شاہد صدیقی علیگ خود زباں سے کیا کہوں شاہد ہے تاریخ چمن آج بھی میرے لہو سے ہے چمن کی آبرو ————————————- پیام فتحپوریؔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ پرتگیزی تا برطانوی نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلمان حکمرانوں، نوابین، تعلقہ داروں خصوصاً مدارس کے بوریا نشینوں نے جس […]
یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ پرتگیزی تا برطانوی نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلمان حکمرانوں، نوابین، تعلقہ داروں خصوصاً مدارس کے بوریا نشینوں نے جس جذبہ سرفروشی کا ثبوت دیا اور موت و حیات سے بے نیاز ہو کر اپنی جان و مال، اہل وعیال اور دنیاوی آسائش، نیز سب کچھ حب الوطنی کی نذر کر دیا، وہ تاریخ ہند کا ایک روشن باب ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جنوبی ہند میں سولہویں صدی میں مالابار صوبہ کیرالہ کے مسلمانوں نے پرتگیزی سامراجیہ کے خلاف اپنی جانوں کی بازی لگا دی تھیں، مگر وہ مطلوب نتائج برآمد نہ کر سکے۔ اس کے بعد نواب حیدر علی اور شیر میسور نے مادر ہند کو تاجران فرنگ سے آزاد کرانے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے، مگر اپنوں کی غداری کے سبب شیر میسور4 مئی 1799ء کو میدان جنگ میں شہید ہو گئے۔
مشرقی ہند میں عیار فرنگیوں کے خلاف نواب سراج الدولہ نے مہم چھیڑی مگر وہ بھی حرص و طمع کے پیکر کالے انگریزوں کے سبب ناکام ثابت ہوئے اور انہیں 3 جولائی 1757ء کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے بعد مجنوں شاہ نے اپنے بھائی موسیٰ شاہ اور دو ہمنواؤں چراغ علی اور نور الحمد کے ساتھ مل کر کئی دفعہ برطانوی سپاہیوں کو قاری ضرب پہنچائی۔ 1803ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے التجا کی وہ انگریزی سامراجیت کے خلاف سر پہ کفن باندھ لیے، جن کی ایک آواز پر سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید اپنے پیروکاروں کے ساتھ صوبہ سرحد کی پہاڑیوں میں خیمہ زن ہو گئے، جہاں انہوں نے انگریزی فوجی سے معرکہ آرائی کرتے ہوئے 1832ء میں بمقام بالاکوٹ جام شہاد ت نوش کی۔ پسپائی کے بعد ان کے حاملین نے یہاں سے نکل کر پٹنہ کے صادق پور کو اپنا مستقر بنایا۔ مولانا عنایت علی اور مولانا ولایت علی نے اس ضمن میں اہم کردار انجام دیا۔ بنگال کے مولوی شریعت اللہ خاں نے 1820ء میں اور ان کے فرزند داد میاں نے 1831ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد چھیڑا۔ سید میر ناصر علی عرف تیتو میر نے اپنے خون کی آخری بوند تک انگریزوں کو سکون کی سانس نہیں لینے دی۔ 1838ء میں جنگ ٹوپی میں بے شمار علماء کرام راہی ملک بقا ہوئے تو وہیں 1848ء میں جب پنچاب فرنگیوں کے زیر نگیں ہو گیا تو مجاہدین نے کمپنی کے خلاف خم ٹھونک لیے۔ جس کی پاداش میں متعدد مجاہدین کو طویل مدت تک مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور بعض کو سولی پر لٹکنا پڑا۔
انگریزوں کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض میں چلنے والی مختلف تحاریک کا نقطۂ عروج 1857ء کی انقلابی مہم تھی۔ جس کے سلسلہ میں مولوی احمد اللہ اور عظیم اللہ نے ملک کے ایک کونے سے دوسرے تک کا سفر کیا۔ لیکن شومیٔ قسمت میرٹھ کے باغی سپاہیوں نے قبل از وقت 10 مئی کو جنگ کا بگل بجا دیا۔ بغاوت کا بگل پھونکنے والے 85 باغی سپاہیوں میں 49 مسلمان اور 36 ہندو تھے۔
کرنل جی. بی. مالیسن لکھتا ہے کہ:
’’اگرچہ بغاوت کے وقت میرٹھ میں اس کے روح رواں مولوی احمد اللہ شاہ یا ان کے ساتھی موجود نہیں تھے، مگر انہوں نے فوج کی تمام رجمنٹوں میں جو کمیٹیاں تشکیل دیں تھیں وہ اپنا کام بخوبی انجام دے رہی تھیں۔‘‘
مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنی کبرسنی کے باوجود جنگ آزادی میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔ میرٹھ سے اٹھی چنگاری کے شعلوں نے شمالی ہندوستان کے بیشتر حصّوں کو اپنی چپیٹ میں لے لیا، جس کی تپش حیدر آباد، اورنگ آباد، اندور، بھوپال، گوالیار اور پٹنہ وغیرہ شہروں میں بھی محسوس کی گئی۔
لیکن انگریزوں کی اعلیٰ تکنیک، جدید اسلحہ، عصری مواصلاتی نظام اور ہندوستانیوں کی غداری و وفا شعاری نے الٹی کر دی سب تدبیریں۔ 20 ستمبر کو سقوط دلی کے بعد انگریزوں نے یکے بعد دیگرے انقلابی مراکز کو روند ڈالا۔ بیگم حضرت محل، مولوی احمد اللہ، شہزادہ فیروز شاہ، بخت خاں، نواب ولی داد خاں (مالا گڑھ ضلع بلند شہر)، نواب تفضل حسین خاں (فرخ آباد)، خان بہادر خاں (بریلی)، نواب محمود علی خاں (نجیب آباد)، مولوی لیاقت علی (الٰہ آباد)، عظیم اللہ (کانپور)، مولانا پیر علی خاں (پٹنہ)، فاضل محمد خاں، عادل محمد خاں (بھوپال)، سعادت خاں میواتی (اندور)، مولانا علاؤ الدین اور طرہی باز خاں (حیدر آباد)، نواب قادر خاں (ناگپور) جیسے جگر گوشوں کے علاوہ بے شمار جیالے مسلمانوں کو سزائے کالا پانی و جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی، یا پھانسی کے پھندے چومنے پڑے۔
جوش انتقام میں فرعون کی رعونت اور چنگیز کے بہیمانہ پن کے پیکر انگریزوں نے ہنستے کھیلتے شہروں کو آن واحد میں شہر خموشاں میں تبدیل کر دیا۔ رعایا خصوصاً مسلمان زیادہ تباہ و برباد ہوئے۔ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی۔ وہ عزت و آبرو کے تحفظ اور نانِ شبنیہ کی تلاش میں در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہو گئے۔ اس جنگ کی ناکامی کے بعد انگریز ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کے خون کے پیاسے رہے۔ بہرحال 1857ء کے مسلمان مجاہدین کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں بلکہ انہوں نے اپنے لہو سے جو انقلابی مشعل روشن کی تھی، اس کی روشنی میں چلتے ہوئے ہی انقلابیوں نے انگریزوں کو 1947ء میں بھارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں