عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
گذشتہ چند دنوں سےایک کم سن بچی کے ساتھ جنسی تشدداوردرندگی کا واقعہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں موضوع بحث بناہوا ہے،ہرایک کی زبان پر اسی حادثے کے چرچے ہیں اور ہرکوئی اس اندوہناک واقعہ کی پرزورمذمت کررہاہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق یہ تازہ واقعہ حیدرآبادکےمسلم اکثریتی علاقے ٹولی چوکی میں واقع ایک مسلم اسکول میں پیش آیا جہاں درندہ صفت سپروائزر نے اسکول میں جاری سائنسی نمائش کے دوران چاکلیٹ دینے کے بہانہ سے اسکول ہی کے عقبی حصہ میں لے جاکر چار سالہ معصوم بچی کےساتھ شرمناک حرکت کا مظاہر کیا ۔ اس واقعہ کا پتہ اس وقت چلا جب لڑکی کے والد اپنی معصوم بچی کو لینے کےلئے اسکول پہونچے، بچی نے باپ سے شکایت کی کہ اس کے پیٹ میں درد ہے، والد کے فوری دواخانہ لے جاکر معائنہ کرانے پر پتہ چلاکہ اس معصوم کی عصمت دری کی گئی ہے۔ اس گھناؤنی حرکت کا پتہ چلنے پر لڑکی کے والدین نے اسکول کی انتظامیہ سے رجوع کیا اور گولکنڈہ پولیس اسٹیشن پہونچ کر اسکول کے خلاف شکایت درج کروائی ۔ جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سپروائزر کو حراست میں لے لیا اور اس کے خلاف عصمت ریزی پوسکو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا ۔ بعد ازاں برہم عوام نے اسکول پہونچ کر انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ، اس مظاہرہ میں مرد و خواتین کی بڑی تعداد شریک رہی۔ اسسٹنٹ کمشنر پولیس مسٹر کے اشوک چکرورتی نے بتایا کہ اسکول سوپروائزر کے خلاف عصمت ریزی کے علاوہ پوسکو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، اُنھوں نے کہاکہ یہ واقعہ دوپہر 12.30 بجے کے قریب پیش آیا اور پولیس، اسکول کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کی بنیاد پر شواہد اکٹھا کررہی ہے۔ متاثرہ لڑکی نیلوفر دواخانہ میں کچھ دن زیرعلاج رہی ۔
انسانیت کے نام پر سیاہ دھبے کے مترادف اس نوعیت کےخوف ناک واقعات ملک بھر میں جگہ جگہ پیش آتے رہتے ہیں ؛مگران کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ بچے گلشن گیتی کےمہکتے پھول،مسکراتے غنچے اور لہلاتے پودے ہیں؛مگران کی آبیاری،نگہبانی اور باغبانی والدین کا فرض منصبی اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی قدرت کا عظیم تحفہ اور انمول نعمت ہے جس کو نہ رد کیا جاسکتا ہے نہ بدلا جاسکتا ہے ۔ انسان اس معاملہ میں بے بس ہے، اللہ جسے جو چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:’’(تمام) بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور ) قدرت والا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ 49:50)چناں چہ ولادت سے لےکربلوغت تک اور اس کے بعدبھی اولاد کی اسلامی تعلیم اور دینی تربیت، ہر دور کا اہم تقاضا اور ہر زمانے کی بڑی ضرورت ہے۔بچوں کی نفسیات کے ماہرین نے مختلف زاویوں سے بچوں کی تربیت کا اہتمام کرنے اور انہیں ایک نیک و اچھا انسان بنانے کےحوالے سے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی اخلاقی،معاشرتی،ذہنی،حسی، جذباتی اور جنسی تربیت کرنا والدین اور سرپرستوں کےلیے ازحد ضروری ہے۔
اسلام میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈلوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ابتدائی عمر میں بچوں کےاندر سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے،وہ ہرچیزکی نقل اتارنے اور بڑوں کی طرح بڑاکام کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ امام غزالیؒ کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم) گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوں کا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے؛ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی ہوتی ہیں اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔
ایک بارحضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہیے! اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہئے؟ احنف بن قیس نے کہا امیرالمومنین اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے۔ جو نہایت نرم اوربے ضرر ہے اورہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہیں کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔ پس اگروہ کچھ آپ سے مطالبہ کریں تو ان کے دلوں کا غم دور کیجئے! نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اورکبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیئے کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اورآپ کی موت کے خواہاں ہوں۔ آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔
بچوں کی جنسی تربیت کےتعلق سےذیل میں کچھ اہم اور بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں،اگر ان کا لحاظ رکھا جائے تو بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ ہوسکتاہے اور انسان نما درندوں کو بہ آسانی کیفر کردار پہونچایا جاسکتا ہے۔
جنسی تربیت کسے کہتے ہیں ؟:
جنسی تعلیم و تربیت سے مراد عمر کے ساتھ ساتھ بچوں میں جو جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں ان سے متعلق مسائل سے آگاہی اور نت نئے چینلجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی اور سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے۔ والدین کے لیے یہ تربیت تب ہی ممکن ہے جب وہ اس کی ضرورت محسوس کریں اور انہیں خود ان مسائل سےواقفیت ہو۔ان موضوعات میں سب سے اہم موضوع بچوں کو ان کے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا، کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب بتلانا،ایام اور احتلام کے بعد غسل، حمل، مرد عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات، اور زنا کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں زیر بحث لائےجاسکتے ہیں، درحقیقت اسی کانام جنسی تعلیم ہے۔
بچوں کا بستر الگ کریں !:
رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو حکم فرمایا: جب تمہارے بچے ساتھ سال کے ہو جائیں تو اُنہیں نماز پڑھنے کا حکم دو! اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر اُن کی پٹائی کرو ، اور اُن کے بستر الگ الگ کر دو !(سُنن ابو داؤد)
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے ۔آج کل بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کروالدین ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے، بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنےکی اجازت نہ دیں،کمرہ ایک ہو توبچوں کا بستر الگ ہو اور بچیوں کا بستر الگ ہو،اسی طرح بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس طرح کے لوگوں سے ہے، بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں! اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں۔
بچوں کو بستر پر جب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں۔اسی طرح والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں.ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے۔ نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
بچوں کو مشغول رکھنے کی کوشش کریں:
وقت کی اہمیت او ر قدر ومنزلت بچوں کے اذہان میں راسخ کریں ،کہاجاتاہے کہ فارغ ذہن شیطان کی دوکان ہوتا ہے،چوں کہ بچوں کا ذہن لوح و تختی (سلیٹ) کی مانند صاف ہوتا ہے،ان کے ذہن پر ہر نقش پتھر کی لکیربن جاتاہےاور بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا دماغ اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کااثر فوراً قبول کرلیتا ہے، اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں، ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں؛بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی خطرناک مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتے ہیں،انٹرنیٹ اور موبائیل تو ان کے لیے سم قاتل ہے۔ہاں ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو،وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوسکے۔
بچوں کی مصروفیتوں پر نظر رکھیں!:
یاد رکھیں! والدین بننا ایک اہم ڈیوٹی ہے؛اس لیے اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے،بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں. حضرت عمر رضی اللہ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے، ان دو ہیئتوں میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں۔
بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو چھیڑنے یا بار بار چھونے سے منع کریں،انہیں مستور رہنے کی تلقین کریں ،مکمل لباس زیب تن کرنے کی عادت ڈالیں!ورنہ بری عادتیں آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے۔نیزبچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں!
وقفے وقفے سے جانچ پڑتال کریں !:
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں،والدین کے علم میں ہونا چاہیے کہ بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے،ان کابیاگ کس قسم کے لٹریچر سے بھراہواہے؟مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائیویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں؛کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپ کے نہیں۔
یادرکھیں !والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ ترحصہ غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے۔جب بچےتیرہ، چودہ سال کے ہوجائیں تو لڑکوں کو ان کے والد اور بچیوں کو ان کی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں؛تا کہ انہیں عفت و پاکدامنی کی اہمیت اور پردے و حجاب کے احکام معلوم ہوں ۔
اخیر میں اللّہ تعالیٰ سے دعاہےکہ وہ ملت کے تمام بچوں کی عصمتوں کو محفوظ فرمائے اور ہوس پرستوں کی ہوسناکی سے بچائے آمین۔
جواب دیں