وہیں اپنے فکروفن اور علمی و ادبی صلاحیتوں سے صحافت کی اہمیت وافادیت میں اضافہ کرنے والے صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے لیکن ایسے صحافیوں کی تعداد کم ہے جنھوں نے صحافت کے میدان میں سرگرم عمل رہنے کے ساتھ ساتھ علم وادب کے دوسرے میدانوں میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھاکر شناخت قائم کی۔ اُن کم تعداد صحافیوں میں ایک نمایاں نام جناب عارف عزیز کا ہے جو طویل مدت سے صحافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
جہاں تک صحافتی خدمات یا صحافتی عمل کا تعلق ہے اور صحافی کی ذمہ داریوں کا سوال ہے یہ صرف خبرنگاری اور اخبار کو مرتب کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ خدمت خلق کے ہفت پہلو اور رائے عامہ کی تہذیب وتنظیم پر محیط ہے۔ اس کے لیے ایک اچھا صحافی اگر ایک طرف اپنے عہد کے اور اپنے اطراف کے معاملات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرکے اُن کا تجزیہ کرتا ہے تو وہیں اُن پر گہرائی کے ساتھ غوروفکر کرکے اِن نتائج تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانی زندگی کی بھلائی اور بہتری میں معاون ومفید ثابت ہوسکتے ہیں اسی ذیل میں وہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو بے نقاب کرکے اُن کے اسباب کی وضاحت کرتا اور اُن کے تدارک کے طریقوں کی نشاندہی کرکے اُن سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہر اچھا صحافی اگر ماضی کا امین، حال کا نبض شناس اور مستقبل کا نقیب ہے تو اپنے عمل میں وہ ایک صاحبِ علم، صاحبِ بصیرت ، ایک حق بیں، حق شناس، حق نواز، حق گو، حوصلہ مند، بیباک اور کشادہ نظروکشادہ دل انسان ہوتا ہے۔ ہمارے عہد میں عارف عزیز ایک ایسے ہی صحافی ہیں۔ یہ اردو صحافت کی شاندار روایت کے امین بھی ہیں اور عہدِ حاضر میں صحت مند صحافت کے علم بردار بھی۔
زیر نظر کتاب ’’عارف عزیز ایک تجزیہ‘‘ صحت مند صحافت کے علم بردار اور علم وادب کے مختلف میدانوں کے شہہ سوار عارف عزیز کے حالاتِ زندگی کے جائزے ، ان کی شخصیت کے متنوع پہلوؤں کے محاسبہ ان کی صحافتی خدمات کے محاکمہ اور علم وادب کے میدان میں ان کی گوناگوں کاوشوں کے تجزیے پر مشتمل دستاویز ہے۔ تین سو چوراسی (۳۸۴)صفحات میں پھیلی ہوئی یہ کتاب عارف عزیز صاحب کے سوانحی خاکے ، ان کو تفویض کئے گئے چوبیس اعزازات کی تفصیلات، مختلف سیمیناروں میں پڑھے گئے اُن کے ستانوے مقالات کی تفصیلی فہرست کے علاوہ مرتبین انعام اللہ خاں لودھی اور ڈاکٹر مرضیہ عارف کے پیش لفظ اور پروفیسر خالد محمود کے پُرمغز مقدمہ کے ساتھ خراجِ تحسین کے طور پر کہی گئی تین شعری تخلیقات اور اکیاون تحریروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کتاب گیارہ ذیلی عنوانات میں منقسم ہے۔ گیارہواں ذیلی عنوان ’’تخلیقات کا آئینہ‘‘ کے تحت مختلف اصناف نثر میں لکھی گئی عارف عزیز صاحب کی گیارہ تحریریں شامل ہیں۔ مقدمے میں خالد محمود نے عارف عزیز سے اپنے گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی شخصی صفات پر روشنی ڈالی ہے اور کتاب کی مشمولات پر سیرحاصل تبصرہ کیا ہے۔ دس ذیلی عنوانات میں سے ایک میں عارف عزیز کے بارے میں مشاہیر اور اُن کے احباب کی آراء درج ہیں۔ نو ذیلی عنوانات کے ذیل میں اکیاون تحریریں شامل ہیں جن میں سے دو ’’مسافر حرم‘‘ اور ’’مساجد بھوپال‘‘ ، سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی اور رسالہ ’’معارف‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ یہ تفریق اس لیے ہے کہ بعض اہل قلم کی ایک سے زیادہ عنوانات کے تحت لکھی گئی تحریریں شامل کتاب ہیں۔
’’شخصیات کے خدوخال‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت سات مضامین ہیں، ان میں عارف عزیز کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور اُن کے کردار وسیرت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس حصّہ میں شامل تمام تحریریں اگرچہ عارف عزیز کے کردار وسیرت کی امتیازی صفات پر روشنی ڈالتی ہیں لیکن دو مضامین (۱) ’’عارف عزیز۔ میدان صحافت میں استقامت کی ایک مثال‘‘ (کوثر صدیقی) اور (۲) ’’میرے ابو ‘‘ (ڈاکٹر مرضیہ عارف) خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ ان دونوں مضامین کی روشنی میں عارف عزیز ایک سچے مسلمان اور کھرے انسان کے روپ میں سامنے آتے ہیں غالباً یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مذکورہ دونوں صفات کسی بھی فرد کے لئے باعث افتخار ہیں۔ اسی سلسلہ میں کتاب میں ذیلی عنوان ’’رپورٹنگ اور انٹرویونگاری‘‘ کے تحت شامل عارف عزیز صاحب کے بارے میں اشفاق مشہدی صاحب ندوی سے خالد عابدی صاحب کی بات چیت کا عنوان ’’داتا رکھے آباداں ساقی تری محفل کو‘‘ دیا گیا ہے بھی قابل ذکر ہے کہ اس میں ایک قلندر صحافی نے دوسرے قلندر صحافی کی شخصیت کے بہت سے ایسے پہلوؤں کو اُجاگر کردیا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ تھے۔
کتاب کے ذیلی عنوان ’’صحافت کا کارِجہاں‘‘ کے تحت پندرہ تحریریں شامل ہیں۔ صحافت عارف عزیز کی علمی خدمات کا اصل میدان ہے۔ اس کے علاوہ یہ میدان مختلف النوع علمی ادبی کاوشوں کو بھی اپنے دائرے میں لیے ہوئے ہے۔ اس لحاظ سے مضامین کی فہرست طویل ہونا لازمی تھا۔ ان تمام مضامین میں عارف عزیز کی صحافتی خدمات کا جائزہ اُن کی اخبارات میں شائع شدہ تحریروں کی خصوصیات کی روشنی میں لیا گیا ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے دور میں جب عام طور پر صحافت حصول زر کا ذریعہ، نام ونمود اور شہرت حاصل کرنے کا وسیلہ بن گئی ہے اور مصلحت پسندی، مصالحت، جانب داری اور بے اصولی کا شکار ہوکر اپنے اصل مقصد اور منصب سے دور ہوتی جارہی ہے عارف عزیز صاحب اپنی دیانت دارانہ کارکردگی سے اردو کی صحت مند صحافت کا بھرم قائم کیے ہوئے ہیں ۔ جیساکہ ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے کہ کتاب کے گیارہویں حصّہ میں عارف عزیز کی گیارہ تحریروں کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام تحریریں صحافت کے ساتھ خاکہ نگاری، تنقید نگاری ، انشائیہ نگاری، کالم نگاری، انٹرویونگاری، سفرنامہ نگاری، خودنوشت، رپورٹنگ ، تحقیق جیسے مختلف میدانوں میں ان کے قلم کی جولانی کی غماز ہیں۔ ان تحریروں پر نظر ڈالنے سے جہاں عارف عزیز کی صحافت اور علم وادب سے متعلق مختلف موضوعات پر مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے۔ وہیں عوامی ، معاشرتی، تہذیبی، تمدنی، معاشی، مذہبی، سیاسی ، اخلاقی اور علمی وادبی معاملات پر اور حالات پر اُن کی گہری نظر اور سنجیدہ غوروفکر کا اندازہ ہوتا ہے اور عارف عزیز بھوپال کے خواجہ حسن نظامی کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ صوری اور معنوی لحاظ سے دلکش اور مفید کتاب ’’عارف عزیز۔ ایک تجزیہ‘‘ کی اشاعت کے لیے عارف عزیز مبارکباد کے اور اِس کتاب کے مرتبین شکریے کے مستحق ہیں‘‘۔
جواب دیں