جب جب شری مودی نے کہیں انگریزی میں تقریر کی تو ہمارے دوستوں میں سے کسی نہ کسی نے کہنا شروع کیا کہ اس کی جگہ یہ کہنا چاہئے تھا اور اس کی جگہ یہ بولنا چاہئے تھا۔ ہم نے اس پر اپنے ہی دوستوں سے سوال کیا کہ مودی صاحب کی تقریر تم نے سن کر سمجھ لیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے مانا کہ ہم سمجھ گئے۔ ہم نے پھر دوسرا سوال کیا کہ وہ جن لوگوں کے سامنے تقریر کررہے تھے کیا وہ نہ سمجھ سکے ہوں گے کہ انڈیا کے پرائم منسٹر کیا کہہ رہے ہیں؟ سب نے کہا بالکل سمجھ گئے ہوں گے اس لئے کہ انگریزی صحیح تو تھی فصیح نہیں تھی۔ اور مقابلہ ڈاکٹر منموہن سنگھ، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سے ہے اس لئے بات کمزور ہوجاتی ہے۔
تین دن سے وہ چین کے دورہ پر ہیں وہاں وہ ہر جگہ انگریزی میں ہی باتیں بھی کرتے ہیں اور تقریر بھی جبکہ چین آبادی کے مقابلہ میں وہ ہم سے بہت بڑے ہونے کے باوجود اس میدان میں بہت چھوٹا ہے کہ وہاں ہمارے ملک کے مقابلہ میں دس فیصدی بھی انگریزی سمجھنے والے نہیں ہیں۔ میں کل ہی لکھ چکا ہوں کہ میری پوتی نے وہاں پانچ سال تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ جب جب گھر آتی تھی اور یہ سمجھ کر اس کے دادا کو دوسری بیماریوں کے ساتھ سیاسی باتیں سننے اور سوال کرنے کی بھی بیماری ہے۔ اس لئے وہ خود ہی میری پیاس بجھا دیتی تھی۔ اس نے ہر بار کہا کہ سب کچھ اچھا نہیں بہت اچھا ہے۔ بس زبان کی پریشانی ہے۔ ہمارے گاؤں کے دُکاندار بھی معمولی انگریزی سمجھ لیتے ہیں اور سامان دے دیتے ہیں۔ وہاں کے دُکاندار جب ہم ہندوستانیوں کو دیکھتے تھے تو ہماری ضرورت کا سامان خود ہی نکلواکر رکھ دیتے تھے اور پھر سب کچھ اشاروں میں ہوتا تھا۔ حد یہ ہے کہ اس مسجد کے قریب جہاں ہم سب جمعہ کی نماز پڑھنے جاتے تھے وہاں ایک ایسا ہوٹل تھا جہاں کچھ ہندوستانی کھانے مل جاتے تھے اور ان کی ہی گوشت کی دُکان تھی جہاں حلال ملتا تھا ہم وہاں سے کچھ پکا ہوا اور تھوڑا کچا لے آتے تھے۔ وہ بس السلام علیکم اور وعلیکم السلام سے آگے اشاروں پر آجاتے تھے۔
یہ تو شاید کوئی بھولا نہ ہوگا کہ جب چین میں اولمپک ہوا تھا تو وہاں وہ کتنی دور سے ایک ندی سے پانی لائے تھے اور شہرت تھی کہ انہوں نے مصنوعی بادل اور بارش کے لئے بھی بہت کچھ کررکھا ہے۔ ہمیں صرف یہ بتانا ہے کہ حکومت کو اس وقت فکر ہوئی کہ ان کے استقبال اور ان کے انتظامات کے لئے جو ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہوگی وہ ایسے کہاں سے لائیں جو انگریزی سمجھ سکیں اور جواب دے سکیں؟ پھر انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ہی نوجوانوں کو رات دن پڑھاکر اس وقت تک تیار کرلیں اور انہوں نے یہ بھی کرکے دکھا دیا کہ سیکڑوں لڑکے انگریزی سمجھنے لگے اور بولنے لگے۔
ایسے ملک میں جہاں انگریزی نہ ہونے کے برابر ہو وہاں انگریزی میں تقریر کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ چین میں ان کی تقریر سمجھنے والے یا تو وہ ہوں گے جو حکومت کے بڑے عہدوں پر ہیں۔ یا وہ ہوں گے جنہوں نے اولمپک کے لئے چھ مہینے میں سیکھی تھی۔ وہ سن کر شاید محسوس کررہے ہوں گے کہ پرائم منسٹر صاحب نے بھی شاید ایسے ہی سیکھی ہے جیسی ہمیں سکھائی تھی۔
زبان کا مسئلہ بہت نازک ہے وہ اہل زبان کے مجمع میں بولی جائے تو اسے صرف صحیح ہی نہیں فصیح ہونا چاہئے۔ ہمارے والد صاحب کی درجنوں کتابوں کا ترجمہ ڈاکٹر محمد آصف قدوائی نے کیا تھا۔ صاحب فراش تو وہ اسی دن سے تھے جس دن اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل کرکے یونیورسٹی سے آئے تھے۔ پھر وہ پلنگ سے اٹھ ہی نہ سکے۔ 1970 ء میں وہ بہت کمزور ہوگئے تھے والد ماجد نے ایک کتاب اپنی بیماری میں لکھی اور چاہا کہ اس کا ترجمہ آصف صاحب کردیں وہ ہمارے والد صاحب سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ہماری طرح وہ انہیں اباجی کہتے تھے۔ انہوں نے بڑے دُکھ کے ساتھ کہا کہ اباجی اب مجھ سے نہیں ہوگا۔ والد صاحب نے کہا کہ یہ کوئی قرآنی حکم نہیں ہے آپ بوجھ نہ لیں اور بات ختم ہوگئی۔ ایک مسلمان آئی اے ایس جو ریٹائر ہوگئے تھے ان کا ہمیشہ سے والد صاحب سے تعلق تھا۔ ایک دن وہ آئے تو برابر کی میز پر وہ کتاب رکھی تھی اسے اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہئے۔ والد صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر آصف میاں اب کام کے قابل نہیں رہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مولانا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں کروں گا اس کا ترجمہ۔ جس آدمی کو جو زبان نہ آتی ہو، وہ اس کے صحیح ہونے اور فصیح ہونے کے متعلق تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ والد صاحب کے نزدیک ایک وہ شخصیت جس نے تعلیم حاصل کی آئی اے ایس ہوا۔ ایس ڈی ایم ہوا، ڈی ایم ہوا، کمشنر ہوا۔ نہ جانے کتنے محکموں کا سکریٹری رہا اس کی انگریزی کو آصف صاحب کی انگریزی سے اس لئے بہت بلند ہونا چاہئے کہ آصف صاحب تعلیم مکمل کرکے بستر پر لیٹ گئے۔
والد صاحب نے اسے خدا کا انعام سمجھا اور کتاب ان کے حوالہ کردی۔ یہ بھی فرما دیا کہ میں جانتا ہوں اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے مگر میرا بھی ایک اصول ہے کہ ٹائپ کے لئے کاغذ کمپیوٹر آپریٹر کی اجرت اور نہ جانے ایسے کتنے متفرق خرچ ہوتے ہیں جس کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہہ کر ایک لفافہ میں رکھ کر زبردستی ان کو لینے پر مجبور کردیا اور کئی مہینے کے بعد معلوم ہوا کہ کتاب انگریزی میں ہوگئی۔ سکریٹری صاحب اسے لے کر آئے تو فرمایا کہ بس اب اسے پریس کو دے دیجئے۔ والد صاحب نے فرمایا کہ میری ہر کتاب کا ترجمہ ڈاکٹر آصف صاحب نے کیا ہے اور اکثر انگریزی کے بڑے اخباروں نے کتاب کے مضمون پر تو جو کہنا تھا وہ کہا لیکن زبان کی ہر ایک نے تعریف کی۔ اور ہم بھی دنیا میں جہاں گئے وہاں یہ سننے کو ملا کہ انگریزی میں پڑھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بہت بڑے انگریزی کے مفکر ادیب کی یہ تصنیف ہے۔ اس لئے میں اسے آصف صاحب کو دکھاؤں گا۔ سکریٹری صاحب کو جیسے کسی نے نچوڑ لیا۔ فرمایا کہ میری کتاب آصف کو دکھایئے گا؟ اور یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے کہ تو پھر مترجم کی حیثیت سے میرا نام نہ لکھئے گا۔
کتاب آصف صاحب کے پاس گئی تو ان کا بیان تھا کہ جتنی محنت اسے سنوارنے میں لگی اتنی تو شاید ترجمہ کرنے میں نہ ہوتی۔ جب کتاب ترجمہ کے لئے سکریٹری صاحب لے گئے تھے اور آصف صاحب کو معلوم ہوا تھا تو انہوں نے برجستہ کہا تھا کہ سکریٹری۔۔۔ انگریزی صحیح لکھتے ہیں۔ اور وہ پہلی ایسی کتاب ہے جس میں کسی مترجم کا نام نہیں ہے۔
چین میں کل کا دن مودی صاحب کے من پسند پروگرام کا دن تھا۔ کل ان کے سامنے چین میں مقیم ہزاروں ہندوستانی بیٹھے تھے۔ کل ہی 16 تاریخ بھی تھی جس دن اُن کے بادشاہ بننے کا یقین ہوگیا تھا۔ انہوں نے اُن بے خبر ہندوستانیوں کو خوب خوب بے وقوف بنایا۔ انہیں نصیحت کی کہ یہاں اپنے ملک کی برائی نہ کرنا اور خود گاگاکر کہا۔ دُکھ بھرے دن بیتے رہے بھیا۔ دُکھ بھرے دن بیتے رے بھیا۔ جہاں دُکھ بھرے دن بیتنے کی بات کررہے ہیں وہاں سواتین روپئے پیٹرول اور پونے تین روپئے ڈیزل کے دام اس کے باوجود بڑھ گئے کہ 15 دن پہلے ہی اتنے بڑھ چکے ہیں اور مہنگائی کی ابھی سے اُلٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ جگہ جگہ احتجاج ہورہا ہے۔ کسان معاوضہ کو رورہے ہیں۔ بے روزگار ان وعدوں کا انتظار کررہے ہیں جو اُن سے کئے تھے۔ اور وزیر اعظم ایک سال کے بعد بھی چین کے صنعتکاروں کو یہی بتارہے ہیں کہ آپ آکر کارخانے لگائیں۔ زمین بجلی پانی سڑکیں ریلوے لائن اور کاریگر سب آپ کو ملیں گے۔ لیکن جو کہانی جاپان سے شروع ہوئی تھی وہ دنیا بھر کا چکر کاٹ کر چین آگئی لیکن کارخانہ تو دور کی بات ابھی تو کوئی دیکھنے بھی نہیں آیا اس لئے کہ ہندوستان میں صرف مودی ہی نہیں ہیں وہ بھی ہیں جنہوں نے بودھوں کو مار مارکر ہندوستان سے نکالا تھا اور وہ بدھ دھرم جو ہندوستان کا تھا۔ اب چین، جاپان، کوریا، تائیوان اور نہ جانے کہاں کہاں کا ہوگیا ہے۔ بھارت میں وہ بھی ہیں جو عیسائیوں کے اسکول اور گرجاگھر برداشت نہیں کرتے۔ وہ بھی ہیں جنہیں سڑکوں کے پتھروں پر اورنگ زیب روڈ، اکبر روڈیا کسی بھی مسلمان کے نام کی روڈ برداشت نہیں۔ اور ملک صرف حکومت کے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک فریق ہے ایسا فریق کہ ابھی چار برس طاقت اس کے پاس رہے گی۔ اس کے بعد اوپر والا جانے۔
جواب دیں