بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار

از :  محمد زبیر ندوی شیروری

مــــــــاں گھر کا روشن چراغ کہلاتی ہے.جس کے بغیر گھر کاسکون غارت ہوتا ہے.گھر قفس کے مانند لگتا ہے.کیونکہ ماں کسی نعمت عُظمی سے کم نہیں.ماں کا بدل ممکن ہی نہیں.اگر گھر کے افراد سب کے سب موجود ہوں لیکن ماں نظر نہ آئے تو اس کی کمی سوہان روح بن جاتی ہے.اسی طرح ماں موجود ہو مگر دیگر افراد موجود نہ ہوں تب دل اتنا مضطرب نہیں ہوتا جتنا ماں کی غیر موجودگی میں ہوتا ہے.گھر میں اگر بچہ رونے لگے جسے آپ لاکھ کھلونے دیں خاموش کرائیں مگر پھر بھی وہ نہیں مانے گا کیونکہ اب اسے صرف ماں کی ہی ضرورت ہے.یہ ماں کا خونی رشتہ ہے جسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا.مائیں گھروں میں رہا کرتی ہیں اور مرد احباب جن میں بعض کسب معاش کے لیے بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور بعض اپنے ہی وطن عزیز میں رہتے ہیں مگر وہ بھی کسب معاش کے لیے اکثر اوقات گھر سے باہر رہتے ہیں جو شام کو تھکے ہارے لوٹتے ہیں اور اولاد اپنی ماؤں کی آنکھوں کے سامنے دن رات گذارتی ہیں.اس طرح اولاد والدین کے بمقابل ماں کے زیادہ قریب رہتی ہے.جس کا پیار اَبر رحمت اور باران رحمت بن کر برستا رہتا ہے.

مائیں آخر مائیں ہوتی ہیں.مگر ان میں کچھ تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ اور کچھ مغربی تہذیب اور ماحول سے متاثر پائی جاتی ہیں.اگر میں قدیم زمانہ کی ماؤں کی تربیت کا تذکرہ چھیڑوں تو مجھے وہ زمانہ بخوب ہی یاد ہے،کئی سال قبل کی بات ہے کہ پہلے گھروں کا ماحول کم تعلیم یافتہ رہ کر بھی کیا خوب تھا.جب بچی جوتے پہن کر پاؤں کو گھسیٹ کر چلتی ہوئی دکھائی دیتی تو ماں اُسے اِس حرکت پر سرزنش کرتی اور کہتی کہ اچھی بچیاں اس طرح نہیں چلا کرتی،اسی طرح زور زور سے ہنسنے،چیخنے چلانے سے منع کرتی،آہستہ بولنے کی ترغیب دیتی.اور دیگر آداب گھروں میں بچوں اور بچیوں کی تربیت کی لیے مائیں سکھاتی ہوئی نظر آتی تھیں،وہ اس مقولے پر عمل کرتی تھیں کہ کھلاو سونے کا نوالہ لیکن دیکھو شیر کی نگاہ سے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی تربیت میں پروان چڑھنے والی اولاد اپنی اسی بہترین تربیت کی وجہ سے مثالی اولاد قرار پاتی تھی،ماں سے اولاد قرآن سیکھنے.دعائیں یاد کرنے.قصے کہانیاں وغیرہ سننے کی عادی تھی.اس طرح بچے طفلی مکتب کے زمانے سے ہی بچوں کے عالم شمار ہوتے.یومیہ تلاوتِ قرآن کا ماحول پابندی سے ہوتا.ان میں پھر دادا دادی اگر تلاوت کر رہے ہوتے تو بچے ان کی گود میں جا کر بیٹھتے اور قرآن سنتے.اِسی حسن تربیت اور ماحول سے بچے تربیت یافتہ ہو کر نکھرتے تھے.اسی طرح بچوں کے کھیل بھی نرالے ہوتے تھے.اپنے صحن میں ساری بچیاں اپنا اپنا الگ الگ کھیل مل جل کر کھیلا کرتی تھیں.جن سے ان کا دل باغ باغ ہوتا تھا.ان کی بدنی ورزش بھی ہوتی اور چست و توانا بھی رہتے.ان کے کھیلنے کا بھی ایک وقت ہوتا.بچے گلی گلی میں کھیلتے.میدانوں میں کھیلتے.مختلف کھیلوں کا الگ سیزن بھی ہوا کرتا تھا.رات میں جلدی سونے اور صبح میں جلدی اٹھنے کی عادت ہوتی.دن بھر ماں کی نظروں میں اولاد قید رہتی تھی.گھر سے باہر جانا ہو تو اجازت ضروری تھی.بچوں کو کسی نہ کسی کام کی فرمائش ضرور ہوتی جسے وہ اپنے والدین کے تجربات کی روشنی میں پورا کرتے تھے.اس طرح اولاد بچپن ہی میں کئی چیزیں سیکھ لیتی تھی.

لیکن اب یہ ساری باتیں اس طرح تھم گئیں اور بعض تو ختم ہی ہوگئیں جیسے کوئی طوفان آیا ہو اور ساری چیزیں پانی کے بہاؤ میں بہہ کر چلی گئی.حال تو یہ ہے کہ ادب و تربیت کا سلسلہ تھم چکا ہے.ماؤں کو گھر کے کام نمٹانے،موبائیل فون میں شاپنگ میں وقت گزارنے اور ٹی وی کے سامنے چمٹے رہنے سے فرصت ہی نہیں ملتی.بچیاں ماؤں کے سامنے بیٹھ کر پیر ہلاتی ہیں،بڑوں کے سامنے چیونگم چباکر غبارے پھلاتی ہیں،جوتے گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تب بھی مائیں اُنہیں اِن حرکتوں پر ٹوکتی تک نہیں،پہلے زمانے میں بچوں کو سکھایا جاتا تھا کہ جب بڑے آئیں تو عزت سے کھڑے ہوجائیں،تعظیماً ان کی طرف پیر کر کے نہ بیٹھیں.بات ابھی یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ دنیا کی اس جــدیــد ٹـکنــالــوجـی میں میرا عینی مشاہدہ ہے کہ پہلے مائیں اپنے بچوں اور بچیوں کو اسلامی لباس پہنایا کرتی تھی.آج بھی یہ تصورات اور آداب دینی تعلیم یافتہ گھرانوں میں دیکھنے ملتے ہیں.مگر بہت سے گھرانوں کا ماحول آج بالعکس ہے.مائیں آداب اور اصول و ضوابط سے بالکل ہی عاری ہیں.اپنی اولاد کے معاملات میں بے پرواہی اور بے اعتنائی برتی جا رہی ہے.اہل مغرب کی تہذیب و کلچر اور ماحول سے متاثر ہو چکی ہیں.ان کے رہن سہن کو ترجیح دی جارہی ہے.آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج کل بچوں کے کپڑے بازاروں میں عجیب عجیب قسم کے دستیاب ہیں.ایک وقت تھا کہ بچے پھٹے پرانے اور پیوند شدہ کپڑے پہنا پسند نہیں کرتے تھے مگر آج یہ فیشن بن چکا ہے.کبھی ران کے پاس جینس پینٹ پھٹی ہوئی ہے تو کبھی اس پر پرندوں اور جانوروں کی تصاویر تو کہیں عورت کی عجیب و غریب تصاویر نقش ہیں جن کا احساس نہ ماں باپ کے دلوں سے گذرتا ہے اور نہ ہی بہننے والوں کو.بعض دفعہ اسی پر نماز بھی پڑھ لیتے ہیں.ایسے ہی بچیوں کے کپڑے جن میں بعض فٹ پینٹ اور فٹ شلوار اور اسی طرح مردوں جیسے کپڑے یعنی پینٹ ٹی شرٹ وغیرہ.یہی عادتیں طول پکڑتی ہیں نیز بد ترین کپڑوں کے انتخاب سے بھی حیا و شرم رفتہ رفتہ رخصت ہونے لگتی ہیں جس کا احساس نہیں ہوتا.بعض ایسے کپڑے ہوتے ہیں جن سے جسم کی ساخت نظر آتی ہیں.کچھ حصہ کھلا تو کچھ حصہ بند.یہی عادت انسان کے اخلاق پر اثر پیدا کرتی ہیں جو نہایت ہی قبیح گناہ ہیں.بچوں کے لیے ریشمی لباس کا بھی انتخاب ہوتا ہے.سَــونا مردوں کے لیے کلی طور پر حرام ہے بجائے اس کے بچوں کو سونے کی انگوٹھی پہنا دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ وہ ابھی بچہ ہے مگر ان سب کے ذمہ دار و مجرم خود مائیں اور گھر کے افراد ہیں.اس طرح کے کپڑے خریدتے وقت اور بے اصول زندگی کا نہ ماؤں کو احساس ہوتا ہے اور نہ ہی کــلکم راع کے تحت  ذمہ دار احباب سمجھاتے ہیں.

یــــاد رکـھـیــے کہ بچے آپس میں کھیلتے ہیں.ان میں بچپن ہی سے ہمیں شرم و حیا جیسی باتوں اور کاموں پر توجہ دلوانی ہے اور آداب و شرم سے ہٹ کر جتنی باتیں ہیں ان سے باز رکھنا ہے.طفلی مکتب سے ہی ان کی صحیح تربیت ہو.نظروں کی حفاظت ہو.وہ حیادار بنیں.کبھی بچوں کو ایک دوسرے کے سامنے ننگا کر کے کپڑا نہ پہنائیں اور نہ ہی استنجا کرائیں،بلکہ پردہ کا اہتمام کرائیں.پردے سے نظروں کی حفاظت ہوگی اور برے اثرات سے محفوظ رہیں گے.ورنہ رفتہ رفتہ ان کی عقلیں غلط کاریوں پر لگ کر بگڑ جائے گی اور نتائج ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں.پھر سَـــراسیمگی میں مبتلا ہو کر فائدہ نہیں بلکہ قبل از وقت توجہ ضروری.

آج کل زمانہ ٹی وی سیریل وغیرہ کا ہے.جس میں بچے بچیاں ٹی وی سیریل وغیرہ میں دیکھی ہوئی چیزوں کے متمنی ہوتے ہیں.ان جیسے کپڑوں کا گرویدہ بنتے ہیں اور عید میں اسی کے مثل کپڑوں کی اشتیاق رکھتے ہیں جو اسلام کے برخلاف ہیں.مگر ماں باپ حد درجہ اور والہانہ شفقت و محبت کے باعث ان کی مطلوبات کے آگے سر خم تسلیم کرتے ہیں.مگر صد افسوس کہ غلط نتائج سے غافل رہتے ہیں.کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح کے لباس میں ملبوس ہو کر ان کے اخلاق پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ پھر آپ ہی اندازہ لگائیں کہ آپ نے اس پلنے والے بچے یا بچی کے مستقبل کی کہاں تک فکر کی؟؟ شرم و حیا کا کہاں تک خیال رکھا؟؟؟ تربیت کی روشنی میں جو تعلیمات دی گئ ہے اس پر کہاں تک عمل پیراں ہوئے؟؟ ایک وقت تھا کہ بچوں کے کھلونے الگ الگ ہوا کرتے تھے.آج موبائل جسے انسان محض اپنی ضرورت کے لیے استعمال میں لاتا تھا وہ آج بچوں کے لیے کھلونا بن چکا ہے.یہ بات واضح رہے کہ الکٹرانک اشیاء بالخصوص نقصان کا باعث ہے.ایسے واقعات آپ کی نظروں سے گذر چکے ہوں گے.اسی لیے والدین ہی خود بچوں کے سامنے موبائل کا استعمال نہ کریں.یہی ان کی موبائل سے حفاظت کا باعث بن سکتا ہے.

ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہمارا مذہب دینِ اسلام ہے اور اسلام پاکیزہ زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے.اسلام کے اہل کاروں کو جو تعلیم شریعت سے ملتی ہے وہ دیگر مذاہب میں ممکن نہیں.اسـلام والدین کو اولاد کی نشو نما کے ساتھ ان کی تربیت و تادیب کی تعلیم دیتا ہے.ان میں ایمان و عقیدہ کی روح پھونکنا ہمارا کام ہے.شرم و حیا اچھی اور بری چیزوں کی تمیز اسلام سکھاتا ہے.پاکیزہ زندگی،رہن سہن اور پاکی اور صفائی ستھرائی نیز مناسب لباس کی تعلیم دیتا ہے،اسلام کی اخلاقی تعلیم وتربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیا کے اس چھپے ہوئے مادّے کو فطرت انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعوری غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے،سب سے بڑا چور نگاہ ہے.قرآن اور حدیث دونوں سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں،رب نے مرد وعورت کو حکم دیا ہے کہ جب وہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو اپنی نگاہ نیچی رکھیں.کیونکہ گناہ کی ابتدا بری نگاہ سے ہی ہوتی ہیں.لہذا اگر ایمان ہے تو حیا ہے.اگر حیا ہے تو ایمان باقی ہے.اللہ نے ہر انسان میں حیا رکھی ہے.جس کی تمثیل بچوں اور بچیوں میں بچپن ہی سے دیکھنے ملتی ہے.اگر ماں باپ تربیت یافتہ ہیں تو یقینا وہ اپنے اولاد کی تربیت میں کوشاں و سرگرداں رہتے ہیں اور اپنے پیچھے وراثت میں سیم وزر نہیں بلکہ تعلیم و اخلاق کا سرمایہ چھوڑ جاتے ہیں.ان کے رہن سہن کے طور و طریق پر نظر رکھتے ہیں،جس کے نتائج اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں نیز بوڑھے ماں باپ اپنے بڑھاپے میں بہترین بدلہ پاتے ہے جو اُن کی بہترین تربیت کا ثمرہ ہیں.دنیا میں بڑے بڑے ائمہ،مفسرین و محدثین،علماء،فقہاء،ادباء اور نیک انسان یونہی آسمان سے نہیں اترے بلکہ اِنہی ماؤں کی کوکھ سے جنم لیے ہیں.آج ایسی ہی ماؤں کی اور تربیت کی ضرورت ہے.کل یہی مائیں اور والدین میدان محشر میں اپنے بچوں پر فخر محسوس کریں گے اور بچے اپنے ماں باپ پر.

حدیث کا قطعہ ہے کہ الحیاء شعبة من الایمان  یعنی حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے،اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ جذبہ ہے،جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے اللہ کے سامنے محسوس کرتا ہے،حیا وہ قوت ہے جو انسان کو فحش اور منکر کاموں کے لیے اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلت حیوانی کے غلبے سے کوئی بُرا فعل کر گذرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں کچوکے لگاتی ہے،پھر انسان گناہ کے دلــدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور عادتیں بگڑتی ہیں.آج معاشرہ میں کئی ایسے بگڑے نوجوان دیکھیں گے، بیڑی،سگریٹ،تمباکو،شراب نوشی،دیر رات لوٹنا.گھر والوں پر چیخنا چلانا اور.نافرمانی کرنا وغیرہ.اسی طرح بیٹیوں کی حرکتیں اور نافرمانیاں وغیرہ جن عادتوں کی اصل وجہ صحیح تربیت سے محرومی و بے توجہی ہے.

ضرورت ہے کہ ہم اولاد کی صحیح تربیت کریں،اسلامی وضع قطع سے ان کی دیکھ بھال کریں.ان کے رہن سہن پر اور کپڑوں پر توجہ دیں اور بہترین اخلاق سے مزین کریں اور یہ طئے کر لیں کہ بچوں کو سنت لباس پہنائیں گے.ایسا لباس جو کسی قوم سے مشابہت نہ رکھتا ہو.یاد رکھیں کہ اسلامی لباس میں شرم و حیا اور عزتِ نفس کا تحفظ ہے.اخلاق کی نگرانی ہے.والدین کی عزت ہے.اسلامی لباس سرور و انبساط اور تسکین قلب کا باعث ہے.ناظرین کے لیے بہترین تصورات اور شرافت کا ثبوت ہے.دین کے اہل کاروں اور دیگر مذاہب کے لیے بہترین پیغامِ حیات بھی ہے.

 خواتین اسلام یہ سوچ لیں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا،آپ نے جہاں اپنی ماں سے کھانا پکانا سیکھا ہے وہیں اُن سے اولاد کی تربیت کے کچھ آداب بھی پوچھ لیں اور ازواج مطہرات و انبیائے کرام کی سیرت معلوم کر لیں تاکہ اپنے اولاد کی صحیح تربیت آج کے ماحول میں رہ کر بھی آپ مثالی انداز میں کر پائیں اور بہتر تربیت کر کے مثالی ماں بن سکیں.

دعا ہے کہ اللہ ہماری ماؤں کو صحابیات جیسی مائیں بننے کی توفیق دے آمین.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے