الوداع جنوبی افریقہ!

محمد سمعان خلیفہ ندوی

استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل

سدارہ سے تقریباً تین بجے نکلے، اب ہمیں Herrismith کے راستے تقریباً پانچ سو کیلو میٹر کے بعد بینونی پہنچ کر ہی دم لینا تھا، سو شاہراہ عام پر رواں دواں ہوئے اور نماز وغیرہ کے لیے راستے میں دو جگہوں پر رک کر رات دس بجے بینونی پہنچے، اس بیچ میں دو رویہ دل فریب کہسار اور تا حد نگاہ شاداب کھیت کھلیان دل ونگاہ کو فرحت پہنچاتے رہے، جنوبی افریقہ میں شاندار سڑکوں کے علاوہ یہاں کی سواریوں کا انضباط بھی دل کو متاثر کرتا ہے، کہیں کوئی بے ضابطگی یا قوانین کی خلاف ورزی بہ مشکل دکھائی دیتی ہے، ہاں جان ومال کا عدم تحفظ ایک سنگین مسئلہ ہے خاص طور پر رات کے اندھیرے میں سیاہ فام بستیوں سے گزرتے ہوئے بہت خوف محسوس ہوتا ہے، جوا خانے بھی بہت عام ہیں، بعض عالی شان عمارتیں بھی جوا خانے کے طور پر بنائی گئی ہیں جن کو بادی النظر میں دیکھ کر کسی عالی شان تجارتی کامپلکس یا عظیم الشان تعلیمی ادارے کا گمان ہوتا ہے اور ہاں غربت کی بنا پر بھیک مانگنے کا معمول بھی یہاں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے، بالخصوص سفید فاموں کو پہلی بار یہیں بھیک مانگتے ہوئے ہم نے دیکھا۔انھیں راستوں پر کبھی سونے کے پہاڑ یا بالفاظ دیگر انھیں مقامات پر زیر زمین سونے کے خزانے کبھی ہوا کیے مگر آج ان کا نام ونشان نہیں۔ قیام مولانا موسیٰ کے مکان پر رہا، مولانا نے مہمان نوازی کا حق ادا کردیا اور اس سے بڑھ کر اور کیا مہمان نوازی ہوگی کہ جب سے ہم غریب الدیار مسافر مولانا کے یہاں فروکش ہوئے تب سے مسلسل سائے کی طرح ساتھ ہیں اور مولانا خلیل کی طرح راحت رسانی کی ہر ممکن فکریں کررہے ہیں۔جنوبی افریقہ کی تہذیب میں اور بالخصوص اہل گجرات کے رہن سہن میں طہارت خانوں کی صفائی نے خاص طور پر ہمیں متاثر کیا، مخصوص انداز میں تولیے کا استعمال، اپنے بعد آنے والوں کے لیے مکمل ستھرائی کا نظم، ہر چیز کا سلیقہ اور حسن انتظام واقعی قابل رشک ہے۔ کھانے پینے کے موقع پر بھی بہت سارے آداب یقینا ان کے سلیقے کے شاہد عدل ہیں۔اگلے دن ہم ناشتہ کرکے مالبرو Marlboro کی طرف روانہ ہوئے، جہاں پہنچ کر ہمیں کچھ حضرات سے ملاقات کرنی تھی اور شام میں یہاں کے مشہور اور تنہا مسلم ہوٹل قرطبہ میں قیام بھی کرنا تھا، یہ ہوٹل اسلامیانِ اندلس کی یادگار قرطبہ کی یاد میں وہاں کے قلعے کی طرز پر اور اس کی ثقافت کی تقلید میں بنایا گیا ہے، سو طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم نے مالبرو میں دن گزارا، اس دوران میں عصر بعد جوہانسبرگ سے تقریباً بیس کیلومیٹر دور لینس Lenasia میں واقع جنوبی افریقہ کے عظیم علمی مرکز دار العلوم زکریا کی زیارت بھی ہوئی، مگر یہ زیارت بہت مختصر رہی، اگرچہ کہ شیخ الحدیث صاحب سے ملاقات ہوئی مگر یہاں کوئی رہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے تفصیلی طور پر ادارے کو دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ درجات کے صحن سے گزر کر اور لق ودق اور عالی شان عمارتوں کو دیکھ کر حسن انتظام اور سلیقہ مندی کا اندازہ ہوا۔شام کے وقت ہمیں یہاں کے ایک مشہور خیراتی اور تعلیمی ادارے “اشرفل ایڈ” کے ذمے دار مولانا سہیل کے یہاں پہنچنا تھا، موسم بڑا خوش گوار تھا، بونداباندی جاری تھی، اچانک تیز ہوائیں چلیں اور بجلی کی گھن گرج بھی شروع ہوئی، بالآخر ہم مولانا کے پاس پہنچے، ملاقات ہوئی، تبادلۂ خیال ہوا، اشرفل ایڈ یہاں کا مشہور ادارہ ہے جو تقریباً تیس ممالک میں خیراتی کاموں میں سرگرم ہے۔ایک اور خواہش یہاں کے مشہور تعلیمی مرکز دار العلوم آزاد ویل (azaad ville) کو دیکھنے کی بھی تھی، جہاں تقریباً تیس ممالک کے کم وبیش پانچ سو طلبہ زیر تعلیم ہیں، سو یہ خواہش بھی پوری ہوئی مگر سرسری طور پر، البتہ خوشی کی بات یہ رہی کہ یہاں اس کے بانی مبانی اور مہتمم مولانا عبد الحمید صاحب دامت برکاتہم (خلیفہ حکیم اختر صاحب مرحوم) سے ملاقات اور ان کی نصیحت سننے کا شرف حاصل ہوا، مغرب سے عشا تک مولانا یہاں مسجد میں تلاوت کرتے ہیں، مغرب کی نماز کے بعد ہم یہاں پہنچے اور مولانا کے قریب جاکر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد آپ متوجہ ہوئے اور محبتوں سے نوازا، اخلاص، آخرت کی حقیقت، دنیا کی بے ثباتی اور اس کی دولت ونعمت کا ڈھلتی چھاؤں ہونا، دین اور اس کے لیے ہر ممکن قربانی، ان سب موضوعات پر مولانا نے مخصوص انداز میں ایسی سادگی سے بات کی کہ دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔اس سے قبل آزاد ویل کے مشہور اساتذہ مولانا احمد ومحمد چوٹھیا کے دولت کدے پر پہنچ کر ان کی ضیافت سے حظ اُٹھایا اور اس سے قبل ان کے کاروباری مرکز (تا حد نگاہ سیکنڈ ہینڈ کاروں کے شو رومز) کا بھی ایک منظر دیکھا۔ یہاں کے اکثر علماء خود کفیل ہیں، ان کی اپنی معیشت ہے جس کی بنا پر وہ معاشرے پر ایک گہرا اثر رکھتے ہیں۔ خیر بہت ساری خوش گوار یادوں کے ساتھ جنوبی افریقہ کا یہ دس روزہ سفر اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، مولانا موسیٰ اور مولانا خلیل کا اکرام اور ہمہ وقت ساتھ ذہن ودل پر مرتسم ہے یہاں تک کہ اب ہم جوہانسبرگ سے زنجبار کے لیے اڑان بھر رہے ہیں تب بھی یہ حضرات ہمارے ساتھ ہیں۔ اللہ انھیں خوش رکھے۔ یہاں اکثریت کی زبان انگریزی ہے، اس سفر سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم لوگ بھی ذرا سی محنت سے بہ آسانی روانی کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں، سو ہم ضرورت کے موقع پر بات اسی میں کرتے رہے، عربی اور انگریزی زبانوں میں خاص طور پر طلبۂ مدارس اسلامیہ مہارت حاصل کریں تو دنیا کے بیش تر ممالک میں دعوت کے فرض منصبی کو انجام دے سکتے ہیں، ہاں علاقائی زبانوں پر محنت بھی ضروری ہے، یہاں جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کی چار علاقائی زبانیں ہیں جن کے سلسلے میں کوتاہی کا یہاں کے علماء کو شدید احساس ہے اور فکرمندی بھی۔انھیں خیالوں میں مگن اور انھیں یادوں میں محو جوہانسبرگ ایئرپورٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زنجبار کا رخ کرنے والے مسافروں کے لیے پندرہ دن سے ایک نیا قانون نافذ ہوا ہے اور وہ ہے ٹراول انشورنس، اس لیے فورا انشورنس بنوانے کی کوشش کی گئی اور پھر ضروری کارروائیوں کی انجام دہی کے بعد اب ہم اپنے سفر کی اگلی منزل زنجبار کے لیے ہوا کے دوش پر۔سفرنامہ جنوبی افریقہ 14*(سخنؔ حجازی۔ SAF AIR کے ایئر کرافٹ FA570 میں سُوئے زنجبار روانہ ہوتے ہوئے۔ سترہ اکتوبر 2024)*

«
»

امریکا کا قطر سے حماس قیادت کی بے دخلی کا مطالبہ! جانیے کیا ہے پورا معاملہ

، سپریم کورٹ کا فیصلہ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار