عوامی وسرکاری مقامات پر نمازاداکرنا

 مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی۔جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور

    نماز کی ادائیگی ایک دینی عمل ہے،جس کی ادائیگی زمین کے کسی بھی حصہ میں ہوسکتی ہے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’وجعلت لی الارض مسجدا‘‘(بخاری :۴۳۸)کہ میرے لیئے پوری زمین مسجد بنائی گئی ہے،البتہ نمازکی ادائیگی کے مخصوص جگہیں مساجد ہیں،لیکن ایسی جگہوں پر نمازاداکرنے سے منع کیا گیا ہے جہاں نماز اداکرنے سے کسی انسان کوتکلیف ہو،یا نماز کاخشوع ختم ہو،چنانچہ راستوں میں نمازادا کرنے سے منع فرمایا،حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُصَلَّى  علی َقَارِعَةِ الطَّرِيق(ترمذی:۳۴۶)کہ آپ ﷺ نے راستہ میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔اس حدیث کی شرح میں علامہ مبارکفوری ؒ فرماتے ہیں’’انما یکرہ الصلاۃ فیھا لاشغال القلب بمرور الناس وتضیق المکان علیھم(تحفۃ الاحوزی:۲؍۲۸۴)کہ راستہ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اس لئے لوگوں کے آمدورفت کی وجہ سے دل کاخشوع ختم ہوجاتا ہے اور لوگوں کوتنگی اور حرج لازم آتا ہے۔علامہ عمرانی ؒ کے کلام سے کراہت کی اور ایک وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عام طور پر راستوں میں گندگی اور نجاست بھی ہوتی ہے،اس لئے نماز پڑھنا مکروہ ہے البتہ صاف ستھرے راستوں پر یا کچھ بچھا کر نماز ادا کی جائے تو نماز درست ہوگی۔وہ فرماتے ہیں:وتكره الصلاة في قارعة الطريق؛ لحديث عمر ، ولأنه لا يتمكن من الخشوع في الصلاة؛ لممر الناس فيها، ولأنها تداس بالنجاسات(البیان:۲؍۱۱۳)
    حضرت انس جہنی ؓ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں گیا،وہاں لوگ اس طرح ٹھرے کہ آنے جانے کے لئے راستے بند ہوگئے ،آپ ﷺ نے لوگوں میں اعلان کرنے کے لئے ایک آدمی بھیجا کہ’’ان من ضیق منزلا او قطع طریقا فلا جھاد لہ‘‘ جو اس طرح ٹھرا کہ آنے جانے کا راستہ بند کردیا اسے جہاد کا ثواب نہیں ملے گا (ابوداؤد:۲۶۲۹)اس حدیث سے پتہ چلا راستے سے گذرنے والوں کو بھی اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ راستہ سے اس طرح چلیں کہ دیگر لوگوں کو تنگی اور حرج لازم نہ آئیں،چنانچہ صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:فاللازم علی الجماعۃ النازلۃ فی السفر ان یتخذواطریقا وینزلو ا بجانبیہ لئلا یتضیق الناس فی الخروج من المنازل والرجوع الیھا(عون المعبود:۶؍۷۵)اسی علت ضررکی بنیادپر راستوں میں نمازادا کرنا مکروہ ہے،لیکن جس راستے سے لوگوں کی آمدورفت بکثرت نہ ہویاجو جگہ خالی ہو تووہاں نمازادا کرنا مکروہ نہیں ہے، توگویا عدم کراہت کا مدار کسی کو تکلیف اور ضررلاحق نہ ہونے اور راستوں کے خالی ہونے پر ہے۔اس لئے کہ شارع جب کسی حکم کو کسی سبب اور کسی علت کے ساتھ معلق کرتا ہے تواس علت کے نہ پائے جانے سے حکم بھی پایا نہیں جاتا ،چنانچہ علامہ ابن القیم جوزی ؒ فرماتے ہیں’’اذا علق الشارع حکما بسبب او علۃ زال ذلک الحکم بزوالہ (اعلام الموقعین :۵؍۵۲۸) اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سڑک کے کنارے پیدل چلنے کی جگہ پر لوگوں کی آمدورفت بکثرت نہ ہو یا وہ جگہ خالی ہوتو وہاں نماز پڑھنا مکروہ نہیںہوگا ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:وَالصَّلَاةُ فيها مكروهة فَلَا كَرَاهَةَ فِي الْبَرَارِي إذْ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ طَارِقُونَ(المجموع:              ١٨٥/٤)
دوسرے کی ملکیت والی زمین وجگہ پر نمازاداکرنا
    حضرت ابوہریرۃ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے درمیان تھے کہ اچانک اٹھ کر چلے گئے جب میں ان کی تلاش میں نکلا تو آپ ﷺ بنی نجار کے ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف فرماتے(مسلم:۷۵)اس حدیث کے ضمن میں امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونا اس وقت جائز ہے جب کہ اسے اس کی رضامندی کا علم ہوبلکہ اس ملکیت میں تصرف اور اس سے انتفاع بھی درست ہےجب کہ صاحب ملکیت کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہو(شرح مسلم:۱؍۲۳۹)حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جب ’’لن تنالوالبر حتی تنفقوا مما تحبون ‘‘ یہ آیت نازل ہوئی توحضرت ابو طلحہ ؓ نے اپنے اموال میں سب سے پسندیدہ باغ اللہ کے لئے صدقہ کردیا،یہ وہ باغ ہے جس میں نبی کریم ﷺ صدقہ کرنے سے پہلے بھی جایا کرتے تھے،اور درختوں سے سایہ حاصل کرتے اور وہاں کا پانی پیتے تھے(بخاری:۲۷۵۸)آپ ﷺ کے باغ میں داخل ہونے اور منتفع ہونے پر حضرت ابوطلحہ ؓکو کسی قسم کا اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کے لئے شرف کی بات تھی ،چنانچہ اس حدیث کے ضمن میںمحمد صالح المنجدلکھتے ہیںکہ دوسرےکے باغ میں یا کھیتی میں داخل ہونا اور اس سے فائدہ حاصل کرنا مالک کی اجازت سے جائز ہے،اور صریح اجازت کے بغیر صرف یہ یقین یا گمان ہوکہ مالک داخل ہونے سے منع نہیں کرے گا یا عرفا اور عادتا اس طرح کے باغ میں بغیر اجازت داخلہ کو درگذر کرتا ہے تو ایسے باغ میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(قصص الصحابۃ فی عھدالنبوۃ۔قصۃ بستان ابی طلحۃ۔۶) 
    نیز فقہاء نے اجازت کی دوقسمیں بیان کی ہیں:ایک  اذن صریح یعنی صریح اجازت اور دوسری اذن مفہوم یعنی عرف وعادت کے اعتبار سے سمجھ میں آنے والی اجازت،چوں کہ بہت سے مسائل میں عرفی اجازت کا اعتبار کیا گیا ہے،اس اعتبار سے پیٹرول پمپ ،ریسٹورنٹ  اور حکومت کے زیر ملکیت جیسی جگہوں پر نماز پڑھنے پر ان جگہوں کے مالکان اورعملہ کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہواور ان کے نظام میں خلل کا باعث نہ ہواور نماز پڑھنے والوں پر کسی قسم کی نکیر نہ کی جاتی ہواور نہ ممانعت ہوتو اسے اجازت عرفی مان کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،جیسا کہ بہت سے مقامات اور جگہوں پراجازت عرفی کااعتبار کیا جاتا ہے،لیکن صورت حال اس کے برعکس ہوتو مالکان کی اجازت کے بغیر نمازادا کرنامغصوبہ زمین میں نمازکی طرح حرام ہوگا۔ ارض مغصوبہ کاحکم یہ ہے کہ غصب شدہ زمین میں نماز اداکرنا حرام ہے۔اس لئے کہ غصب شدہ زمین میں مطلقا ٹہرنا اور داخل ہونا حرام ہے تو نماز ادا کرنا بدرجہ اولی حرام ہوگا۔البتہ نماز درست ہوگی،اس لئے حرمت کی علت ایک خارجی علت ہے کہ موضع نماز کسی دوسرے کی ملکیت ہے،اور یہ نماز کی صحت کے لئے مانع نہیں ہے۔ 
علامہ رملی ؒ فرماتے ہیں:
    أما الصلاة في ارض الغير فصحيحة مجزئة وكذلك التيمم بترابها لكن ان لم يعلم ولم يظن رضا مالكها بذالك حرم(  فتاوي الرملي :٤٩)
امام عمرانی ؒ فرماتے ہیں:
    ولایجوز لہ ان یصلی فی ارض مغصوبۃ لانہ لایجوزلہ دخولھا فی غیر الصلاۃ ،ففی الصلاۃ اولی،فان صلی فیھا صحت صلاتہ ۔دلیلنا انھا ارض طاھرۃ وانما المنع فیھا لمعنی فی غیرھا،وھوحق ا لمالک،وذلک لایمنع صحۃ الصلاۃ(البیان:۲؍۱۱۴) 
سرکاری جگہوں پر نمازاداکرنا
    سرکاری زمینیں سرکارکے قبضہ میں ہوتی ہیں ،اور حکومت وسرکار کی ساری چیزیں عوام کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں اس لئے اس زمین کے استعمال پرارض مغصوبہ کاحکم لگایا نہیں جاسکتا،بلکہ اس پر ارض مباح کا حکم لگایا جاسکتا ہے ،کہ ارض مباح کی طرح سرکاری زمین پر کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ اس پر سب کا حق ہوتا ہے،لہذا جس طرح ارض مباح کااستعمال ہرایک کے لئے درست ہے اسی طرح سرکاری زمینوں کا استعمال بھی درست ہے،سرکاری زمینوں میں خاص طوروہ جگہیں جو عوامی کہلاتی ہیں وہاں ہرشہری کا یکساں حق ہوگا،اور ایسی جگہوں پر نماز پڑھنا بھی بغیرکراہت جائز ہوگا،جیسے ریلوے اسٹیشن ،ایرپورٹ ،ٹرین ،جہاز اور حکومت کی ملکیت والے دیگر مقامات پر نماز ادا کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے،اور اس طرح کے مقامات پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے بغیرعوامی تصرفات اوران جگہوں کو استعمال کرنے سے روکنا بھی درست نہیں ہے ۔البتہ اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ نماز ایسی جگہ ادا کی جائے کہ لوگوں کے آمدورفت میں خلل نہ پڑے اور نہ نمازکے خشوع اور خضوع ختم ہوجائے، اگر حکومت ظلما نماز ادا کرنے سے منع کرتی ہے اور نماز ادا کرنے میں قانون شکنی لازم آنے پر جانی ومالی نقصان کااندیشہ ہوتو پھر ان مقامات پر کھلے عام نمازاداکرنے کے بجائے مخفی طورپر کسی طرح نماز ادا کرلی جائے۔ والمراد بالمباح مالایدخل تحت ملک المعصوم من الاراضی والبقاع ومایخرج من الارض من الکلاء والمرعی ونحوھا کل ذلک من المباحات التی لایتعلق بھا ملک معصوم ای لا احد یملکھا ملکا خاصا ،بل ھی عامۃ لکل احد ای نفعھا لایختص باحد دون احد بل ھو حق للجمیع ،فھذا ھو مانعنیہ بالمباح فھذا المباح یکون حقا لمن سبق الیہ قبل غیرہ(تلقیح الافھام العلیۃ بشرح القواعد الفقھیۃ :۳؍۳۹)

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

28دسمبر2023

«
»

اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے