والوں میں پورے ملک کے لوگ ہوتے تھے اور خاص طور پر دلی کے قرب وجوار کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اندھی عقیدت نہ جانے کیا کیا گل کھلاتی ہے اور ایسا ہی یہاں دیکھنے کو ملا۔ رام پال کو جس پانی سے نہلایا جاتا تھا اس سے کھیر پکائی جاتی تھی اور وہی تبرک کے طور پر اس کے عقیدت مندوں میں تقسیم کی جاتی تھی۔
باباکلچر کا فروغ روکا جائے
رام پال نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور قانون نے اسے اوقات بتا دیا مگر اصل سوال تو ہے اس ملک میں پھل پھول رہے بابا کلچر کا جو ایک طرف ملک میں اپنے شردھالووں اور پیروکاروں کی بھیڑ جمع کرتا ہے تو دوسری طرف اندھ وشواس اور ضعیف الاعتقادی پھیلاتا ہے۔ ہم آج اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جو علم وفن کی روشنی کی صدی ہے، پرانے تصورات اور بھرم کے ٹوٹنے کی
صدی ہے، ضعیف الاعتقادی سے نکل کر سائنس کے اجالے میں آنے کی صدی ہے اور دنیا میں ایسا ہو بھی رہا ہے مگر ہمارا ملک آج بھی ماضی کے دھندلکوں میں جی رہا ہے اور یہاں باباگیری کا کاروبار نئی اونچائیاں چھونے لگا ہے۔ یہ گاؤں اوردیہاتوں سے نکل کر اب شہروں کی اعلیٰ زندگی تک پہنچ گیا ہے اوراس کے فروغ کے لئے جدید سائنسی ایجادات کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر باباؤں کی قطاریں لگی رہتی ہیں جو اندھ وشواس پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں اور لاکھوں افراد کو بیوقوف بنا کر روپئے وصول کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی ٹی وی چینلوں کا دھندہ زوروں پر ہے جن سے حکومت فیس بہت معمولی وصول کرتی ہے اور سیٹ اپ میں بھی کم خرچ آتا ہے مگر باباؤں سے ماہانہ لاکھوں روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں جدید ٹکنالوجی اور سائنسی ایجادات کے استعمال بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہورہا ہے۔ آئے دن باباؤں کے جرائم کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں اور پولس انھیں گرفتار کرتی رہتی ہے مگر اس کے سدباب کی کوئی مستقل ترکیب نہیں نکالی جاتی۔ بابا رام پال جیسے نہ جانے کتنے بابا اس ملک میں پیدا ہوتے رہیں گے اگر ہم نے جمہوریت اور مذہبی آزادی کے نام پر انھیں کچھ بھی کرنے کی چھوٹ دیئے رکھی۔

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے