اور آگئے راج ناتھ سنگھ اپنی اصلیت پر

ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ریاستی حکومتوں کو ایک ہدایت بھیجی تھی کہ پولیس اور دوسری حفاظتی ایجنسیوں میں مسلمانوں کی بھرتی بند کردی جائے۔ اس وقت ہر ریاست میں کانگریسی حکومت تھی اور اکثریت پنڈت گووند ولبھ پنت جیسے وزیر اعلیٰ کی تھی (جنہوں نے دو سال بھی پورے نہیں ہونے دیئے اور بابری مسجد کو مندر بنا دیا) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقسیم کے نتیجہ میں جو ہندو مسلمانوں کو بوجھ سمجھ رہے تھے انہیں اس حکم کی آڑ مل گئی اور انہوں نے ہر سرکاری محکمہ میں مسلمانوں کی بھرتی بند کردی۔ سردار پٹیل کے مرنے اور سیکولر ذہن کے ہندو لیڈروں کے شور مچانے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ نے اعلان کردیا کہ پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی پر پابندی کا حکم واپس لے لیا گیا ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوا کہ ہر بھرتی کے بعد مرکزی حکومت دیکھتی کہ اس میں مسلمان لئے گئے یا نہیں؟ اور آج تک ہر صوبائی حکومت سردار پٹیل کے اسی ہدایت نامہ کو تعویذ کی طرح گلے میں ڈالے ہوئے ہے۔ اس لئے کہ یہ اُن کے دل کی آواز ہے۔
سردار پٹیل کے بعد ان کے سچے پیرو 1998 ء میں ایل کے اڈوانی وزیر داخلہ بنے۔ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ ایسا کرتے کہ ان کے بعد مودی کو کچھ بھی نہ کرنا پڑتا۔ لیکن وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی تھے۔ اور حکومت کو حمایت دینے والی 28 پارٹیاں تھیں جن میں ایک درجن مسلمانوں کے حق میں دودھ کے مجنوں تھے۔ اس وجہ سے دل کی بات دل میں ہی رہ گئی۔
ہم اپنے ذاتی مشاہدے اور مطالعہ کے بل پر کہہ رہے ہیں کہ اگر 28 پارٹیوں کی حمایت بھی نہ ہوتی تو اٹل جی اڈوانی جی کو ایسی کوئی بات نہ کرنے دیتے جس کے بعد وہ مسلمانوں سے آنکھ نہ ملاسکیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وہ مولانا علی میاںؒ سے ملنے کے لئے ندوۃ العلماء آئیں۔ یا سنی شیعہ مسئلہ کو غیرجانبداری سے سمجھنے کے لئے حفیظ نعمانی جیسے معمولی آدمی سے ایک گھنٹہ تک اس کی بات سنیں اور ہر ضروری بات کو نوٹ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی چھ برس کی حکومت میں ایک بار بھی تبلیغی جماعت یا جماعت اسلامی کا کسی نے ذکر نہیں کیا جبکہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی میں جماعت اسلامی کو بھی غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگادی تھی اور اس وقت کے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی اور اترپردیش کے امیر مولانا عبدالغفار ندوی کو بنارس کی جیل میں عام حوالاتیوں کے ساتھ 19 مہینے بند رکھا تھا۔
1979ء میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تھی تو اس وقت سب سے اہم مسئلہ ان کے سامنے خاندانی منصوبہ بندی کا تھا۔ سنجے گاندھی کے جوتے کے نیچے پوری حکومت تھی۔ ہر کرایہ کی سواری پر یہ لکھنا کہ ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ یا ’’چھوٹا پریوار سکھی پریوار‘‘ یا ’’بس دو یا تین بچے ہوتے ہیں گھر میں اچھے‘‘ قانونی طور پر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ اندرا گاندھی نے مسلمانوں کے ہر بڑے عالم پر پورا دباؤ ڈالا کہ وہ نس بندی کی مسلمانوں کو ہدایت دیں۔ علمائے دین چٹان کی طرح جمے رہے اور کسی بڑے اور ایسے عالم نے جس کے لاکھوں مسلمان ماننے والے ہوں صاف انکار کردیا کہ جب پیدا کرنے والے نے اعلان کردیا ہے کہ زمین میں پیدا ہونے والے ایک کیڑے کے رزق کی ذمہ داری بھی اس پر ہے تو ہم پروردگار پر عدم اعتماد کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ ملک میں اس وقت بھی جمہوریت نام کی تھی اور آج بھی نام کی ہے۔ سنجے گاندھی جن کا حکم ہر وزیر اعلیٰ اندرا کے حکم سے سے زیادہ مانتا تھا۔ انہوں نے حکم دیا کہ ہر سرکاری ملازم کو پابند کیا جائے کہ جس کے دو یا زیادہ بچے ہیں وہ نس بندی کرالے۔ ہر ضلع کا ڈی ایم جتنی زیادہ نس بندی کرائے گا اس کی اتنی ہی زیادہ ترقی ہوگی۔ اس کا اثر وہی ہوا جو سردار پٹیل کے ہدایت نامہ کا ہوا تھا کہ ہر وزیر اعلیٰ، ہر وزیر، ہر کمشنر، ہر ڈی ایم، ہر تحصیلدار صرف نس بندی میں جٹ گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1977 ء میں اگر جنوبی ہندوستان ساتھ نہ دیتا تو اندرا گاندھی کو 44 سیٹیں بھی نہ ملتیں اور 1980 ء میں دونوں ماں بیٹوں نے پورا الیکشن صرف۔ ’معاف کردیجئے‘ 188{kek dj nhft

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے