ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ہریانہ اور مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات کے نتائج آچکے ہیں۔ دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس نے ہریانہ میں 75 اور مہاراشٹر میں 200 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا ہدف طے کیا تھا۔ مگر ہریانہ میں بی جے پی منوہر جیت سے دور رہی۔ وہ بہ مشکل 40 سیٹوں تک پہنچ سکی یعنی اکثریت سے چھ سیٹیں کم۔ اس کی 75 پار کی مہم منھ کے بل گر گئی۔ 2005 میں بی جے پی کو دو اور 2009 میں چار سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ 2014 میں 46 سیٹیں جیت کر وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہو گئی کہ اب اسے کوئی ہرا نہیں سکتا۔ جمہوریت میں جب عوام سر اٹھاتے ہیں تو اچھے اچھوں کو گرا دیتے ہیں۔
بی جے پی شاید اس وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوئی کہ اسے 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں ہریانہ کی کل 90 اسمبلی سیٹوں میں سے 79 حلقوں میں بڑھت حاصل ہوئی تھی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی کے کچھ وزراء کو چھوڑ کر پوری کابینہ کا سپڑا صاف ہو گیا۔ جبکہ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اپنی تشہیری مہم کا آغاز "جن آشرواد" یاترا سے کیا تھا اور حلقہ وار ترقی کا رپورٹ کارڈ ہاتھ میں لے کر ریاست کے سبھی 90 اسمبلی حلقوں کو ناپا تھا۔ ٹکٹ بھی انہیں کی مرضی سے تقسیم کئے گئے تھے۔ دو وزراء سمیت گیارہ موجودہ ممبران اسمبلی کے ٹکٹ بھی کاٹ کر کئی نئے چہروں کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی مزکورہ ریاستی انتخابات جیتنے کے لئے بھاجپا نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی سمیت وزیر داخلہ امت شاہ، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ، راج ناتھ سنگھ، اسمرتی ایرانی، ہیمامالنی، سنی دیول ن?تن گڈگری جیسے چالیس اسٹار پرچارکوں نے اپنی طاقت جھونکی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کو مجوزہ چار کی جگہ سات ریلیاں کرنی پڑیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کو ہریانہ میں جن نائیک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانی پڑی ہے۔
ہریانہ میں جہاں بی جے پی اکثریت سے دور رہی، وہیں مہاراشٹر میں اسے 17 سیٹیں کم ملیں۔ سیٹوں کے ساتھ بی جے پی کو 5.4 فیصد ووٹ کا خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ یہاں کانگریس اور این سی پی کو بالترتیب 2 اور 13 سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ یہ اس وقت ہے جب دونوں ریاستوں میں اپوزیشن کی حالت بہت خراب تھی۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کے کئی ممبران اسمبلی نے آخری دنوں میں بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا، تو ہریانہ میں اندرونی گٹ بازی کانگریس پر حاوی تھی۔ پھر بی جے پی نے انتخابات جیتنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ اس نے دونوں ریاستوں میں اپنے آزمائے ہوئے "کاسٹ انجینئرنگ" کے فارمولے کو استعمال کیا۔ اس کے تحت اہم ذاتوں کو باہر رکھ کر غیر اہم ذاتوں کو توجہ دی گئی، ان کو غول بند کیا گیا۔ یہ غولبندی سنگھ پریوار نے اعلیٰ ذاتوں کی قیادت میں کی ہے۔ تاکہ اس کے ذریعہ اقتدار کو پسماندہ ذاتوں کی قیادت کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جا سکے۔ اسی منصوبہ کے تحت مہاراشٹر میں غیر مراٹھا (دیوندر فڑنویس کی شکل میں برہمن) اور ہریانہ میں غیر جاٹ (منوہر لال کھٹر کی شکل میں پنجابی) کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ جان کاروں کا ماننا ہے کہ ہریانہ میں جاٹوں کی نمائندہ آئی این ایل ڈی کا دو حصوں میں تقسیم ہونا، کانگریس کے سابق ریاستی صدر کا اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کا جھنڑہ اٹھانا، شیواجی کے وارث کو بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑانے اور ہار کا احساس ہونے کے باوجود اپوزیشن کو متحد نہ ہونے دینے کے پیچھے سنگھ پریوار کے سیاسی مینجمنٹ کا اہم کردار تھا۔ اس سب کے بعد بھی عوام نے اپوزیشن کو ووٹ دیا، تو صاف ہے کہ وہ بی جے پی سے ناراض ہے۔ ہریانہ کے انتخابی نتائج نے جاٹ بنام دیگر کے نریٹیو کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ کانگریس کو ان حلقوں سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں جہاں دلتوں کی آبادی ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر کی شوگر بیلٹ میں این سی پی نے اچھی سیٹیں حاصل کی ہیں۔
شاید کانگریس وقت رہتے اسے بھانپ گئی تھی۔ تبھی اس نے اشوک تنور کو باہر کا راستہ دکھایا اور بھوپیندر سنگھ ہڈا پر بھروسہ کیا۔ اس سے جاٹ ووٹ کانگریس کے حق میں غول بند ہوئے۔ حالانکہ پارٹی میں نئے جاٹ لیڈر کو نہ ابھار پانے کا نقصان بھی کانگریس کو اٹھانا پڑا۔ ہڈا اپنے کو جاٹوں کا سب سے مضبوط نیتا ثابت کرنا چاہتے تھے تو دشینت چوٹالا جاٹوں کا اصلی نیتا۔ چوٹالا کی جن نائیک پارٹی نے دلتوں کے 09 او بی سی 10 جاٹوں کے 31 اور سینی کے 09 فیصد ووٹوں پر ہاتھ صاف کیا۔ جے جے پی کے اچھے مظاہرہ سے کانگریس کے لئے مشکل کھڑی ہوئی۔ پھر کانگریس نے اس الیکشن کو سنجیدگی سے بھی نہیں لیا۔ پارٹی اپنا قومی صدر تک بھی نہیں چن سکی اور نہ الیکشن کی وہ تیاری کر سکی جو درکار تھی۔ اگر پارٹی نے یہ انتخاب دشینت چوٹالا کے ساتھ اتحاد کر لڑا ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ بہر کیف ہریانہ میں کانگریس کی کارکردگی کا سہرا ہڈا کو جاتا ہے۔ کانگریس، این سی پی اب بھی مہاراشٹر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہاں ففٹی ففٹی کے فارمولے پر بی جے پی، شیو سینا کے بیچ پیچ اٹکا ہوا ہے۔ ویسے وزارت خریدوفروخت اور توڑ پھوڑ آسانی سے اس بازی کو پلٹنے نہیں دے گی۔ واضح رہے کہ ان دونوں کے اتحاد نے 160 سیٹیں حاصل کی ہیں۔
ریاستی وضمنی انتخابات میں کامیابی کے لئے بی جے پی نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹوں کو پولرائز کرنے کی پوری کوشش کی۔ ہر انتخابی تشہیر میں خود وزیراعظم دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمہ کا ذکر، ہریانہ کے حصہ کے پانی کا پاکستان جانا اور مہاراشٹر میں 1993 کے بم دھماکوں کو یاد دلانا نہیں بھولے۔ حالانکہ اس سے ٹھیک پہلے بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1992 کے آخر اور 1993 کے شروع میں ہوئے مسلم مخالف فسادات کی انہیں زرا بھی یاد نہیں آئی۔ انہوں نے اس کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ انہیں یہ سب صرف چناؤ کے لئے یاد آیا، یا ان کی ڈبل انجن کی سرکار نے گزشتہ پانچ سال میں اس معاملہ میں کچھ کیا بھی ہے؟ وہ انتخابی جوش میں یہاں تک کہہ گئے کہ اپوزیشن کا بی جے پی کے چناؤ م?ں بار بار 'کشمیر کاروائی' کی دوہائی کو اقتصادی بحران کی جانب سے دھیان ہٹانے کی کوشش بتانا، اپوزیشن کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے۔ وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ اپوزیشن کشمیر کو چھوڑ کر، معیشت کی بگڑی صحت پر جواب دینے کی مانگ کیسے کر سکتا ہے۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ اور مراٹھا لیڈر شرد پوار نے الیکشن سے کافی پہلے کہا تھا کہ اگر مہاراشٹر انتخاب سے پہلے پلوامہ جیسا کوئی واقع نہیں ہوا تو بی جے پی جیت نہیں پائے گی۔ اتفاق دیکھئے کہ ریاستی وضمنی انتخابات سے محض ایک دن قبل ہندوستانی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے لانچنگ پیڈ اڑانے کا دعویٰ کیا۔ جس کو اس الیکشن میں کیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ یوپی اسمبلی اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی ہندوستانی افواج کے کارنامے کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود ضمنی انتخابات میں 51 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی محض 14 سیٹوں پر کامیاب ہوئی، مگر پارلیمنٹ کی دو سیٹوں میں سے ایک بھی اسے نہیں مل سکی۔ ہریانہ میں عوام نے اسے اکثریت سے دور رکھا۔ کیوں کہ وہاں کے 24 فیصد لوگ بے روزگاری سے جوجھ رہے ہیں۔ بے روزگاری کی یہ شرح قومی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں ہریانہ کے لوگوں کی دلچسپی بے روزگاری دور کرنے والے منصوبوں سے تھی جس پر توجہ نہیں دی گئی۔ وہیں دوسری طرف مہاراشٹر میں کسانوں کی تکلیفیں کم نہیں ہو رہیں۔ عوام نے قومی مسائل کے مقابلہ مقامی مسائل پر زیادہ دھیان دیا۔ یہ نتائج عوام کی ناراضگی اور نعم البدل کی عدم موجودگی کی غمازی کرتے ہیں۔ عوام نے ان نتائج میں یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی اہمیت کو بھولے نہیں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر اپوزیشن ان کی آواز نہیں بنے گی تو وہ خود حزب اختلاف کے تیور اپنائیں گے اور برسراقتدار جماعت کے خلاف ووٹ کریں گے۔ اس لئے بی جے پی کو اپنی سیاست کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرکے خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اسے آئندہ ہونے والے ریاستی انتخابات میں بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ تو وہیں سیکولر پارٹیوں خاص طور پر کانگریس کو اپنی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی پر دھیان دے کر اپنی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا تاکہ وہ عوام کی آواز بن سکے۔ (یو این این)
جواب دیں