نواب علی اختر
ایودھیا تنازعہ کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے بعد سوا سو برس سے زیادہ سے چل رہی قانونی لڑائی اب انجام کو پہنچ چکی ہے۔ متنازعہ زمین رام للا کو سونپ دی گئی اور مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں ایک ٹرسٹ تشکیل دے کر مسجد کے لئے ایودھیا میں ہی کسی مناسب مقام پرپانچ ایکڑ زمین دینے کے احکام جاری کیے گئے۔ سپریم کورٹ کی نگاہ میں ہر چند کہ مذہبی عقائد معنی نہیں رکھتے تھے اور اسی لئے اس نے رام جنم بھومی کے دعوے پر غور نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے ایک اور بنیادی کام یہ کیا کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کو بنیادی اہمیت دی اور بعض فیصلہ کن نتائج اخذ کیے۔ ہر فیصلے کی طرح اس فیصلے پر بھی اتفاقِ رائے مشکل ہے مگر ملک کی موجودہ فرقہ وارانہ صورت حال کو نظر میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہر پہلو کو کچھ نہ کچھ خوش کرنے کا ذہن بنایا اور اتفاق رائے سے پانچوں جج صاحبان نے یہ فیصلہ پیش کیا۔
اس اہم اور تاریخی معاملے میں بھی مثل سابق مسلمانوں کا رول سب سے اہم رہا ہے جس کی یقینی طور پر ستائش ہونا چاہیے۔ مسجد فریق کی جانب سے پورے ملک میں مثالی امن پسندی کا مظاہرہ کیا گیا جب کہ رام مندر کے حامیوں نے متعدد مقامات پرشرپسندی پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے جلوس نکال کر اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ جب پانچ سو سال سے زائد پرانے تنازعہ کا تصفیہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے متنازعہ اراضی رام جنم بھومی نیاس کو سونپنے کا فیصلہ سنایا، اسی وقت انتہائی سیکورٹی والے سپریم کورٹ کے احاطے کے اندر نرموہی اکھاڑا اور ہندو مہا سبھا کے حامی ’ایک ہی نعرہ، ایک ہی نام، جئے شری رام، جئے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس کی شکل میں لان تک آگئے۔ ’فتح یابی‘ کے اس جشن میں بے ہنگم اور بھڑکانے والے کام انجام دیئے گئے۔ شرپسندوں نے عدالت کے لان میں’شنکھ ناد‘ بھی کیا۔ کئی وکلاء بھی ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔
وہیں دوسری طرف اپنی بات پر قائم رہ کر مسلمانوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے طرفدار ہیں اور اپنی عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس تنازع کے روز اول سے مسلمانوں کا یہی مو قف رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس کو قبول کیا جائے گا۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کیونکہ مسلم فریق کا مقصد اول ملک میں قانون کی حکمرانی قائم رکھنا تھا اس لئے کہ قانون کی حکمرانی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کوئی بھی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام بھی فتنہ وفساد کوپسند نہیں کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی کے بغیرفتنہ وفساد کا تدارک ناممکن ہے اور معاشرے میں بھی امن قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں آج مسلمانوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ہم اسلام کے فدائین اور پیرو کار ہیں اور فتنہ وفساد کو ہرگز پسند نہیں کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے احترام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا جو بھی فیصلہ ہو اس سے صد فیصد اتفاق کیا جائے، اس میں’غلط‘ باتوں سے اختلاف بھی کرنا ہرشہری کا حق ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ یا ملک کا قانون بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ ہرحالت میں سپریم کورٹ کی باتوں پرایمان لے آئیں۔ قانون کا مطالبہ یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔ ہاں فیصلے میں ’نقائص‘ اور کمزوریوں کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک ورما کا ایک سابقہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ سپریم ہے مگر وہ ناقابل خطاغلطیوں سے پاک نہیں ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ اس سے غلطیاں ہوسکتی ہیں۔
اپنے اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے دو تاریخی فروگذاشتوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی ہے۔ 1949 میں بابری مسجد کے اندر مورتیوں کا رکھا جانا اور 1992ءمیں مسجد کو بہ زور بازو شہید کیے جانے کے واقعات سپریم کورٹ کی نگاہ میں درست نہیں مانے گئے۔ ٹائٹل سوٹ کے فیصلے میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتی ہیں خاص طور پر بابری مسجد کے حوالے سے جو بحث چلی اور اس کی بنیاد پر جو تاریخی تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے اس مو قف کی تائید کی ہے۔ مثلاً سپریم کورٹ کے فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس میں عدالت عظمیٰ نے بہت وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت یا ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ یہ بیان فرقہ پرستوں کے منہ پر کرارا طمانچہ ہے۔ یہ بہت غیرمعمولی بات ہے جس سے تاریخ کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔
بابری مسجد کے مقام پر کچھ برآمد ہونے کی بات کہی جا رہی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ اسلامی ڈھانچہ نہیں ہے اور اس کے ہندو اسٹرکچر ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ اسٹرکچر 12 ہویں صدی کا اسٹرکچر ہے جب کہ بابری مسجد 16ویں صدی میں تعمیرکی گئی۔ بارہویں صدی سے سولہویں صدی کے درمیان 400 سال کے دوران یہاں کا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس لئے اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ اس سے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کی طرف سے کھڑے کیے جا رہے تاریخی بیانیے کی تردید ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ 1991میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جس میں یہ بات کہی گئی ہے1947میں مذہبی مقامات کی جو حیثیت تھی وہی باقی رہے گی سوائے بابری مسجد کے کیونکہ بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لئے اس کا معاملہ سپریم کورٹ طے کرے گا لیکن باقی مذہبی مقامات کی جو صورتحال ہے ان کے لئے 1947 کی پوزیشن باقی رہے گی۔ اس مدت میں جو مسجد تھی، وہ مسجد رہے گی یا جو مندر تھا وہ مندر رہے گا۔ کوئی پرانی تاریخ کا دعویٰ لے کرمسجد کومندر میں تبدیل کرنے یا مندرکو مسجد میں بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ یہ قانون ہماری پارلیمنٹ نے بنایا تھا جس کو سپریم کورٹ نے بہت ہی تائید اور ستائش وتحسین کے ساتھ مضبوطی عطا کی ہے۔ بنارس ہو یا لکھنوجہاں کئی مساجد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی، اسی قانون کے تحت ان سب کی موجودہ صورتحال برقراررکھی گئی ہے۔
اب یہ کہنا کہ ایودھیا معاملے میں پہلے ہی مصالحت کرکے مسجد کو ہندو فریق کو سونپ دیا جاتا جو بالآخر وہی ہوا اور اتنی لمبی لڑائی نہیں لڑنی پڑتی۔ مسلمانوں کی اس لڑائی اور جدوجہد کو جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے دراصل ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ملک کے تمام شہریوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک لمبی جدوجہد کے ذریعہ ملک کے لئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا۔ مصالحت یا درمیانی راستہ اختیار کرنے کا مطلب گویا ہجومی طاقت کی بالادستی قائم کرنے اور آئندہ کے لئے کوئی بھیڑ جمع کرکے من مانے طریقے سے کچھ بھی کرنے کی راہ ہموار کرنا ہوتا۔ اس لئے اب جو بھی فیصلہ آیا ہے اسے غلط کہا جائے یا صحیح مگر اس بات پر سب کو اتفاق ہے کہ یہ فیصلہ قانونی طریقے سے ہوا ہے جو ملک کے تمام شہریوں کے لئے قابل احترام ہونا چاہیے۔ اس کے ذریعہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا سربلند ہوا ہے۔ یہ ملک کے دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے لئے مسلمانوں کی بڑی شراکت کہا جائے گا۔
جواب دیں