بابری مسجد سے محلے کی مسجد تک

فرقہ پرستوں نے اللہ کے گھر مسلمانوں کی ایک عبادت کو شہید نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے سیکولر کردار، مذہبی رواداری کی روایت کو پامال کیا۔ مسلمانوں کا جو بھرم تھا اس کو ختم کردیا۔ ان فرقہ پرستوں میں جہاں مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی شامل تھے وہیں مفاد پرست سیاستدان بھی۔ مسلمان اللہ کے گھر کی شہادت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی صدیوں قدیم مذہبی آہنگی کے ملیامیٹ ہونے کا غم مناتے ہیں۔ عدلیہ پر اپنے اٹوٹ ایقان کے متزلزل ہونے کا ماتم کرتے ہیں۔ ہم اور ہماری پیشرو نسل کے لوگ بابری مسجد کی تاریخی حقیقت، اہمیت سے بھی واقف ہیں‘ اور اُن لرزہ خیز واقعات کے بھی ٹیلیویژن چیانلس کے ذریعہ چشم دید گواہ بھی ہیں جب تاریخی بابری مسجد کو تاریخ کا ایک حصہ بنانے کے لئے ہندوستان بھر سے کرسیوک جمع ہوئے جنہیں حکومت کی جانب سے سیکوریٹی فراہم کی گئی۔ ساری دنیا سے اکٹھا ہونے والے میڈیا نمائندوں کے سامنے کرسیوکوں نے سنگھ پریوار کے سرکردہ قائدین کی موجودگی میں اُن کے نعرۂ ہائے تحسین کی بازگشت میں بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھ کر کدالوں سے اسے دیکھتے ہی دیکھتے شہید کردیا۔ 6؍دسمبر 1992ء کو ہندوستان کا ہر مسلمان اپنی نظر سے خود گردیا۔ پہلی بار اُسے اس سرزمین پر جسے اُس نے اپنے خونِ جگر سے سیراب کیا، سینچا اُسی پر اپنی بے وزنی کا اندازہ ہوا۔ جس ملک کو اس نے حسن، جمال، وقار سب کچھ عطا کیا اُس ملک کی سرزمین میں اُسے اپنے اجنبی ہونے کا احساس ہوا۔ اُس دن اِس حقیقت کا پتہ چلا کہ کس طرح سیکولر لبادے کے اندر فرقہ پرست پنپتے ہیں‘ کس طرح ایک تاریخی مسجد کی شہادت کے ساتھ ساتھ کروڑوں مسلمانوں کے اعتماد، ان کی خودداری اور ان کے مذہبی جذبات کو کچلنے کے دوران اس ملک کا وزیر اعظم چین کی نیند سوتا رہا (موت کے بعد اس کا انجام بھی دنیا نے دیکھ لیا)۔
بابری مسجد اس کے اصل مقام پر دوبارہ تعمیر ہوگی یا نہیں‘ یہ سوال یقیناًذہن میں ابھرتا ہے۔ مایوسی کفر ہے‘ اللہ کی ذات سے یقین ہے۔ ممکن ہے اس کے لئے صدیاں لگ جائیں، جب تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حمیت، غیرت، عزت نفس، خودداری، اپنی عبادت گاہوں سے محبت باقی ہے‘ بابری مسجد سے محبت اس کی شہادت کا غم باقی رہے گا۔ یہ نسل درنسل منتقل ہوگا۔ مگر آنے والی نسلوں کو بابری مسجد کی تاریخ سے واقف کروانا بھی ضروری ہے۔ جہاں تک تاریخی حقائق کا تعلق ہے‘ فاروق ارگلی کی مرتبہ کتاب ’’بابری مسجد حقائق کے آئینے میں‘‘ کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر سے متعلق کہا جاتا ہے کہ سکندر لودھی کے بابرک نامی ایک سپہ سالار لنے بنگال کی فتح کے بعد واپسی کے دوران فیض آباد کے ایک بلند ٹیلے پر ایک عالی شان مسجد کروائی تھی جو بابرک مسجد کہلائی اور کثرت استعمال سے اس کا نام بابری مسجد ہوگیا۔ تاہم مستند حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ شہنشاہ بابر ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے فقیروں کے بھیس میں کابل سے یہاں آئے تھے اور فیض آباد میں ایک بلند ٹیلے پر ان کی ملاقات اس دور کے مقتدر بزرگ شاہ جلال الدینؒ اور حضرت موسی عاشقانؒ سے ہوئی۔ یہ بزرگان دین نے بابر کی التجا پر اس کی امداد باطنی کیلئے دعا کی اور حکم کیا کہ اگر اس کے تمام مرادیں پوری ہوجائیں تو اس ٹیلے پر ایک مسجد تعمیر کروانا۔ 1528ء میں جب بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس نے اودھ میں اپنے گورنر میرباقی کے ذریعہ اس ویران ٹیلے پر ایک مسجد تعمیر کروائی جو بابری مسجد کے نام سے موسوم رہی جس کے منبر پر فارسی اشعار مسجد کی شہادت تک کندہ تھے۔
بہ فرمودۂ شاہ بابر کہ عدلش
بنا بست با کاخِ گردوں ملاقی
بناکرد ایں محبط قدسیاں را
امیر سعادت نشاں میر باقی
بود خیر باقی چو سال بنایش
عیاش شد کہ محکم بود خیر باقی
بابری مسجد کی تعمیر سے پہلے وہاں کوئی مندر نہیں تھا یہ بات بھی تاریخی کتب اور مستند حوالوں سے ثابت ہے۔ کچھ فاصلے پر چند بیراگی ایک کورٹ پر رہا کرتے تھے جسے رام کورٹ کہتے۔ اکبر نے اپنے زمانے میں ہندوؤں کو چبوترہ بناکر پوجا پاٹ کی اجازت دی تھی۔
بہرحال انگریزوں کے زمانے میں سازش شروع ہوئی۔ ہندومسلم اتحاد کو متاثر کرنے کے لئے ایچ او نوئل نامی انگریزی آفیسر نے ڈسٹرکٹ گزٹ کو مرتب کرتے ہوئے یہ غلط ریمارک لکھا کہ بابری مسجد ایک منہدم کرکے بنائی گئی۔ انگریز لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی پر عمل کرتے رہے۔ نفرت کا جو بیج انہوں نے بویا تھا وہ تناور درخت بنا۔ 1885ء میں بیراگیوں کے مہنت رگھبیر داس نے سکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈین کونسل میں بابری مسجد کے متولی محمد اصغر کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ مسجد کے بیرونی احاطہ میں واقع چبوترہ رام جنم بھومی ہے۔ 1885ء سے 1947ء تک بابری مسجد تنازعہ پر مقدمہ بازی ہوتی رہی۔ ملک تقسیم ہوا، ہندوستانی مسلمان سہمے ہوئے تھے۔ فرقہ پرست طاقتیں ان کے خلاف متحد ہوئیں‘ 22دسمبر 1949ء کی رات کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں‘ جس کے بعد نقص امن کے نام پر مسجد پر تالا لگادیا گیا۔ 16؍جنوری 1950ء کو ہندوؤں کی طرف سے ایک دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد دراصل رام جنم بھومی ہے۔ اور یہاں اکھنڈ کیرتن شروع کیا گیا۔ جس پر یہ حکم امتناع جاری کیا گیا کہ جس طرح پوجا رہی اس میں انتظامیہ مداخلت نہ کرے۔
مسجد ۔مندر تنازعہ جاری رہا۔ یکم فروری 1986ء کو ڈسٹرکٹ جج نے حکم دیا کہ بابری مسجد کا تالا کھول دیا جائے اور ہندوؤں کو درشن اور پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے۔ اس وقت ہندوستان کے وزیر داخلہ ارون نہرو تھے۔
تالا کشادگی سے دراصل رام مندر کی تعمیر کے لئے راہ ہموار کی گئی تھی۔ شیلانیاس ہوئی مسلمان احتجاج کرتے رہے۔ سنگھ پریوار رام رتھ یاترا کے ذریعہ ہندوؤں کو متحد کرتا رہا۔ مسلمان بیان بازی میں مصروف رہے۔ پھر 6؍دسمبر 1992ء کو مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ خوددار، غیور مسلمانوں نے اللہ کے گھر کی شہادت پر احتجاج کیا۔ ان میں سے بعض نے جام شہادت نوش کیا۔ کچھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دےئے گئے۔ ملک بھر میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مسلم قیادت کو میڈیا کے ذریعہ بدنام کرکے مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکا گیا۔ وقت گذرتا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت پر احتجاجی آوازیں کمزور ہوتی گئیں۔ 6؍دسمبر کو یوم سیاہ اور مسلم اداروں کا بند ایک روایت بن گیا۔ جلسے ہوتے ہیں‘ گورنرس، کلکٹرس کو 22برس سے یادداشتیں پیش کی جاتی رہی ہیں‘ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
بابری مسجد کو ہم نہیں بچا سکے۔اس کی دوبارہ تعمیر کے لئے ہم یقیناًجدوجہد کرتے رہیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ جو مسجدیں ہیں‘ ان کا تحفظ کیا جائے۔ انہیں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں میں موجود مفاد پرستوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ مسجدوں کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں آباد رکھا جائے۔یہ اللہ کا گھر ہے اسے اللہ ہی کا گھر رہنے دیا جائے۔ کسی مسلک کی ملکیت نہ بنایا جائے۔ مسلکی جھگڑوں نے ہمیں بہت رسوا کیا۔ ہماری غفلتوں، نادانیوں اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہماری مساجد کے جھگڑے پولیس اسٹیشنوں تک پہنچ جاتے ہیں کبھی کبھی تو پولیس جوتوں سمیت بھی اللہ کے گھر میں داخل ہوجاتی ہے۔ اگر اس موقع پر اللہ کے گھر کا تقدس پامال ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، اپنے آپ سے سوال کریں، ہم نے کتنی مسجدوں کی موقوفہ اراضیات پر ناجائز قبضہ کرلیا۔ انتظامی کمیٹی کے ذمہ داروں کی حیثیت سے ہم مسجد کی موقوفہ جائیدادوں کو آمدنی کا ذریعہ بناتے ہیں تو اس میں کس حد تک ا قرباء پروری کرتے ہیں۔ آج ہم ایمانداری کے ساتھ محاسبہ کریں تو ہمارا ضمیر اگر زندہ ہے تو یقیناًکچوکے لگائے گا۔ کیوں کہ مساجد کی جائیدادوں پر ناجائز طور پر قابض غیروں سے زیادہ ہمارے اپنے ہیں۔ غیروں سے کیا گلہ کیا شکوہ‘ ہمارے سینے تو ایمان کی روشنی سے معمور ہیں۔ کیا اللہ کے نام پر وقف کی گئی امانتوں میں خیانت کرتے ہوئے ہمارا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے؟
نئی نسل سے یہی گذارش ہے کہ وہ اللہ کے گھروں کو آباد کرے، انہیں فتنہ پرور عناصر سے پاک رکھیں۔ اگر یہ ذمہ داری ایک فریضہ کے طور پر ادا نہ کی گئی تو پھر اَن گنت مساجد بابری مسجد کی طرح تاریخی گم گشتہ کا ایک ورق بن کر رہ جائے گی۔

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے