ان ۱۵ برسوں میں ہم مسلسل ایڈز، کینسر، سوائن فلو اور سارس جیسی بیماریوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔ جاپان سے نیپال تک قدرتی آفات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گلوبل طلسمی، آئینہ سے جھانکتا بازار ہمیں خوفزدہ کررہا ہے اوردوسری طرف فاسٹ فوڈ کی دنیا اب ’میگی‘ کے نام سے گھبرانے لگی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ، فارین شیئر، اکسچنج، اسٹاک آپشن، میک ان انڈیا اور امریکی تصرف تک انقلابی زمین کھوکھلی ہوچکی ہے۔ قدیم وجدید کا حیران کرنے والا سنگم ہے اور بے سمت بصیرت وآگہی۔ ڈپریشن کا شکار اکانومی، لیسبین ازم، لیوان ریلیشن، گھر واپسی ، لو جہاد، سوشل نیٹ ورکنگ، سائبر کرائم تک نئی اصطلاحیں ہمیں ایک ایسی نئی سے وابستہ کررہی ہیں جہاں مستقبل کا کینواس کورا ہے اور نئے پرانے دماغ ایک دوسرے میں تحلیل ہورہے ہیں۔ سائنس موت پر فتح پانے کی کوشش کررہا ہے اور معصوم ننھے بجے شوگر، بلڈپریشر اور دنیا بھر کی خوفناک بیماریوں کا شکار ہوکر اپنا بچپن بھول رہے ہیں۔
ہزاروں موضوعات، ہزاروں سوالات، ان سوالوں کا جواب ادب کو بھی دینا ہوتا ہے۔ فکشن اورناول کی بڑی دنیا کا احاطہ کرتے ہوئے ہم ایسے تمام سوالوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ۱۹۹۰ کے بعد ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بعد کی جو نئی ادبی فضا ہے وہ اب تک کنفیوژن شکار ہے۔ بہر صورت مکالمہ ضروری ہے۔ ادب کی دنیا کو صرف ہندوستان اور پاکستان تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اردو کی ایک بڑی عالمی بستی ہے، جہاں ویب سائٹس اور بلاگس ہیں اور مسلسل نئے مسافر ہمارے اس ادبی سفر کا حصہ بن رہے ہیں۔ اور یہ اعتبار کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اردو ابھی زندہ ہے۔ زبان ابھی باقی ہے۔ مگراس کے باوجود زندہ زبانوں کا کردار یہ ہے کہ مکالمے بند نہ ہوں۔ صحت مند بحث ومباحثہ اور نئے مکالموں کو آواز دی جائے۔
ادب سلسلہ کے اولین شمارہ میں، اردو فکشن کے اس سنجیدہ مکالمے میں ہم آپ کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔
۱۔ ۱۵ برسوں میں اردو فکشن کی سمت ورفتار کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں۔
۲۔ پاکستانی رسالہ اجرا کے مدیر احسن سلیم کے مطابق ہم ادب برائے تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن ہماری سوچیں منجمد۔ ہندوستانی رسالہ آمد کے مدیر خورشید اکبر اس دھند کو نجات کا نام دیتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ترقی پسند ادب مرچکا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جدیدیت کبھی مر نہیں سکتی۔ عالم خورشید جیسے کئی شاعر اور ادیب اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی وابستگی کسی تحریک، کسی ازم سے نہیں ہے۔ بغیر کسی ادبی تحریک کے کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہمارا فکشن بھی گمراہی اور بھول بھلیوں کا شکار ہے؟ کیا ادب کے لیے تحریک سے وابستگی ضروری ہے۔؟
۳۔ آپ دس ایسے فکشن نگاروں کا نام لیجئے، جو آپ کو پسند ہوں۔ یہ تعداد زیادہ ہوتو اور بہتر ہے۔ آپ عالمی اردو بستی سے اپنی پسند کے دس فکشن نگاروں اوران کی کسی ایک کہانی کا تذکرہ کریں۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ایسے کون سے نام ہیں، جو زیادہ تر قاری اورآپ کی پسند میں شامل ہیں۔ ایسے ناموں کو ہم الگ سے ادب سلسلہ کے آئندہ گوشوں میں شامل کریں گے۔
اپنی غیر مطبوعہ کہانی ادب سلسلہ کو روانہ کریں۔ افسانہ نمبر میں نئی نسل پر الگ سے ایک گوشہ ہوگا۔
جواب دیں