تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹرافک سے متعلق ان حادثات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے ۵ ہزار کروڑ روپے سالانہ کا نقصان کو ملک کو اٹھانا پڑتا ہے، حالانکہ پورے کرۂ ارض کی کل موٹر گاڑیوں کا صرف ایک فیصد یعنی۵ کروڑ وہیکل ہندوستان میں پائی جاتی ہیں جو آزادی کے بعد ۱۹۵۱ء میں صرف ۳ لاکھ تھیں پھر بھی دنیا کے مجموعی سڑک حادثوں کا تقریباً چھ فیصد ہمارے یہاں رونما ہوتا ہے۔
سروے کے مطابق ان سڑک حادثات میں ذاتی موٹر گاڑیوں کے مقابلہ میں ٹیکسی اور بس ڈرائیوروں سے حادثے زیادہ ہوتے ہیں، مثال کے طور پر گاڑیاں تیزی سے ڈرائیوکرنا، ان کو چلانے میں لاپرواہی برتنا، سڑک کے درمیان گاڑیاں کھڑی کردینا، اوورٹیک کرنا، مقررہ اسٹاپ کے بجائے دوسری جگہ پارک کرنا، ٹریفک روشنی کے سگنل پر توجہ دیکر گاڑیاں آگے بڑھا دینا وغیرہ روز افزوں حادثات کا باعث بنتے ہیں۔
عالمی ادارے اقوام متحدہ نے ٹرافک حادثات دن بدن بڑھتے اتلافِ جان ومال کے وجوہ کا اندازہ لگانے کے لئے جو سروے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سڑک حادثات کے لئے عام طور پر ڈرائیو کرنے والے ذمہ دار ہوتے ہیں، جو کبھی گاڑیاں چلانے میں اپنی مہارت کا بے جا مظاہرہ کرکے تو کبھی ٹرافک کے اصول وضوابط کو خاطر میں نہ لاکر اپنی اور دوسروں کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو مناسب تربیت اور جانچ کے بغیر لائسنس مل جاتے ہیں، نشہ کی حالت میں گاڑی چلاکر اور برق رفتاری کا مظاہرہ کرکے بھی وہ حادثات کو دعوت دیتے ہیں، اسی لئے ہندوستان میں فی دس ہزار موٹر گاڑیوں پر ۶ء۳۴ فیصد کی شرح سے حادثوں کا اوسط ہے جو دنیاکے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے، یہ شرح امریکہ میں ۱۴ ، جرمنی میں ۷ء۱۳، فرانس میں ۴ء۹، جاپان میں ۱۰ اور سویڈن میں ۸ء۴ پائی جاتی ہے۔
ان روز افزوں سڑک حادثوں کا ایک اہم سبب ہندوستان کی شاہراہیں بھی ہیں کہنے کو ۱۹۵۱ء میں یہاں جن سڑکوں کی لمبائی ۴ لاکھ کلومیٹر تھی وہ ۹۶۔۱۹۹۵ء تک بڑھ کر ۳۳ لاکھ کلومیٹر ہوگئی ہے لیکن ان کی ۵۰ فیصد تعداد آج بھی غیرپختہ ہے اور جو پختہ شاہراہیں ہیں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے ان کا ۴۰ فیصد حصہ خراب حالت میں ہے، جب ان شاہراہوں پر ٹرک، بس، ٹینکر، کار، جیپ اور دوپیہہ گاڑیاں دوڑتی ہیں اور آج کی تیز رفتار زندگی کا مقابلہ کرنے کے لئے ان میں باہم مسابقت ہوتی ہے تو حادثات کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔ خاص طور پر میٹروپولیٹن شہروں کی سڑکوں یا قومی شاہراہوں پر مال ڈھونے والی گاڑیوں، پرائیویٹ کاروں، دیگر سواریوں کا جو مکڑ جال بڑھتا جارہا ہے اس کے تناسب سے شاہراہوں کا طول وحجم کم ہونے سے بھی حادثات بڑھتے جارہے ہیں۔
جن پر قابو پانے کے لئے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ عام سڑکوں کی حالت میں اصلاح لائی جائے، ان پر سے ٹرافک کا بوجھ کم کرنے کے لئے دوہری سڑکیں نیز فلائی اوور برج تعمیر کرائے جائیں، جہاں ضرورت ہو خصوصی ٹریک چلائی جائیں تاکہ پیٹرول کی بچت بھی ہوسکے، اسی طرح سڑکوں کی بروقت مرمت ، آئے دن کے ٹرافک جام پر قابو پانے کے لئے یک رخی (ون وے) کا طریقہ اپنایاجائے۔
بڑے شہروں کی طرح درمیانی اور چھوٹے شہروں کی مصروف شاہراہوں پر جلسہ وجلوسوں پر پابندی عائد کی جائے، عام پبلک مقامات مثال کے طور پر سنیما ہال،کمیونٹی ہال اور شادی گھروں کے سامنے پارکنگ کی سہولتیں فراہم کرکے اس کے نظم کو باقاعدہ بنایاجائے۔ فٹ پاتھوں، سڑکوں، گلیوں اور عام مقامات پر سے ناجائز قبضے بروقت ہٹوائے جائیں جو خلاف ورزی کے مرتکب ہوں ان سے مواخذہ کرکے جرمانہ وصول کیاجائے۔
اسی طرح گاڑی چلانے والے خواہ وہ فور وہیلر چلاتے ہوں ، تھری وہیلر یا ٹو وہیلر انہیں بھی ٹرافک کے ضابطوں کا لحاظ وخیال کرنا چاہئے۔ اگر وہ اپنی جان خود جوکھم میں ڈالنا پسند نہیں کرتے تو انہیں حتی الامکان تیز رفتار ڈرائیونگ سے بچنا چاہئے ٹووہیلر پر سوار ہیلمٹ پہن کر چلیں تاکہ ناگہانی حادثے کی صورت میں کسی مہلک ضرب سے محفوظ رہیں، سڑک جب تنگ ہوتو مزید احتیاط سے کام لیں، ٹریفک سگنل اور ضابطوں کی مکمل پابندی کریں، فور وہیلر چلانے والے بالخصوص ٹرک ڈرائیور نشہ میں گاڑی نہ چلائیں، منزل پر جلد سے جلد پہونچنے کے لئے برق رفتاری کا مظاہرہ سے پرہیز کریں، بریک کو اچھی اور کارگر حالت میں رکھیں، وہیکل چلاتے وقت گفت وشنید اور موبائل فون کا استعمال نہ کریں، رات کے وقت مزید احتیاط سے کام لیں۔ اپنی سواریوں پر اتنا بوجھ ہرگز نہ لادیں کہ توازن درہم برہم ہوکر حادثات کا امکان بڑھ جائے۔
ان سب سے ضروری یہ ہے کہ عام شہریوں ، نوجوانوں اور بچوں میں سویکس سینس(شہری شعور) پیداکرنے پر خصوصی توجہ دی جائے، اسکولوں میں ٹرافک کے ضابطوں اور قاعدوں کی باقاعدہ تعلیم دی جائے، ساتھ ہی پولس عملہ کو بھی اس کی تربیت سے آراستہ کیاجائے، سڑک پر پیدل چلنے، راہ گیربھی آمدورفت میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اول فٹ پاتھ پر یا پھر سڑک کے بائیں کنارے چلیں، سڑک عبور کرتے وقت زیبرا کراسنگ کا ہی استعمال کریں تو ان کی یہ احتیاط ٹرافک کے نظام کو باقاعدہ بنانے اور حادثات کو محدود کرنے میں معاون بن سکتی ہے۔ اسی طرح جو ٹرافک کی خلاف ورزی کا مرتکب نظر آئے اس سے باز پرس کرنا بھی ایک باشعور وذمہ دارشہری کے فرائض میں داخل ہے۔
جواب دیں