عبدالعزیز
موجودہ شہریت کا ترمیمی بل جو لوک سبھا میں پاس ہوگیا ہے اور راجیہ سبھا میں پاس ہونا باقی ہے 1955ء کے شہریت کے قانون کو ترمیم کے ذریعے جو قانون بنایا جارہا ہے وہ ہندستان کے دستور دفعہ 14 اور دفعہ 21کے صریحاً خلاف ہے، جس میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے جو ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بدھ مت کے لوگ آئیں گے ان کو شہریت دی جائے گی۔ مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے پہلے ’این آر سی‘ کی بنیاد پر یہ ہوا کھڑا کیا کہ ہر ایک کو جو درانداز ہے چن چن کر ملک سے باہر نکالا جائے گا۔ آسام میں 2014ء کے بعد این آر سی کی مہم تیزی آئی اور 30 اکتوبر 2019ء میں اس کی فائنل لسٹ شائع ہوئی، جس میں 19 لاکھ آسامی باشندوں کو غیر شہری قرار دیا گیا ہے۔ اس لسٹ کے مطابق تقریباً 12 لاکھ غیر مسلم ہیں اور 7 لاکھ مسلمان۔ جب یہ بل قانون بن جائے گا تو اس بل کے تحت 12لاکھ ہندوؤں کو ہندستان کی شہریت دی جائے گی اور سات لاکھ مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جائے گا۔ آس پاس کا کوئی ملک مسلمانوں کو اپنے ملک میں آباد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو حراست کے کیمپ میں رکھا جائے گا۔ یہ شہریت کا ترمیمی بل جو راجیہ سبھا میں پیش کیا جانے والا ہے اسی مقصد کیلئے بنایا جارہا ہے کہ این آر سی کے ذریعہ جو لوگ غیر شہری قرار دیئے جائیں گے ان میں مسلمانوں کے علاوہ جو بھی ہوگا اس کو آسانی سے ہندستانی شہریت دے دی جائے گی۔ بل میں کہا یہ جارہا ہے کہ پڑوس کے تین ممالک میں مسلمانوں کو پریشانی یا اذیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اس لئے کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ ممالک اسلامی ممالک کہلاتے ہیں۔ یہ بات جو کہی جارہی ہے وہ محض مسلمانوں کو شہریت سے اور شہری حقوق سے محروم کرنے کیلئے کہی جارہی ہے۔ اس بل کے پیچھے جو مقصد ہے وہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش ہے۔ یہ بات نہ صرف مسلمان سمجھ رہے ہیں بلکہ فرقہ پرستوں کے علاوہ سارے لوگ سمجھ رہے ہیں۔
گزشتہ روز امیت شاہ جو صحیح معنوں میں جھوٹوں کے شاہ (بادشاہ) ہیں ان کو اس بل کی مدافعت میں کئی جھوٹ بولنے پڑے، لیکن جو سب سے بڑا جھوٹ اور وہ بھی سفید جھوٹ تھا وہ یہ تھا کہ یہ بل مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے خلاف ہے، جبکہ یہ سراسر مذہب کی بنیاد پر ہے اور ایک خاص فرقے کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیاز کیا جارہا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎ ’جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا‘۔ علامہ ہی نے آج کے حالات کو اپنی دوبیں آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ؎ ’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے- تری بربادیوں کا مشورہ ہے آسمانوں میں‘ – ’نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ہندوستان والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ داستانوں میں‘۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر ملک میں امتیاز رنگ و خوں کی وجہ سے دوسری تقسیم کی طرف یا دوسری بار خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہیں۔ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کی طرف سے جو یہ بات کہی جارہی ہے کہ سنگھ پریوار والے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کر رہے ہیں اس کی مدافعت کیلئے امیت شاہ نے دوسرا جھوٹ بولا اور یہ کہا کہ کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر اگر ملک کو تقسیم نہ کیا ہوتا تو آج اس بل کو پیش کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ سدھیندرا کلکرنی نے جو ایل کے ایڈوانی کے دست راست تھے کہا ہے کہ ”امیت شاہ سیاہ قانون کی مدافعت سفید جھوٹ کے ذریعے کر رہے ہیں، جبکہ ان کو معلوم ہے کہ نہ کانگریس کے ذریعے تقسیم ہند ہوا اور نہ کانگریس نے اس تقسیم کو تسلیم کیا بلکہ یہ مسلم لیگ نے کیا۔ کانگریس سیکولر انڈیا کو تسلیم کرتی ہے اور اس کے قیام کیلئے کوشاں رہتی ہے“۔ مشہور تاریخ داں عرفان حبیب نے کہا ہے کہ ”تم (امیت شاہ) لوک سبھا کے فلور پر ایسی بات کہتے ہو کیونکہ تم تاریخی حقائق کو نہ سمجھنے اور نہ ماننے کیلئے تیار ہو“۔ ایک اور تاریخ داں ایس راگھون نے رام منوہر لوہیا کی کتاب "Guilty Men of India's Partition and tweeted" (تقسیم ہند کے قصوروار لوگ)کا حوالہ دیاکہ ”اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اکھنڈ بھارت کیلئے نعرہ بلند کرتے ہیں یعنی یہ موجودہ جن سنگھ اور ہندو مت کی روح کے غیر ہندو جانشینوں نے برطانیہ اور مسلم لیگ کو ملک کی تقسیم میں بھرپور مدد اور معاونت کی“۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دو قومی نظریے کے بانی مبانی مسلم لیگ یا محمد علی جناح ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن سنگھیوں کے ہیرو اور نظریہ ساز وی ڈی ساورکر نے 1923ء میں اپنے مضمون ”ہندوتو“ میں دو قومی نظریے کا ذکر کیا تھا، جسے 23مارچ 1940ء میں مسلم لیگ نے اپنی ایک قرار داد کے ذریعے منظور کیا تھا۔ 1937ء میں ہندو مہا سبھا کے ایک اجلاس میں احمد آباد میں ساورکر نے دو قومی نظریہ کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ زیادہ بہتر ہے کہ مرض کی تشخیص کی جائے اور مہلک بیماری کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ہم لوگوں کو چاہئے کہ تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیں۔ وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان ایک قوم یا متحدہ قوم نہیں ہے بلکہ دو قوموں پر مشتمل ہے۔ ہندو اور مسلمان“۔ دستور کے ایک کلیدی معمار ڈاکٹر بی آر اامبیڈکر نے کہا تھا کہ ”یہ عجیب و غریب بات ہے کہ مسٹر ساورکر اور مسٹر جناح ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن دو قومی نظریے کو ماننے یا تسلیم کرنے میں دونوں میں مکمل اتفاق ہے۔ دونوں نہ صرف اتفاق کرتے ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں کہ ہندستان میں دو قومیں بستی ہیں۔ ایک ہندو قوم ایک مسلم قوم“۔
گزشتہ روز کانگریس نے سوشل میڈیا پر ایک مہم زور و شور سے دن بھر چلائی اور ایک پیغام یہ پھیلایا کہ ”بی جے پی کی حکومت اور برطانوی حکومت میں خصوصیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنی برتری کیلئے یہ جماعت ملک کے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے ہندو مسلمانوں کو لڑانے اور حکومت کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ملک کو سارے وسائل و ذرائع کو لوٹا تھا اور یہاں کے باشندوں کو تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کیا تھا۔ آج یہی حال بی جے پی اور آر ایس کی حکومت کا ہے۔ دونوں حکومت میں بہت سی مشابہتیں ہیں۔ کانگریسی لیڈر منیش تیواری نے لوک سبھا میں گزشتہ روز کہا کہ کانگریس نے نہیں بلکہ دو قومی نظریہ کا بانی مبانی ساورکر ہیں۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈران نے دلائل اور دستور کی دفعات کی روشنی میں بتایا کہ بل کو واپس لینا چاہئے کیونکہ یہ دستورِ ہند کے خلاف ہے اور ملک کے تکثیری معاشرے کو تہس نہس کر دے گا۔ اس بل کے ذریعے ملک کی ایک دوسری تقسیم کی بنیاد ڈالی جارہی ہے، جس سے ملک مضبوط و مستحکم نہیں ہوگا۔ ایک خاص فرقہ کو نشانہ بناکر سارے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ملک کے بھلے ہونے کے بارے میں سوچنا صریحاً حماقت اور نادانی ہے۔ بی جے پی کے ایم پی کی تعداد لوک سبھا میں 303 ہے اور اس کے اتحادی بھی ہیں اس لئے اسے معلوم تھا کہ تقریروں اور سوال و جواب کے سیشن سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ جب ووٹنگ ہوگی تو بی جے پی کی سازش کامیاب ہوجائے گی اور یہ بل منظور ہوجائے گا۔ لوک سبھا میں بی جے پی کا یہ مقصد پورا ہوگیا۔ راجیہ سبھا میں 11نومبر کو یہ بل پیش کیا جائے گا، وہاں اگرچہ بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ توڑ جوڑ کے ذریعے راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی Manage کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ دونوں ایوانوں میں پاس ہونے کے بعد بل ایکٹ میں تبدیل ہوجائے گا اور صدر جمہوریہ کے دستخط اور نوٹیفیکیشن کے بعد اسے قانون مانا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں بہت سے لوگ سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کریں گے۔ سپریم کورٹ دستور کی دفعہ 14 اور دفعہ 21 کی روشنی میں فیصلہ ہے قانون سب کیلئے برابر ہے۔ مذہب، ذات پات، رنگ و نسل، زبان و جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق یا امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا ہوتا ہے؟ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے معاملے میں جو فیصلہ کیا ہے اور کشمیر کے معاملے میں جو اس کا رویہ اب تک ہے اس کی وجہ سے سپریم کورٹ سے اچھی توقع رکھنا مشکل ہے۔ اب مسلمانوں اور انصاف پسند شہریوں کیلئے مذکورہ بل یا قانون کے خلاف جمہوری طریقے سے زبردست مہم یا آندولن چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہندو اور مسلمانوں نے مل جل کر جدوجہد کی تھی اسی پیمانے پر یا اس سے بڑھ کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت فرقہ پرست عناصر جو آج برسر اقتدار ہیں برطانیہ کے وفادار تھے اور جنگ آزادی میں شامل نہیں تھے۔ اس وقت برطانیہ کی حکومت نہیں ہے لیکن بقول کانگریس موجودہ حکومت برطانوی حکومت کے مشابہ ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں سیاسی اور غیر سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں پر غیر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ذمہ داری زیادہ ہے۔ اس وقت کانگریس کی رہبری اور قیادت میں آزادی کیلئے جنگ لڑی گئی تھی۔ گاندھی، نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عظیم شخصیتیں آزادی کی جدوجہد میں شامل تھیں۔ ایسی عظیم شخصیتیں اس وقت تو نہیں ہیں لیکن شخصیتیں جدوجہد اور عظیم مقصد کیلئے کام کرنے سے عظیم بنتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ دوسری جدوجہد سے اور فرقہ پرستوں سے آزادی کیلئے بہت سی شخصیتیں ابھر کر سامنے آئیں گی اور لوگوں کی قیادت اور رہبری کریں گی۔ (یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
11دسمبر 2019
جواب دیں