بیٹی‘ اپنی اور پرائی

ان کی نظر میں پیوند خاک ہونے والی ہستی شہید ہے۔ اس ہستی نے اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر خود کو قانون کے حوالے کیا کیوں کہ اسے ہندوستانی عدلیہ پر بھرپور اعتماد تھا۔ 22برس تک آس و یاس کی کشمکش میں گذارنے والی ہستی کے اعتماد کا قلعہ ریت کی محل کی طرح ڈھیر ہوگیا۔ یعقوب میمن کا جسد خاکی خاک میں ملادیاگیا۔ کچی قبر پر گلفشانی کرنے والے اور اپنے اپنے گھر لوٹنے والوں کے ذہن میں یہی سوال اُبھر رہے تھے کہ اب کون یعقوب کی طرح قانون کی مدد کے لئے آگے بڑھے گا؟ اکثر لوگ اسی لئے قانون کی مدد سے کتراتے ہیں۔ سڑکوں پر حادثات ہوتے ہیں۔ زخمی تڑپتے تڑپتے لاش بن جاتے ہیں‘ لوگ دیکھتے ہیں‘ افسوس کرتے ہیں‘ آگے بڑھ جاتے ہیں کیوں کہ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو مدد کے لئے آگے بڑھا اسے ہی قانون نے اپنے شکنجہ میں پھانس لیا۔ حال ہی میں گریٹر حیدرآباد میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ایک کمسن لڑکی کے ساتھ دست درازی کرنے والے دوسرے مذہب کے نوجوان کو قانون کے حوالے کرنے والے تین نوجوانوں کے خلاف پولیس نے کاروائی کی، انہیں ہراساں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دن دہاڑے آنکھوں کے سامنے سے لڑکیاں اغوا کرلی جاتی ہیں، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ مرد حضرات اس لئے آگے نہیں بڑھتے کہ قانون کہیں انہیں ہی قصوروار قرار نہ دے۔
بہرحال۔ یعقوب میمن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات متاثر کن تھے۔ سب سے زیادہ جو بات دل کو لگی یا جسے جان کر جانے کیوں آنکھیں نم ہوئیں کہ تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے بیٹی سے ملاقات کرنی چاہی تاہم صرف فون پر بات کروائی گئی۔ اپنی بیٹی سے بات کرکے وہ بہت خوش تھے۔ بیٹی سے محبت یقیناًسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اس قدر چاہتے تھے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابوجہل کی بیٹی کا پیغام آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی اور آپؐ نے فرمایا تھا جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ بیٹی کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں جب بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی کہ جس نے اپنی بیٹیوں کی صحیح پرورش کی وہ جنت کا حقدار ہے۔ بیٹی بلاشبہ گھر کی رونق اور برکت ہے۔ ایک بیٹی اپنے والدین کی جو خدمت کرتی ہے‘ وہ کئی بیٹے مل کر نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیٹیاں اگرچہ کہ پرائی ہوتی ہیں تاہم پرائے گھر میں جانے کے بعد بھی وہ اپنے گھر کو نہیں بھولتیں۔ اپنے میکہ کے لئے تڑپتی ہیں، سوچتی ہیں۔ جبکہ اکثر بیٹے ایک مقام پر پہنچنے، اپنے پیروں کھڑے ہونے کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ اپنے گھر سے دور ہوجاتے ہیں۔ بیٹی سے محبت فطری ہے۔ اسی محبت کا فائدہ داماد کو ہوتا ہے۔ لہٰذا اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جو مقام بیٹوں کو نہیں مل پاتا وہ داماد کو مل جاتا ہے۔ چاہے وہ میدان سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ حیات۔ داماد کی خوشنودی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اس میں اپنی بیٹی کا سکھ تلاش کیا جاتا ہے۔ بیٹی کی خواہشات کے لئے ماں باپ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی خوشی کے لئے دائمی غم کو اختیار کرلیتے ہیں۔ خود خون کے گھونٹ پی لیتے ہیں اور اپنے آنسو خشک کرلیتے ہیں محض اس لئے کہ اپنی بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہ آسکیں۔ بیٹی کی خوشی کے لئے انسان اپنے آپ کو بیچ بھی دیتا ہے۔ اس کا گھر بسانے کے لئے کبھی کبھی اسے اپنا گھر اُجاڑنا پڑتا ہے۔ بیٹی کی عزت کے لئے تو اپنی پگڑی بھی دوسروں کے قدموں میں رکھ دینے کے واقعات دیکھے اور سنے جاتے رہے ہیں۔ بہرحال یعقوب میمن کی زندگی کے آخری لمحات میں آخری خواہش کے طور پر اپنی بیٹی سے فون پر بات چیت دراصل ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت تڑپ، اس کے مستقبل کی فکر کی عکاسی کرتی ہے۔ یقیناًہر ماں باپ اپنی بیٹیوں کے لئے شاید ایسے ہی جذبات رکھتے ہوں گے۔ پیدائش سے پہلے تو بیٹی کے بیشتر ماں باپ قائل نہیں ہوتے ورنہ بیٹی کے پیدائش سے پہلے ہی شکم مادر میں اسے ماردیا نہیں جاتا۔ دورِ جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش کے بعد دفن کیا جاتا تھا۔ چوں کہ اُس دور میں اسکیانرس کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اب پیدائش سے پہلے ہی جنس کا پتہ چل جاتا ہے اس لئے اکثر و بیشتر نوبیاہتا جوڑے کچھ اپنے لئے اور کچھ اپنے ماں باپ کی خواہش کے لئے اولاد نرینہ چاہتے ہیں اور بیٹیوں کا ان کی پیدائش سے پہلے ہی قتل کردیتے ہیں۔ مگر یہ قانون الٰہی ہے جسے وجود میں آنا ہے وہ آکر ہی رہتا ہے۔ جب خواہش کے خلاف بیٹی پیدا ہوجاتی ہے تو چہرے ماتمی ہوجاتے ہیں‘ گھروں کے ماحول سوگوار ہوجاتے ہیں۔ مگر جیسے جیسے مخالف ماحول میں بھی بیٹیاں پروان چڑھتی ہیں‘ تو یہی آنکھ کا تارہ بن جاتی ہیں اور ماں باپ بالخصوص بیٹی باپ کی چہیتی اور لاڈلی ہوتی ہے۔ ماں کے مقابلہ میں باپ کو زیادہ چاہتی ہے اور عموماً باپ بھی یہ جانتے ہوئے کہ بیٹے ان کے وارث اور ان کی نسل کو جاری رکھنے والے ہوتے ہیں‘ بیٹیوں سے ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ کبھی تنہائی میں ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا اپنی بیٹیوں سے ہم کس قدر محبت کرتے ہیں۔ کیا اس محبت کوجانچنے کا کوئی پیمانہ ہے؟ اگر ہے تو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم تو اپنی بیٹیوں کو چاہتے ہیں مگر جب دوسروں کی بیٹی اپنے گھر لاتے ہیں تو کیا اسے بھی اتنی محبت دے پاتے ہیں۔ آخر کیوں ہم دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتے۔ اپنی بیٹی کی ذراسی تکلیف پر ہم تڑپ اٹھتے ہیں مگر اس سے کہیں زیادہ تکلیف اسے پہنچاتے ہیں جو کسی اور کی بیٹی ہے۔ اپنی بیٹی پر کوئی آنچ نہ آئے اس کے لئے ہم اپنے آپ کو قربان کردیتے ہیں اور اپنے مفاد اور اَنا کے لئے دوسروں کی بیٹی کو زندہ جلادیتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے آرام اور خوشی کے لئے ہم اُس گھر کو تک جنت بنادینا چاہتے ہیں جہاں وہ بیاہی گئی اور جب کسی اور کی بیٹی اپنے گھر لائی جاتی ہے تو کیوں اس کی زندگی جہنم بنادیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘ یہ بھی سچ ہے کہ آج کے دور میں گھر میں آنے والی صرف اپنا راج چاہتی ہے۔ وہ گھر جوڑنے کے بجائے توڑ کر اپنی دنیا الگ سے آباد کرنا چاہتی ہے‘ مگر اس کے لئے بھی کبھی کبھی دونوں ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہم اپنی بیٹی کی ہر غلطی کو اولاد سمجھ کر معاف کردیتے ہیں‘ اس کی بدکلامی کو نظر انداز کردیتے ہیں‘ وہ جھڑک بھی دے تو اسے لاڈ و پیار کا نام دیتے ہیں۔ اگر اپنے گھر آنے والی دوسروں کی بیٹی کبھی آپ کی ڈانٹ ڈپٹ پر ردعمل ظاہر نہ کرے تب بھی اسے الزام دیا جاتا ہے آپ کی بات کا جواب دے تو اسے بدزبانی قرار دیا جاتا ہے‘ مائیں جو ساس بن جاتی ہیں آخر کیوں بھول جاتی ہیں کہ آج دوسروں کی جو بیٹیاں ہمارے ان کے گھر آئی ہیں برسوں پہلے وہ بھی اسی طرح اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر آئی تھیں‘ انہیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ماضی کی تجربات کو آخر کیوں ہم حال کے لئے استعمال نہیں کرتے۔
شاید یہ احساس ساس اور بہو میں تلخی اور دوری پیدا کرتا ہے کہ بیٹے اور شوہر کی محبت کسی ایک کی نہیں رہی بلکہ دو میں تقسیم ہوگئی۔ جو بہو اپنے شوہر اور ساس کے درمیان دیوار کھڑی کردے یا فاصلے پیدا کردے اسے یہ سوچنا چاہئے کہ کل یہی حالات اس کے ساتھ بھی پیش آنے والی ہیں۔ اپنے بچے کو جس مصیبت سے جس محبت سے پال پوس کر وہ پروان چڑھانا چاہ رہی ہے ایسے ہی محبت اور مصیبت سے اس کے شوہر کو اس کی ساس نے پروان چڑھایا ہے۔ ایسا ہی احساس ساس میں پیدا ہونا چاہئے کہ دوسرے کی بیٹی اس کے گھر آئی تو وہ بھی اپنا گھر بار رشتے ناطے چھوڑ کر آئی ہے۔ اس کا بھی اِس گھر پر حق ہے۔ اگر دونوں ذرا سی فراخ دلی سے کام لے‘ اپنے اپنے مقام اور رشتے سمجھ جائیں تو یہ رشتہ اٹوٹ بن جائیں گے‘ کاش ایسا ہوجائے۔

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے